خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں نہ خواب فروخت کرنے پر!
تاہم اس بات کا، بظاہر، کوئی امکان نہیں کہ آنے والے پچاس یا سو سالوں میں مسلم ممالک اسرائیل کا کچھ بگاڑ سکیں۔ یہ پچاس یا سو سال کا عرصہ اس لیے لکھا ہے کہ اسے ثابت کرنا آسان ہے۔ انیسویں صدی کے سفرنامے پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ 1847ء میں یوسف کمبل پوش کا سفرنامہ یورپ شائع ہوا۔ 1870ء میں سر سید احمد خان برطانیہ گئے اور وہاں کا احوال لکھا۔ پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جتنا فرق تعلیم، معاشرت، اقتصادیات، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے اس وقت کے یورپ اور ہم مسلمانوں میں تھا، آج، سو ڈیڑھ سو سال کے بعد، یہ فرق زیادہ تو ہوا ہے‘ کم نہیں ہوا‘ اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان کئی مسلم ممالک کی نسبت، کچھ حیثیتوں میں، زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اس پر قیاس کیجیے کہ باقی ممالک کتنے پیچھے ہیں جبکہ اسرائیل معاشی اعتبار سے اور ٹیکنالوجی میں کم از کم عرب ممالک سے کوسوں آگے ہے۔ اگر گزشتہ سو‘ ڈیڑھ سو برسوں میں ہم جہاں تھے، وہیں کھڑے ہیں تو آئندہ پچاس یا سو سالوں میں کون سے پر نکل آئیں گے؟ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ 'جیڑھے اِتھے بھیڑے، او لاہور وی بھیڑے! یعنی جو لوگ اپنی نیچر میں برے ہیں، وہ لاہور جیسے خوبصورت شہر میں جا کر بھی بُرے ہی رہیں گے۔
مگر اصل رونا معاشی پس ماندگی اور ٹیکنالوجی میں تفاوت کا نہیں۔ اصل مسئلہ کچھ سوالات کا ہے کہ ہمارے پاس ان کے کیا جوابات ہیں؟
پہلا سوال یہ ہے کہ سینی گال، موریطانیہ اور مراکش سے لے کر ملائیشیا اور برونائی تک، تمام آزاد مسلم ممالک مسئلۂ فلسطین کے لیے مل بیٹھنے پر آمادہ ہیں؟
دوسرا‘ کیا ایسی خارجہ پالیسی کی تشکیل پر وہ اتفاق کر لیں گے جس کا مرکزی نکتہ اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینیوں کی آزادی ہو؟
تیسرا‘ اس خارجہ پالیسی کے تحت، جب بھی ضرورت پڑی، کیا وہ اسرائیل نواز ملکوں سے تعلقات توڑ سکیں گے؟
چوتھا‘ کیا اسرائیل کے حملوں کو روکنے اور جوابی کارروائی کے لیے پچپن ممالک متحدہ فوج، بالخصوص مشترکہ فضائیہ کی تشکیل کریں گے؟
پانچواں‘ کیا اس فوج کے اور دیگر متحدہ منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک مشترکہ مسلم فنڈ قائم کریں گے؟
ان سوالات کے جواب معلوم کرنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے نہ فلسفے کے کسی لمبے چوڑے علم کی! مشترکہ فوج بشمول فضائیہ کا، مشترکہ فنڈ اور یکساں فارن پالیسی کا، دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ وجوہ اس کی بہت سی ہیں‘ مگر عالم اسلام کے انتشار بمقابلہ اسرائیل‘ کی چار بڑی وجوہ ہیں۔ اول‘ مسلمان ملکوں میں فیصلے عوامی نمائندے نہیں کرتے۔ پارلیمان کہیں نہیں۔ جہاں ہے وہاں ایک شو پیس سے زیادہ نہیں۔ ترکی، ملائیشیا یا پاکستان بظاہر جمہوری ممالک ہیں مگر اپنے ملک کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ نواز شریف کا دور ہو یا عمران خان صاحب کا، پارلیمنٹ کی حیثیت اس عمر رسیدہ پہلی بیوی کی سی ہے جس کے بعد نوجوان بیویاں شوہر پر قبضہ کر لیتی ہیں، آرڈیننسوں کی بھرمار ہے۔ بزدار صاحب کی مثال ڈھکی چھپی نہیں۔ بچے بچے کو معلوم ہے کہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں۔ جہاں پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کو گھاس نہ ڈالی جائے وہاں فردِ واحد یا اس کی کچن کابینہ، اسرائیل جیسے مہیب مسئلے پر خاک فیصلے کرے گی؟ اس کے مقابلے میں مغربی ممالک، جن کی اکثریت اسرائیل کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتی ہے، اپنی اپنی پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اس کا، منجملہ دیگر فوائد کے، ایک بڑا فائدہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ پالیسیاں اوبامہ کی یا جو بائیڈن کی نہیں، نہ ہی تھریسا مے یا بورس جانسن کی ہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی ہیں۔ سعودی عرب کو لیجیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ پالیسیاں شہزادہ ایم بی ایس کی نافذ ہو رہی ہیں۔ پھر مسلمان ملکوں میں وسط ایشیا کی ریاستیں تو، مسلم اتحاد، اگر بن بھی جائے تو، بالکل ہی بارہ پتھر باہر ہیں۔ یہ ریاستیں عملاً اب بھی آہنی پردے کے پیچھے ہیں اور روس کی مٹھی سے باہر ہیں نہ باہر نکلنا چاہتی ہیں۔
دوم‘ مسلمان ملک، بد قسمتی سے دو واضح گروہوں میں منقسم ہیں۔ مسلکی اختلاف سیاست میں در آیا۔ (ویسے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیاسی اختلاف تھا جو مسلکی دروازے میں داخل ہو گیا) ۔ یہ امت کی بد قسمتی ہے کہ اس وقت عرب ممالک کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ عرب عجم مخاصمت کی جڑیں گہری ہیں مگر ماضی قریب میں ایک انقلاب کی برآمد کے نعروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس سے عربوں کا جھکاؤ اسرائیل کی طرف ہو گیا۔ غالباً خوف کے سبب۔ ہم چونکہ تجزیہ کر رہے ہیں، اپنی رائے نہیں دے رہے اس لیے یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ عجم کی غلطی ہے یا عربوں کی۔ ہم صرف واقعات اور اعلان شدہ پالیسیوں کی بنیاد پر تجزیہ و تحلیل کر رہے ہیں۔ جب عدم اعتماد اور ایک دوسرے سے خوف اس حد تک پہنچ جائے تو اتحاد، وہ بھی عساکر کی بنیاد پر!! ناممکن ہے۔ تاہم آج کل کچھ حوصلہ افزا خبریں آرہی ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے سالِ رواں‘ اٹھائیس اپریل کو عریبیہ ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہو ئے کہا کہ وہ ایران سے اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ اس سے پہلے یہ رپورٹیں بھی موصول ہوئیں کہ عراق میں دونوں ملکوں کے ٹاپ کے افسروں نے آپس میں بات چیت کی ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید کی نہ تائید بلکہ یہ کہا کہ ایران بات چیت کو ہمیشہ خوش آمدید کہتا ہے۔ بہرطور یہ آغاز ہے۔ اس کی بنیاد پر کسی بڑے بریک تھرو کی امید نہیں کرنی چاہیے‘ لیکن اگر یمن کا ایشو حل ہو جائے تو یہ ایران عرب دوستی کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا۔ بد قسمتی سے عالم اسلام میں کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آرہی جو اس ایشو کو اپنی دانائی سے حل کرا سکے۔
سوم‘ فرض کیجیے اتحاد ہو بھی جائے اور بلی، بچوں کے بجائے انڈے دے بھی دے تو مسلم ملک لڑیں کے کس چیز سے؟ نعروں سے؟ فتووں سے؟ اپنی املاک نذر آتش کر کے؟ تقریروں سے؟ سونے کی بنی ہوئی لیموزینوں سے؟ گولڈ پلیٹڈ برقی سیڑھیوں سے؟ اقبال نے کہا تھا:
ہوائیں اُن کی، فضائیں اُن کی، سمندر اُن کے، جہاز اُن کے
گِرہ بھنور کی کُھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
مغربی ملکوں کی برآمدات دیکھ لیجیے۔ جہاز‘ آب دوزیں، ٹینک، کمپیوٹر، پورے پورے کارخانے، لائف سیونگ ادویات، گاڑیاں، کمپریسر، موبائل فون‘ ریل کے انجن جبکہ مسلم ملکوں کی برآمدات زیادہ تر زرعی اجناس، پھل اور سبزیوں پر مشتمل ہیں۔ رہی کچھ ملکوں کی تیل کی دولت! تو وہ بھی سب کو معلوم ہے کہ کن کی کمپنیوں نے تیل ڈھونڈا، متعلقہ ٹیکنالوجی فراہم کی اور چلائی۔ اسرائیل خود بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی یافتہ ہے۔ پھر اس کے پشتی بان تو وہ ہیں جو کرۂ ارض کی بادشاہی کے دعوے دار ہیں‘ اور یہ بادشاہی جمہوریت، سائنسی ترقی، ایجادات، نظام عدل اور انسانی حقوق کے احترام سے حاصل ہوئی ہے۔
اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم مسلمان کتنے پانی میں ہیں۔ کتنے ہی فلسطینی گزشتہ چند دن میں شہید کر دیئے گئے۔ پچپن مسلمان ملک اسرائیل کا بال بیکا نہیں کر سکے۔ جن مسلم ملکوں کے پاس دولت ہے ان کے سلاطین و امرا ایک ایک ہزار خدام کے ساتھ سفر پر نکلتے ہیں۔ جو ملک غریب ہیں وہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔ اسرائیل کے لیے میدان کھلا ہے۔