'' زمانے کے ساتھ ساتھ لفافے کا استعمال بھی بدلتا رہا۔ پھر یہ ہوا کہ جب غیر قانونی نذرانوں کی تقسیم و ترسیل کا کارو بار شروع ہوا تو اس ناپسندیدہ کام کے لیے لفافہ ہی کام آیااور ۔ لفافوں کے ذریعے مال حرام کی ترسیل کو اس قدر فروغ حاصل ہوا کہ لفافہ کلچر کے نام سے ایک نیاکلچر وجود میں آ گیا۔چند روز پہلے ایک دوست بتا رہا تھا کہ اس کے ضلع کا سی پی او اپنے ماتحت تھانیداروں سے اور ڈی سی پٹواریوں اور تحصیلداروں سے باقاعدگی سے ماہانہ بھتہ وصول کرتے ہیں مگر مارکیٹ میں اس کے لیے رشوت کا لفظ استعمال نہیں ہوتا بلکہ ضلع میں جو اصطلاح مستعمل ہے اس کے مطابق دونوں لفافہ پکڑتے ہیں ۔ ہر دو افسران نے یہ ہدایات دے رکھی ہیں کہ ماہانہ نذرانہ خاکی لفافے میں بند ہو اور بر وقت پہنچے۔کسی قسم کی تاخیر کو ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتا ہے مگر مشکوک چلن والے ہر دو افسروں کی سالانہ خفیہ رپورٹیں جب ان کے افسرانِ بالا لکھتے ہیں تو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ تذکرہ ٔاولیا جدید تحریر کی گئی ہے‘‘۔
یہ اقتباس ذوالفقار احمد چیمہ کی تازہ تصنیف سے ہے۔ ذوالفقار چیمہ پولیس سروس آف پاکستان کے اعلیٰ ترین منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی نیک نامی اور اچھی شہرت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ حکومتوں نے انہیں کسی صوبے کی پولیس کا سربراہ بنانے سے مکمل پرہیز کیا کہ بعد میں کوئی ''پریشانی ‘‘نہ ہو۔ تاہم یہ بھی ہوتا رہا کہ جب کوئی ادارہ قریب المرگ ہو تا تو چار و ناچار چیمہ صاحب کو سونپا جاتا۔ جب پاسپورٹ کا محکمہ ابتری اور ناکامی کے اسفل ِسافلین میں گر چکا تھا تو ذوالفقار چیمہ کے سپرد کیا گیا۔ آٹھ لاکھ کا بیک لاگ ذوالفقار نے تین ماہ میں ختم کیا۔ جہاں ایک دن میں مشکل سے ایک ہزار پاسپورٹ بنتے تھے وہاں پچیس ہزار بننے لگے۔ تین ماہ میں جب حالات بہتر ہو گئے ‘ انہیں وہاں سے ہٹا دیا گیا!
ذوالفقار چیمہ ایک عرصہ سے قومی سطح کے پرنٹ میڈیا میں کالم لکھ رہے ہیں۔ تاہم انہیں اپنی خود نوشت پر کام کرنا چاہیے اور بیوروکریسی کی نئی پود کو بتانا چاہیے کہ ایک راست باز پولیس افسر تنی ہوئی رسی پر‘ گرے بغیر ‘ کیسے چلتا ہے اور خاردار راستے پر دامن کس طرح بچاتا ہے۔ یوں تو اس کتاب سے بھی سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے۔ کتاب میں جا بجا دلچسپ اشعار ڈال کر چیمہ صاحب نے شفیق الرحمان کی یاد تازہ کر دی۔ شفیق الرحمان کے یہ اشعار تو مشہور ہیں ؎
پہلے اس نے مُس کہا پھر تَق کہا پھر بِل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے
تیرے سب خاندان پر عاشق
میرا سب خاندان ہے پیارے
اگرچہ عینکوں سے فرق کچھ اتنا نہیں پڑتا
معنّک لڑکیوں پر لوگ عاشق کم ہی ہوتے ہیں
ذوالفقار چیمہ نے بھی کتاب کو دلکش اور لطیف شعروں سے جا بجا مزین کیا ہے ؎
وہ جہاں بھی گئی‘ لوٹی تو مرے پاس آئی
اک یہی بات ہے اچھی تری بھرجائی کی
یادوں کی سرخ شال کی بُکل سی مار کے
وہ جا رہی ہے ساتھ کوئی‘ تھانیدار کے
بھاویں کَیش ہووے تے بھاویں مال ہووے
وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
گیٹ کے آگے بڑی ویگن کا رُکنا دفعتاً
دیر تک اس سے کریٹوں کا نکلنا یاد ہے
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ نوکر نہیں ہوں میں
بیورو کریٹ ہوتے ہوئے بھی چیمہ صاحب نے بیورو کریسی پر کھل کر تنقید کی ہے اور ایک ثقہ سیاسی خاندان سے ہوتے ہوئے بھی ‘ اہلِ سیاست کی کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ چند اقتباسات دیکھیے :
''ایس ایچ او اپنے کوارٹر میں بیٹھا بار بار پہلو بدل رہا تھا کہ اس کا مختارِ خاص جیدا حوالدار کمرے میں داخل ہوا۔اس کے ہاتھ میں لفافہ دیکھ کر ایس ایچ او کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ جیدے نے نوٹوں کا لفافہ ایس ایچ او کو دیتے ہو ئے کہا '' جناب مقتول کے والد نے کہا ہے سارے رانگڑ پرچے میں ڈال دو ‘ پیسے جتنے مانگو گے دیں گے‘‘۔ ایس ایچ او نے پیسے گن کر واپس لفافے میں ڈالتے ہوئے کہا ''یا اللہ شکر ہے تیرا! سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پیسوں کا بندو بست کیسے ہو گا۔ کیس آنے سے عزت رہ گئی ہے۔ ورنہ پلے کیا رہ جاتا۔ یا رباّ سوہنیا ! بڑی عزت رکھی آ۔ جیدے نے تفصیل پوچھی تو ایس ایچ او نے بتایا کہ صاحب کا بیٹا باہر پڑھتا ہے نا۔ جیدے نے پوچھا ڈپی صاحب کا ؟ نہیں بڑے صاحب کا! ایس ایس پی صاحب کا بیٹا انگلینڈ میں پڑھتا ہے۔ اس کی فیس بھیجنے کی کل آخری تاریخ ہے اور یہ کام صاحب نے میرے ذمے لگایا تھا۔ پیسوں کا بندو بست نہ ہوتا تو صاحب کے سامنے کیا منہ لے کر جاتا ؟ ‘‘
'' سنا ہے اس بار آپ نے چوتھی پارٹی بدلی ہے۔پارٹی بدلتے وقت آپ کا ضمیر آپ کو ملامت ...'' آپ غلط الزام لگا رہے ہیں‘میں نے چوتھی بار نہیں تیسری بار پارٹی بدلی ہے‘‘۔''آپ نے ایسا کیوں کیا؟‘‘، ''بِزتی ( بے عزتی ) سے بچنے کے لیے ‘‘۔'' تو کیا پارٹیاں بدلنے والے کو عزت ملتی ہے ؟‘‘،'' جی نہیں مگر اپوزیشن میں رہ کر بزتی بہت ہوتی تھی۔ تھانے دار گھورتا تھا۔ دفتروں والے ایسے پیش آتے تھے جیسے میں نے ان کا ابا مار دیا ہو۔ کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتا تھا۔ تو میں نے سوچا بے عزتی ہی کرانی ہے تو وہ تو ہر روز گھر میں بھی ہو جاتی ہے۔ اتنے پیسے لگا کر ممبر بننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومتی پارٹی میں ہوں تو کام بھی ہو جاتے ہیں اور دفتروں میں عزت بھی ملتی ہے ورنہ تو مقدمے ہیں‘‘
مگر اصل کام کتاب میں مصنف نے عوام کے حوالے سے کیا ہے۔ ہم لوگ سیاست دانوں اور بیوروکریسی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہو ئے یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام اپنی جہالت اور جاہلیت کی وجہ سے کس طرح غلط کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ عبرتناک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
''گاؤں کے لوگوں سے پوچھا کہ ووٹ کسے دیے ہیں۔پہلی آواز : ایم این اے سے ہم نے اپنے بھائی کے لیے یونین کونسل کی چیئر مینی کا ٹکٹ مانگا تھا۔ اس نے نہیں دیا تو ہم نے اسے ووٹ نہیں دیے۔ دوسری آواز : ہم تو ایم این اے کے پاس مُنڈے کی نوکری کے لیے گئے تھے۔اس نے معصوم بچے سے سوال جواب شروع کر دیے اور پھر کہنے لگا آپ کا لڑکا تو نالائق ہے۔اسے کچھ آتا جاتا ہی نہیں ہے۔اسے نوکری نہیں مل سکتی۔میرٹ پر حق نہیں بنتا۔ اب یہ میرٹ ہمارے اوپر ہی آچڑھا ہے۔ہم نے واپس آکر برادری کا اکٹھ کیا اور مخالف امیدوار کو بلا کر اس کا جلسہ کرا دیا۔ ہم تو ووٹ اسے دیں گے جو ہمارے بچوں کو نوکریاں دلائے‘ میرٹ نہ سنائے۔تیسری آواز۔ ہم نے تو جی ووٹ اسے دیے ہیں جس نے میرے بیٹے کو کسٹم کے محکمے میں ملازمت دلوائی تھی۔اس سے پورا خاندان خوشحال ہو گیا ہے۔ہم ووٹ بھی اسے ہی دیتے ہیں اور بینر اور اشتہارات بھی اسے بنوا کر دیتے ہیں۔
پس یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے پڑھ کرہم اپنے معاشرے کے بہت سے امراض کی تشخیص کر سکتے ہیں۔ تشخیص ہی اصل شے ہے۔ تشخیص کو تسلیم کرنے کے بعد ہی علاج ممکن ہے !