بال کھول لو، پٹکے کمر کے ساتھ باندھ لو۔ پھر سینہ کوبی کرو۔ یہاں تک کہ تم گر جاؤ اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دو۔ اس لیے کہ جینے کا جواز ختم ہو چکا!
اس کائنات میں جتنے جہان ہیں اور جتنے زمانے ہیں اور جتنی دنیائیں ہیں اور جتنی زمینیں ہیں اور جتنے آسمان ہیں اور جتنی کہکشائیں ہیں اور جتنے ستارے ہیں اور جتنے سیارے ہیں، اور جتنے شمسی نظام ہیں اور جو آئندہ بھی اس ہر لحظہ پھیلتی کائنات میں پیدا ہوں گے ان سب میں مقدس ترین مقام وہ ہے جہاں اللہ کے آخری رسول محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں‘ اور وہ شہر مقدس ترین ہے جہاں آپ اپنا وطن چھوڑ کر تشریف لائے اور جو آپ کو اتنا عزیز تھا کہ تا دمِ آخر اس سے جدا نہ ہوئے۔ کیا شہر ہے جہاں کے کنکر موتی ہیں، جہاں کے درخت آسمانی ہیں جس کی مٹی بادشاہوں اور ولیوں اور عالموں کی آنکھ کا سرمہ ہے۔ روضۂ رسول تو روضۂ رسول ہے، مسجدِ نبوی تو مسجدِ نبوی ہے، مدینہ کی تو عام گلی بھی ادب کا اور خاموشی کا اور شرافت کا تقاضا کرتی ہے۔
کاش تم دیکھ سکتے کہ فرشتے وہاں کس حالت میں حاضری دیتے ہیں! اس کائنات کا مالک، خود، ہاں خود، جس ہستی پر درود بھیجتا ہے اور اس کے لاکھوں‘ کروڑوں فرشتے جس پر درود بھیجتے ہیں اور جس سے موت کا فرشتہ اجازت لے کر اپنا فرض ادا کرتا ہے۔ اور جس پر ہر وقت، ہر لحظہ کروڑوں لوگ سلام بھیجتے ہیں، وہ کھربوں لوگ بھی جو دنیا سے چلے گئے اور وہ لا تعداد انسان بھی جو قیامت تک آئیں گے، اُس ہستی کی عظمت کا اور تقدیس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
تیرہ بختو! تم سے تو لکڑی کا وہ بے جان ستون ہزار گنا افضل ہے جو اُس وقت دھاڑیں مار مار کر رویا جب اس کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ دینے کے بجائے اللہ کے رسولﷺ منبر پر تشریف لے گئے۔ تم سے تو وہ کنکر لاکھ درجہ بلند مرتبہ ہیں جنہوں نے آپﷺ کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے کلمہ پڑھا۔ افسوس صد افسوس! تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ تم نے کیا کر دیا۔ ہیہات! ہیہات! تم نے اُس ہستی کے سامنے شور و غوغا کیا جس کے سامنے ابوبکرؓ و عمرؓ اور عثمانؓ و علیؓ جیسے بے مثال انسان دبی زبان میں بات کرتے تھے۔ تم نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ تم گڑھے میں گر گئے۔ تم اگر تائب نہ ہوئے تو اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں! تم نے اُس پروردگار کو ناراض کیا جو اپنے محبوب کی شان میں ایک رمق بھر، ایک رتی جتنی، ایک قطمیر کے برابر گستاخی نہیں برداشت کرتا۔ بد نصیبو! تم اس مقدمے میں پھنس چکے جس کا مدعی، کوئی اور نہیں، خود خداوندِ قدوس ہے! آج تک، ان ساری صدیوں میں، ان سارے برسوں میں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی گستاخ دنیا ہی میں نشانِ عبرت نہ بنا ہو! آخرت تو پھر آخرت ہے! وہاں کا عذاب تو شدید تر ہے!
کسی امام، کسی عالم، کسی مجتہد، کسی فقیہ، کسی مفسر، کسی محدث کسی مولانا، کسی آیت اللہ کو اس امر میں کوئی شک، کوئی اشتباہ نہیں اور سب اس پر متفق ہیں کہ اگر حرمتِ رسول جان سے بڑھ کر عزیز نہیں، اگر جناب کی ذات اقدس اپنی ماں اور اپنے باپ سے بڑھ کر پیاری نہیں تو ہزار سال کیا، ایک لاکھ سال کی عبادت، سجدے، دعائیں، روزے، حج، عمرے، زکوٰۃ، سب بیکار ہے! جس مسجد میں پلکوں سے جھاڑو دینا خوش قسمتی کی انتہا ہے، وہاں تم نے دنیا کی آلائش بکھیر دی! فرشتے حیران ہیں کہ پتھر برسانے کا حکم کیوں نہیں مل رہا! آندھیاں، زلزلے، طوفان، سیلاب، سب پا بہ رکاب ہیں کہ حکم ملے تو گستاخوں کو گرے ہوئے درختوں کے تنوں کی طرح بے جان کر دیں! اس کائنات کا ہر ذرہ افسردہ ہے! ایک ایک پھول، گھاس کا ایک ایک تنکا پژمردہ ہے۔ عناصر دھرتی الٹنے کو بے تاب ہیں! رعد اور برق فریاد کناں ہیں کہ انہیں کڑکنے اور جلانے کے لیے کیوں نہیں کہا جا رہا! تم نے غضب ڈھایا۔ اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تم سے گناہ صادر ہوا! مگر اس سے بھی بد تر یہ ہوا کہ تم نے گناہ پر اصرار کیا۔ اس کی توجیہات اور تاویلات پیش کیں! آئیں بائیں شائیں سے کام لیا! گناہ پر اصرار کر کے، گناہ کو بغاوت میں بدل دیا۔ کیا تم نہیں جانتے کہ ساری عزت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے! تم کون ہو؟ تمہاری حیثیت کیا ہے؟ اب تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں! ہم دیکھتے ہیں تمہارے سرپرست تمہیں کب تک بچاتے ہیں! اللہ تدبیریں کرنے والے تمام لوگوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے! مچھر سے لے کر پہاڑ تک، کچھ بھی، کوئی بھی، کسی بھی وقت، سزا نافذ کر سکتا ہے! اپنے محبوب کی شان میں گستاخی کا ردّ عمل دینے کے لیے پروردگار، قیامت کا انتظار نہیں کرتا! اب تمہارے لیے ہر دن قیامت کا دن ہے! تمہارے لیے ہر رات انتظار کی رات ہے۔ بہت جلد تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے دل تمہارے خلاف بغاوت کر رہے ہیں اور تمہارے دماغ تمہارا ساتھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔
ایودھیا میں مسجد کی چھت پر چڑھ کر اس کے گنبد پر حملہ کرنے والا پہلا شخص بلبیر سنگھ تھا۔ جب وہ یہ کارنامہ سرانجام دے کر اپنے شہر پانی پت لوٹا تو اسے ہیرو کا درجہ دیا گیا۔ دوسرے دن ہی وہ ذہنی عذاب میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا دماغ اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اس کا دل جسم کی قید سے نکلنے کے لیے بے تاب تھا۔ اس کی حالت ایسی ہو گئی کہ سب کو یقین ہو گیا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ ایک بے پناہ، پُراسرار اذیت تھی جس میں وہ گرفتار ہو گیا۔ زمین اس کا بوجھ برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ آسمان میں کوئی دریچہ وا نہ تھا جس میں داخل ہو کر اسے سکون ملتا۔ بھوک مٹ گئی تھی، نیند اُڑ گئی تھی۔ اسے لگتا تھا دنیا میں کوئی اس کا اپنا نہیں۔ یہ عذاب تب ختم ہوا جب اس نے اسلام قبول کیا اور اپنے آپ سے اور اپنے پروردگار سے عہد کیا کہ ایک مسجد کے بدلے میں ایک سو مسجدیں تعمیر کرے گا۔ نوّے مساجد وہ مکمل کر چکا ہے۔ بلبیر سنگھ سے محمد عامر بننا اور اس کے ایک ساتھی کا بھی مسلمان ہو جانا انتہا پسند ہندوؤں کے گال پر ایک زناٹے دار تھپڑ سے کم نہ تھا۔ ایودھیا مسجد تو بابر نے تعمیر کرائی تھی۔ ایک دنیا دار حکمران! ایک گنہگار بادشاہ! جُوع الارض کا مارا ہوا! ارے خدا کے بندو! بے حرمتی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی بنائی ہوئی مسجد کی بھی برداشت نہیں کی، تو اپنے نبی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مسجد کی توہین کیسے برداشت کرے گا۔
روئے زمین پر قائم ہر مسجد مقدس ہے اس لیے کہ اَنَّ الْمَسَاجِدَ للہ! مسجدیں اللہ کے لیے ہیں۔ اور وہ مسجد! جس کی زمین آپﷺ نے خود خریدی، اپنے ہاتھوں سے تعمیر کی! جہاں آپﷺ قیامت تک تشریف فرما ہیں! اُس مسجد کو تم کیا سمجھ رہے ہو؟ ہوش کرو! ہوش!
توبہ! اجتماعی توبہ! پوری قوم توبہ کرے! گھروں سے نکلے! میدانوں، پارکوں، باغوں، صحراؤں میں جمع ہو! گڑگڑا کر معافی مانگے اور اُن بدنصیبوں سے قطعِ تعلق کرے جو اس گستاخی میں شامل تھے!