خاندان کے خاندان ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ دن دہاڑے قتل کیے جا رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ریاست بے نیاز ہے۔ حکومتی ترجیحات کی فہرست میں عوام کی جان و مال کی حفاظت دکھائی نہیں دیتی۔ پولیس لاتعلق ہے۔ منتخب ایوان اس ضمن میں قانون سازی نہیں کر رہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس خونخوار سفاکی کو سنجیدگی سے لے نہیں رہیں! نتیجہ یہ ہے کہ روک ٹوک کوئی نہیں۔ قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ لوگ مارے جارہے ہیں۔ لوگ ہلاک کیے جا رہے ہیں۔ لوگ ختم ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ یتیموں اور بیواؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شاید آہیں آسمان تک جا نہیں پا رہیں۔
منتخب ایوانوں کو اگر عوام کی حالت کا احساس ہوتا اور قوم کا درد ہوتا تو قومی اسمبلی کا یاکسی صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن تو کھڑا ہو تا اور حکومت سے پوچھتا کہ گزشتہ پانچ سال یا دو سال‘ یا چلو ایک سال ہی میں‘ ٹریکٹروں‘ ٹرالیوں‘ ڈمپروں‘ آئل ٹینکروں اور واٹر ٹینکروں نے کتنے لوگ ہلاک کیے ہیں ؟ کسی منتخب ایوان کی اگر ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو وہ اس قتلِ عام پر تشویش کا اظہار کرتا اور اس سلسلے میں ضروری قانون سازی کرتا‘ مگر المیہ یہ ہے کہ وہ جو منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا جن کے ذمے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہے‘ انہیں کبھی ان ڈمپروں‘ ان ٹرالیوں‘ ان ٹریکٹروں اور ان ٹینکروں کے ہاتھ نہیں لگے۔ ہاتھ لگیں بھی تو کیسے‘ یہ تو مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور مراعات یافتہ طبقے کے ارکان جہازی سائزکی لینڈ کروزروں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کی گاڑیوں کے آگے پیچھے اسلحہ بردار گماشتے ہوتے ہیں۔کچھ گاڑیوں پر جھنڈے پھڑ پھڑا رہے ہوتے ہیں۔ ان شاہانہ سواریوں کو دیکھ کر ڈمپر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیاں اور ٹینکر دور ہی سے راستہ تبدیل کر لیتے ہیں۔بھیڑیے شیروں اور چیتوں پر کبھی حملہ نہیں کرتے۔ شیر اور چیتے تو خود چیرنے پھاڑنے والے ہیں اور مراعات یافتہ ہیں۔ بھیڑیے صرف نیل گائیوں‘ غزالوں‘ اور بکریوں پر حملہ کر کے انہیں ہلاک کرتے ہیں۔ڈمپر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیاں اور ٹینکر بھی چھوٹی گاڑیوں‘ موٹر سائیکلوں‘رکشاؤں‘ چنگ چیوں اور ویگنوں کو شکار کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی گاڑیاں‘ چنگ چی اور ویگنیں عام لوگوں کی سواریاں ہیں۔ عام لوگوں کو ہلاک کرنے سے کوئی طوفان نہیں اٹھتا۔ کوئی قیامت نہیں آتی۔کسی قانون کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔ کوئی طاقت‘ از خود نوٹس نہیں لیتی ؎
نہ مدعی نہ شہادت‘ حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا
صرف ایک دن کا سکور ملاحظہ کیجیے۔ فیصل آباد سمندری روڈ پر آئل ٹینکر نے رکشے کو ٹکر ماری اور اس میں سوار ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو چشم زدن میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پولیس کے بیان کی رُو سے ٹینکر کا ڈرائیور تیز رفتاری کا مرتکب ہو رہا تھا۔ پانچ بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے بعد‘ ٹینکر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ دوسری خبر کے مطابق حافظ آباد گوجرانوالہ روڈ پر ڈمپر نے دو مسافر ویگنوں کو ٹکر ماری۔ بارہ انسان مر گئے۔ آٹھ زخمی ہیں۔ یہ حادثہ بھی ڈمپر ڈرائیور کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا۔ مگر اس سے بھی کئی گنا زیادہ دردناک اور بھیانک خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ دونوں نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیاہے۔ دونوں حکمرانوں نے مرے ہوؤں کے لیے جنت کی اور پسماندگان کے لیے صبر کی دعا بھی کی ہے! سوال یہ ہے کہ کیا دعا کے بعدحکمرانوں کی ذمہ دار ی ختم ہو گئی ؟ افسوس اور دعا تو ان سب لوگوں نے کی ہو گی جنہوں نے خبر سنی یا جو تعزیت کے لیے آئے۔ آپ حکمران ہیں۔ آپ نے صرف افسوس اور دعا نہیں‘ سدِ باب بھی کر نا ہے۔ آپ نے دماغ کا اطلاق بھی کرنا ہے۔ ان گاڑی نما عفریتوں کے لیے راستے مخصوص کر نے ہوں گے یا سزائیں سخت کرنا ہوں گی یا وحشی‘ان پڑھ‘ جلاد صفت ڈرائیوروں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔ قانون سازی کرنا ہو گی۔
کراچی میں صورتحال ابتر ہے۔ سال ِرواں کے پہلے چار ماہ کے دوران ٹریفک کے جتنے حادثات ہوئے ان میں سے نصف سے زیادہ کے ذمہ دار ڈمپر‘ٹرالر اور ٹینکر تھے۔ 22 مارچ کو شاہراہ فیصل پر ایک شخص اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ ایک سیمنٹ مکسر نے تینوں کو کچل دیا۔ داؤد چورنگی کے پاس ایک واٹر باؤزر‘ یعنی پانی والے ٹینکر کی بریکیں فیل ہو گئیں اور وہ دو موٹر سائیکل سواروں کے اوپر سے گزر گیا۔ کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ بڑی گاڑیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پولیس کچھ نہیں کرتی! اصل مسئلہ یہ ہے کہ پولیس کچھ کر نہیں سکتی۔ سزائیں نرم ہیں۔ قوانین میں کمزوریاں ہیں۔ایک ڈرائیور اگر ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کو موت کے گھاٹ اتار تا ہے تو اسے قتلِ عمد سمجھنا چاہیے نہ کہ قتلِ خطا! جو خاندان خون کے آنسو رو رہے ہیں ان کی حالتِ زار سے سب بے نیاز ہیں!
پوری دنیا میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے جتنی اموات ہوتی ہیں اور جتنے لوگ زخمی ہوتے ہیں‘ ان کا نوّے فیصد غیر ترقی یافتہ ملکوں میں ہو رہا ہے۔ اس کی متعدد وجوہ ہیں۔ بھاری گاڑیاں کتنا وزن اٹھا سکتی ہیں؟ کیا ان راکھشس نما گاڑیوں کو باقاعدگی سے چیک کیا جاتا ہے کہ یہ روڈ پر آنے کے قابل ہیں یا نہیں ! اگر بریکیں فیل ہو گئیں تو اس کا مطلب ہے کہ گاڑی سڑک پر چلنے کے قابل نہیں تھی! اسے روکنا جس ادارے کے ذمہ تھا اس نے اپنا کام نہیں کیا ! کیوں ؟ لائسنس ایشو کرتے وقت تمام عوامل کو دیکھا جا رہا ہے یا نہیں ؟ ایسے کئی عوامل ہیں جن پر ہمارے ملک میں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بڑے شہروں کا یہ حال ہے تو قصبوں اور بستیوں میں جو کچھ سڑکوں پر ہو رہا ہے اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔گنّا جب چینی کے کارخانوں میں پہنچایا جاتا ہے تو گنے سے بھری ٹرالیاں سڑکوں پر یوں قابض ہوتی ہیں کہ دوسری ٹریفک کو مشکل ہی سے راستہ ملتا ہے۔ آپ نے بھوسہ لدے ٹرک دیکھے ہوں گے جو مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ جتنا بھوسہ ٹرک کے اندر ہوتا ہے اتنا یا اس سے زیادہ ٹرک سے باہر‘ دائیں‘ بائیں اور پیچھے‘ ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے۔ یوں عملاً ایک ٹرک سڑک پر دو ٹرکوں کی جگہ لیتا ہے۔ ہے کوئی قانون جو ان ٹرکوں کو وزن یا حجم کے اعتبار سے کنٹرول کرے ؟
ٹرکوں کی بہتات کی بھی وجوہ ہیں۔ جنرل ضیاالحق کے عہدِ ہمایونی میں (کہ مسائل کے اکثر کُھرے اُسی طرف جاتے ہیں) ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت بار برداری کا کام ٹرین سے سڑک کی طرف منتقل کیا گیا۔ایسے محکمے تشکیل دیے گئے جو طاقتور اداروں کے سائے میں تھے مگر کام نجی شعبے میں کرتے تھے۔ ان سے سوال جواب کرنا تو دور کی بات‘ ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔سچ پر اس ملک میں ہمیشہ مٹی ڈالی جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ وہیں سے پاکستان ریلوے کا زوال شروع ہوا۔ ریلوے کی کمائی کا اصل ذریعہ پوری دنیا میں کارگو ہے یعنی مال گاڑیاں۔ جب مال گاڑیاں بیکار کر دی گئیں تو آمدنی کم اور نقصان زیادہ ہونے لگا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ جو شخص بار برداری کے طاقتور ادارے کا مدار المہام تھا اُسی کو ریلوے کا وزیر لگا دیا گیا! اندازہ لگائیے کیا کیا ہوتا رہا اس ملک کے ساتھ ! اور کیا کیا ہو رہا ہے !!