یہ دلدوز واقعہ آپ نے کئی بار سنا ہو گا۔چوہے نے ہاتھی کے بچے کو دیکھا تو اس کی جسامت دیکھ کر سوچا یہ ضرور پندرہ بیس سال کا ہو گا۔ اس سے پوچھا تمہاری عمر کیا ہے؟ چھوٹے ہاتھی نے کہا: دو سال! چوہے نے بھرّائی ہوئی آواز میں کہا:ہوں تو میں بھی دو سال کا مگر ذرا بیمار شیمار رہا ہوں!
بھارت میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں ‘ کانگرس اور بی جے پی ‘ کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر ایک تیسری قوت میدان میں اُتری۔ اروند کجریوال ایک بیورو کریٹ تھے۔ مقابلے کا امتحان پاس کر کے انڈین ریونیو سروس میں جوائنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے طور پر کام کر رہے تھے۔ معروف سوشل ورکر انّا ہزارے نے جب کرپشن کے خلاف عوامی تحریک چلائی تو اروند کجریوال اس کے ساتھ تھے۔ انّا ہزارے ایک مندر سے ملحقہ چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔ شادی کا جھنجٹ پالا ہی نہیں تھا۔ اس پر آر ایس ایس کا ساتھ دینے اور مسلم دشمنی کے الزامات بھی تھے۔ کجریوال نے جب سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تو انّا ہزارے نے اس کی مخالفت کی۔ انّا ہزارے کا موقف یہ تھا کہ سیاست میں آئے بغیر ‘ دھرنوں اور بھوک ہڑتالوں سے مطالبات منوائے جائیں۔ اروند کجریوال نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا اور انّا ہزارے سے الگ ہو کر ''عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی۔ انتخابی نشان جھاڑو رکھا۔ کامیابی نے اس کا ساتھ دیا۔ اس وقت وہ دہلی کا چیف منسٹر ہے اور یہ منصب اس نے تیسری بار‘ الیکشن جیت کر حاصل کیا ہے۔
دہلی کی حالت اروند کجریوال نے بدل کر رکھ دی۔ تعلیم‘ بجلی‘ صفائی‘ غرض کئی شعبوں میں انقلابی اقدامات کیے۔ ایسا نہیں کہ وہ اور اس کی کابینہ کے ارکان ہی اپنی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔عوام نے اس کی خدمات کو مانا اور بعد کے دو انتخابات میں اس کی پارٹی کو ووٹ دیا، مگر اس سے بھی زیادہ قابلِ تعریف حقیقت یہ ہوئی کہ کجریوال نے اپنا لائف سٹائل نہیں بدلا۔ وہی عام سا لباس‘ وہی ایک مفلر‘ پاؤں میں کبھی چپل‘ کبھی سادہ سے جوتے۔ گنجان محلے میں رہ کر بھی کسی اُڑنے والے فولادی پرندے کا سہارا نہ لیا۔یہی حال اس کی کابینہ کے دیگر ارکان کا ہے۔ بڑی بڑی گاڑیاں نہ محلات! اب دیگر ریاستوں میں بھی ''عام آدمی پارٹی‘‘ زور پکڑ رہی ہے۔ آنے والے انتخابات میں پوری توقع ہے کہ پنجاب میں اس کی حکومت بنے گی۔ گوا میں بھی اس کی جیت کے روشن امکانات ہیں۔ عام آدمی پارٹی اس بار یو پی‘ اُترکھنڈ اور ہماچل پردیش میں بھی انتخابات جیت کر حکومت بنانے کا عزم رکھتی ہے۔
اب پلٹتے ہیں چوہے اور ہاتھی کے بچے کی طرف! پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی باریوں سے تنگ آکر ہم نے بھی امیدیں تیسری قوت کے ساتھ وابستہ کی تھیں ! ہم جیسے لوگ جو الیکشن کے دن گھروں سے کبھی نکلے ہی نہیں تھے‘ 2018ء کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے رہے۔ مگر افسوس! ہم ذرا بیمار شیمار نکلے۔ ہمارے خوابوں کے درختوں پر چمگادڑوں اور الّوؤں نے بسیرا کر لیا۔ ہمارے باغ جھاڑ جھنکار سے بھر گئے۔
میں تمہارے عہد کی برکتوں کا نشان ہوں
مریے سر پہ بُوم ہے‘ زاغ ہے مرے ہاتھ میں
ہمارے آدرش ہیلی کاپٹر کی نذر ہو گئے۔کابینہ میں وہ براجمان ہو گئے جو کروڑوں کے قرضے معاف کرا کے ڈکار تک نہیں لے رہے۔ اس ماتم کی کہانی لمبی ہے۔ جتنی سینہ کوبی کی جائے‘ کم ہے! حقیقتیں سب کے سامنے ہیں۔ کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں! ہر روز یہ الم ناک داستان دہرائی جاتی ہے۔ کالم ہوں یا ادارتی نوٹ یا ٹی وی کے تجزیے‘ ایک ایک زخم کا کھرنڈ کئی کئی بار چھیلا جا چکا!
مگر یہ آہ و زاری تا بکہ ؟اس رونے پیٹنے کا فائدہ؟ جو دودھ پھٹ چکا ‘ وہ پھٹ چکا! جو گنّا گنڈیریوں میں تبدیل ہو چکا‘ وہ دوبارہ گنّا نہیں بننے کا! تو پھر کیا ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائیں ؟ کیا بدقسمتی ہمیں پھر اُنہی دو‘ بار بار آزمائی گئی پارٹیوں کی طرف لے جانا چاہتی ہے؟ اگر تیسری قوت سراب ثابت ہو ئی تو کیا اس سراب میں پیاسے مر جائیں ؟ حالیؔ اس موڑ پر دستگیری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بس اے ناامیدی نہ یوں دل بجھا تو
جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تو
ذرا ناامیدوں کی ڈھارس بندھا تو
فسردہ دلوں کے دل آ کر بڑھا تو
ترے دم سے مُردوں میں جانیں پڑی ہیں
جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں
سر سید کہتے تھے روزِ جزا خدا نے پوچھا کہ کیا کر کے لائے ہو تو مسدّسِ حالی پیش کروں گا کہ یہ لکھوائی ہے! کون سی مسدّسِ حالی؟ وہی جس کا نام بھی نئی نسل کو نہیں معلوم! نہ ضمیر جعفری کی مسدّسِ بد حالی ہی سے واقف ہیں! مگر یہ نوحہ خوانی پھر کبھی! اس وقت تو حالی جو امید دلا رہے ہیں اس کا دامن پکڑنا چاہیے!
شکوہ ہمیں اپنے بڑوں سے ہے۔ ایک بہت ہی محترم اور میرے مہربان کالم نگار کی تحریر سے معلوم ہوا کہ جناب تسلیم نورانی ‘ نورانی فاؤنڈیشن بنا کر بیٹھ گئے ہیں۔ شورش کاشمیری نے ہفت روزہ چٹان نکالا تو کسی نے کہا تھاکہ پہاڑوں سے ٹکرانے والا شورش چٹان کا سہارا لے کر بیٹھ گیا!یاد رہے کہ تسلیم نورانی تحریک انصاف کا حصہ تھے۔ پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر تھے۔ اصولوں پر ڈٹ گئے اور نامزدگیوں کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ناقابلِ قبول ٹھہرے۔مستعفی ہو کر واپس آگئے۔ چھوٹا منہ بڑی بات مگر نورانی صاحب کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ آپ کے بے مثال اور آئیڈیل تعلیمی ادارے سے جو نوجوان فارغ التحصیل ہوں گے ‘ وہ اس ناانصافی کے سسٹم میں اور اس مضحکہ خیز گورننس میں کریں گے کیا؟ وہ'لا محالہ‘ کسی ترقی یافتہ ملک کے سفارت خانے کے سامنے قطار میں کھڑے ہو کر ویزہ لگوائیں گے اور اُن لاکھوں نوجوانوں میں گم ہو جائیں گے جو نا انصافی اور میرٹ کُشی سے عاجز آکر وطن چھوڑ گئے! حضور ! سسٹم بدلے گا تو ایجوکیشن میں انقلاب لانے کا ثمر ملے گا! ورنہ اگّوں دوڑ تے پچھوں چَوڑ ! جسٹس وجیہ الدین بھی گھر بیٹھ گئے! آپ جیسے لوگ نا امید ہو گئے تو ہم جیسے عامی ‘ الیکشن کے دن پھر گھروں سے نہیں نکلیں گے۔ اٹھیے! اس ملک نے تیسری قوت کا مزا چکھ لیا اور خوب چکھ لیا! اب چوتھی قوت کی ضرورت ہے! مایوسی کفر ہے۔ اس ملک نے ہمیشہ دلدل میں نہیں رہنا! ایسا ہونا ہوتا تو قدرت قائد اعظم کو نہ پیدا کرتی اور اقبال محض گُل و بلبل کی شاعری کرتے! جو آدرش تیسری قوت نے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیے‘ انہیں اٹھانا ہے اور ہمی نے اٹھانا ہے! آپ تعلیمی میدان میں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ‘ لائقِ صد تحسین ہے مگر اسے اخوت والوں کے سپرد کیجیے۔ آپ پارٹی بنائیے! یہ بے بضاعت فقیر آپ کا پہلا رکن بنے گا اور اس کے ہزاروں چاہنے والے بھی! اروند کجریوال ہمارا آئیڈیل نہیں مگر ایک مثال تو ہے! اس ملک کو وہ رہنما درکار ہیں جو حکومت میں آکر اپنالائف سٹائل نہ بدلیں! فضاؤں میں نہ رہیں! زمین سے رشتہ نہ توڑیں! انہی مصروف‘ ٹریفک کی بے قاعدگیوں سے بھری‘ سڑکوں سے گزر کر دفتروں میں پہنچیں! کروڑوں کے قرضے معاف کرانے والوں اور چینی‘ آٹے اور ادویات سے اربوں کمانے والوں کے ساتھ نہ بیٹھیں !