آئیے! میرے گھر پر قبضہ کیجیے!

ایک ایڈووکیٹ صاحب نے لاہور ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے۔ مدعی کی فریاد یہ ہے کہ حکومت‘ پی آئی اے کے اکاون فیصد حصص‘ اسلام آباد ایئر پورٹ کا کنٹرول اور پی آئی اے کا نیویارک والا ہوٹل‘ قطر کے حوالے کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ وزیراعظم صاحب نے دورۂ قطر کے دوران خود ہی طے کر لیا ہے۔ مدعی نے یہ نکتہ بھی اٹھایا ہے کہ اس سارے سودے میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یہ کہ اس سودے کو روکا جائے۔
جہاں تک پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تعلق ہے‘ اس کی روایت ہی کہاں ہے؟ وزیراعظم صاحب کے برادرِ بزرگ اپنے تین ادوارِ حکومت میں کتنی بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور کتنے اہم معاملات میں پارلیمنٹ کو شریک کیا؟ عمران خان صاحب کے دورِ حکومت میں پارلیمنٹ کی کیا اہمیت تھی؟ سارا کاروبارِ مملکت تو غیر منتخب مشیروں کا طائفہ چلارہا تھا۔ ویسے‘ پارلیمنٹ میں کسی کی ہمت ہے کہ اس قطر والے سودے کے بارے میں سوال ہی پوچھ لے؟ چیلنج کرنا تو دور کی بات ہے!
رہی یہ بات کہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے کا کنٹرول ایک دوسرے ملک کو دیا جا رہا ہے تو اگر حکومت ہوائی اڈہ نہیں چلا سکتی تو کیا کرے؟ ایئر لائن کا حال سب کو معلوم ہے۔ فی جہاز ملازمین کی تعداد جتنی یہاں ہے‘ شاید کہیں بھی نہیں۔ یہ تو آغاز ہے۔ ہم تو کوئی کام بھی نہیں کر سکتے! کوئی پاکستانی حکومت ڈیم نہیں بنا سکی۔ جاپان میں لاکھوں ڈیم تعمیر کیے گئے ہیں جن میں تین ہزار بڑے ڈیم ہیں۔ جاپان کو کہا جائے کہ آکر ہمیں ڈیم بنا دے۔ ہم سے ریلوے نہیں چل پا رہی۔ بھارت ریلوے کے سیکٹر میں ہم سے بہت زیادہ آگے ہے۔ مگر شریکوں سے تو مدد نہیں مانگتے۔ ریلوے کینیڈا کے سپرد کر دی جائے کہ آکر چلائیں۔ ہماری کچہریوں میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس قلمکار کا چیلنج ہے کہ عمران خان‘ شہباز شریف‘ نواز شریف‘ زرداری صاحب‘ کسی کچہری میں عام آدمی کی طرح جائیں اور‘ کارندوں اور افسروں کی چونچ گیلی کیے بغیر‘ زرعی زمین یا جائداد کا انتقال کرا کے دکھائیں۔ ناروے سے کہیں کہ ہماری کچہریوں کو ''رشوت فری‘‘ کر دے۔ ہمیں سٹیل مل روسیوں نے لگا کر دی تھی۔ ہم نے زور لگا لیا مگر ہم سے نہیں چلی۔ انہی کی خدمت میں درخواست دینی ہوگی کہ آئیں اور چلائیں اور مستقل طور پر یہاں رہ کر چلائیں۔ ہم سے اپنا پاسپورٹ نہیں سنبھالا جا رہا۔ کل ہی خبر پڑھی کہ فتح جنگ میں مقامی لوگ غیر ملکی بھائیوں کی بندوق برداری سے عاجز آچکے ہیں۔ کراچی تک یہی صورت حال ہے۔ بہت عرصہ ہوا ایک عجیب و غریب خبر پڑھی تھی۔ خوست میں رہنے والے چند صاحبان نے پاکستانی پاسپورٹ پر حج کیا تھا۔ عجیب و غریب پہلو اس خبر کا یہ تھا کہ یہ صاحبان پاکستان آئے ہی نہیں تھے! ہمارے شناختی کارڈ غیر ملکیوں میں یوں بٹے ہیں جیسے بچوں میں بتاشے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ڈنمارک سے اپیل کی جائے کہ آکر یہ مسئلہ حل کر دے۔ انڈیا کے پاس دنیا کا ساتواں بہترین زیر زمین ریلوے سسٹم ہے۔ پھر وہی شریکوں والی بات! کیا فرانسیسی بھائی ہمارے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ کراچی‘ لاہور اور پنڈی‘ اسلام آباد میں انڈر گراؤنڈ ریلوے بچھا دیں اور چلا دیں؟ کراچی میں لسانی اور نسلی بنیادوں پر ہم نے اپنی بستیاں الگ الگ بسائی ہوئی ہیں۔ یہی صورت حال آہستہ آہستہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی ابھر رہی ہے۔ یہ ایک انتہائی ناقابلِ رشک صورت حال ہے! ازحد خطرناک! سنگاپور میں تین لسانی اور نسلی اکائیاں آباد ہیں۔ چینی‘ مَلے اور انڈین! کسی ایک اکائی کی بھی الگ رہائشی بستی نہیں ہے۔ فلیٹوں اور اپارٹمنٹوں کے ہر بلاک میں تینوں اکائیوں کی تعداد حکومت کی طرف سے مقرر ہے۔ تینوں اکائیاں خلط ملط ہو کر رہ رہی ہیں۔ کوئی کسی اکائی کو ٹارگٹ نہیں کر سکتا۔ ملائیشیا میں 1969ء میں چینیوں اور مَلے کے درمیان فسادات ہوئے۔ اس کے بعد حکومت نے ایسے اقدامات کیے اور ایسی مؤثر اور دور رس اصلاحات کیں کہ آج تک امن و امان ہے۔ اس سے پہلے کہ ہمارے شہروں سے لاوا پھوٹ بہے‘ ہم سنگاپور اور ملائیشیا سے کہیں کہ آکر ہمیں بھی کوئی سسٹم بنا دیں۔ قصہ مختصر یہ کہ ہمیں ہر شعبہ‘ ہر سیکٹر آؤٹ سورس کرنا پڑے گا یعنی دوسرے ملکوں سے چلوانا پڑے گا۔ ٹھیکے پر بھی دے سکتے ہیں۔
کسی کو اچھی لگے یا بری‘ اصل بات یہ ہے کہ انگریز بہادر کے جانے کے بعد‘ ایک آدھ عشرہ تو ان کے دیے ہوئے سسٹم چلتے رہے۔ بڑا ٹرک رکتے رکتے بھی چند فرلانگ تو چل ہی جاتا ہے! اس کے بعد‘ ان کی انتظامی باقیات ختم ہونے لگیں تو ہم بے نقاب ہوتے گئے اور آج ہم پوری طرح برہنہ ہو چکے ہیں۔ کوئی ایک کل بھی نہیں سیدھی! آپ اندازہ لگائیے۔ ہسپتالوں پر حملے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آئے دن ہڑتالیں کرتے ہیں۔ دل کے مریضوں کو سٹنٹ تک جعلی ڈالے جا رہے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ تھانے میں ایف آئی آر درج کرانا ہمالیہ سر کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ تاجر بد ترین اوقات کار پر مُصر ہیں یعنی ظہر کے بعد بازار کھولتے ہیں اور آدھی رات کو بند کرتے ہیں۔ سارا ملک ناجائز تجاوزات کی وجہ سے بدصورت ہے۔ دکانداروں نے آدھی آدھی سڑکیں قبضے میں لی ہوئی ہیں۔ کسی کی مجال نہیں کہ واگزار کرائے۔ آپ ٹریفک کا حال دیکھ لیجیے۔ شاید ہی کہیں اتنی مادر پدر آزاد ٹریفک ہو! شاہراہوں پر لوگ مکھیوں مچھروں کی طرح مر تے ہیں۔ اسلام آباد ایئر پورٹ بننے میں دس سال سے زیادہ عرصہ لگ گیا۔ اور یہ ایئر پورٹ ہے کتنا بڑا؟ دبئی یا سنگاپور یا کوالالمپور یا دوحہ یا بنکاک ایئرپورٹ کے مقابلے میں گویا ایک چھوٹا سا دیہی ریلوے سٹیشن! آپ غدر دیکھیے کہ ریلوے لائنوں سے لوہا اکھاڑ لیا گیا اور لکڑی کے تختے لوٹ لیے گئے۔ ریلوے کی زمینوں پر دن کے اجالے میں ڈاکے ڈالے گئے۔ سینکڑوں ایکڑ زمین چھین لی گئی۔ جی ٹی ایس ( گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس) کا کیا انجام ہوا؟ ہر بڑے شہر میں جی ٹی ایس کی بسیں چلتی تھیں۔ طالب علمی کے زمانے میں ڈبل ڈیکر پر بیٹھ کر ہم کالج جاتے تھے۔ آج وہ بسیں کہاں ہیں؟ اسلام آباد میں بہت بڑا جی ٹی ایس ڈپو تھا‘ ایکڑوں کے حساب سے! آج کہاں ہے؟ ہڑپ کر لیا گیا! ایک پنڈی میں بھی تھا۔ کیا کسی رپورٹر کی مجال ہے کہ اس پر کچھ لکھے؟ پر جلتے ہیں جناب! ظلم کی انتہا ملاحظہ کیجیے۔ ہر شہر میں پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی کی لائبریری تھی۔ آج کہیں بھی نہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ لاکھوں کتابیں کہاں گئیں؟ ردی میں بک گئیں یا گوداموں میں گل سڑ گئیں؟ تعلیمی ادارے سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کمین گاہیں ہیں! یونیورسٹیوں میں فسادات ہوتے ہیں۔ طلبہ مارے جاتے ہیں۔ ان کے جنازے سیاسی جماعتوں کے قائدین پڑھاتے ہیں۔ ایک صدی کا تین چوتھائی گزر گیا۔ ہم سے سمگلنگ کا مسئلہ نہ حل ہوا۔ سینکڑوں کے حساب سے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنیں۔ کہاں؟ کسی دور افتادہ علاقے میں نہیں! وفاقی دارالحکومت میں! اسلام آباد ایئر پورٹ کی عین بغل میں!
نیا تو کیا بنتا‘ جو انفراسٹرکچر‘ جو ادارے‘ انگریز سرکار چھوڑ کر گئی تھی‘ وہ بھی نہ سنبھالے گئے۔ جنگل تک چوری ہو گئے! ابھی تو ایک چھوٹے سے‘ ننھے منے ہوائی اڈے کا انتظام ایک دوسرے ملک کو سونپا جا رہا ہے‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں