میں بک شاپ میں کتابیں دیکھ رہا تھا!
شہر کی اس سب سے بڑی بک شاپ کے مالک یوسف صاحب میرے دوست تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے‘ ان کے کارندے مجھے نئی کتابوں کی اطلاع دے دیا کرتے تھے۔ کبھی ایس ایم ایس کے ذریعے کبھی وٹس ایپ پر! اب ہفتے‘ دس دن بعد خود چکر لگاتا ہوں!
اس دن بھی کتابیں دیکھ رہا تھا! اچانک ایک طرف سے نسوانی آواز آئی۔ انکل! السلام علیکم! دیکھا تو خاتون کو پہچان نہ پایا۔ اس نے بتایا کہ میری بڑی بیٹی کی دوست ہے۔ تب یاد آیا کہ سکول میں اکٹھی تھیں۔ دوسری بچیوں کی طرح یہ بھی ہماری بیٹی کے ساتھ ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ رسمی دعا سلام کے بعد وہ دکان کے کاؤنٹر کی طرف چلی گئی اور میں کتابوں کی ورق گردانی میں دوبارہ مصروف ہو گیا۔ شام کو بیٹی کا معمول کا فون آگیا۔ گفتگو کے درمیان ذکر کیا کہ اس کی فلاں دوست اور ہم جماعت ملی تھی۔ پھر یوں ہی پوچھ ڈالا کہ اس کی دوست کے ماشاء اللہ کتنے بچے ہیں اور اس کا میاں کیا کام کرتا ہے۔ بیٹی نے ایک لمبی آہ بھری''ابو! اس کی تو ابھی تک شادی ہی نہیں ہوئی!‘‘ وجہ پوچھی تو بیٹی نے تفصیل بتائی کہ یہ لوگ اپنی ذات کے باہر شادی نہیں کرتے۔ لڑکی کے لیے کئی اچھے اچھے رشتے آئے مگر وہ دوسری ذاتوں کے تھے۔ بدقسمتی سے اپنی ذات کا کوئی مناسب رشتہ آیا ہی نہیں!
میری بڑی بیٹی کی شادی کو اٹھارہ سال ہو چکے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو اس کی یہ ہم جماعت اٹھارہ سال سے شادی کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ صرف ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ ایسی لاکھوں لڑکیاں ذات برادری کے حصار میں بند ہیں! اس حصار سے نکلنے کا کوئی دروازہ ہی نہیں! ماں باپ کے لیے ان کی شادی اپنی ذات سے باہر کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ادھر لڑکی کے بال چاندی اور رخسار سونا ہو رہے ہیں۔ عمر ڈھل رہی ہے اور تیزی سے ڈھل رہی ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے ماں باپ بھی اس خود ساختہ شرط کے پابند ہیں! میں ایسے تمام ماں باپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ وہ ایک ہاتھ دل پر اور دوسرا ہاتھ قرآنِ پاک پر رکھ کر بتائیں کہ کیا انہیں یقین ہے کہ وہ جس جاٹ یا مغل یا راجپوت یا ارائیں یا گجر یا اعوان یا کشمیری لڑکے کا انتظار کر رہے ہیں وہ ان کی بیٹی کو خوش رکھ سکے گا؟ اور اپنی ذات کی جو بہو تلاش کر رہے ہیں وہ ان کے ساتھ اچھا پیش آئے گی؟ اور اس کے بطن سے جو ان کا پوتا پیدا ہو گا وہ دنیا کو فتح کرنے والا دوسرا چنگیز خان یا دوسرا نپولین بونا پارٹ ثابت ہوگا؟ ماں باپ کے بعد بچے کے لیے اہم ترین شخصیت استانی یا استاد کی ہوتی ہے جو اسے پڑھاتا ہے اور اس کی زندگی سنوارتا ہے۔ کیا ان ماں باپ نے بچے یا بچی کو سکول داخل کراتے وقت کبھی استاد کی ذات پوچھی ہے؟ اگر ذات اتنی فیصلہ کن ہے تو آج سے عہد کریں کہ اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسری ذات کے استاد سے ان کا بچہ سبق نہیں لے گا۔ نماز بھی صرف ان مولوی صاحب کے پیچھے پڑھیں گے جو ان کی ذات سے ہوں گے۔ اور جنازہ پڑھانے والا تو آپ کی ذات سے ضرور ہو نا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسری ذات والا جنازہ پڑھا دے اور میت کی عاقبت خراب ہو جائے! اور اس ڈاکٹر سے علاج تو ہر گز نہیں کرائیں گے جو کسی دوسری ذات سے ہوگا۔ غضب خدا کا‘ آپ کا بیمار آپ کو دل و جان سے زیادہ عزیز ہے اور آپ اس کا علاج اس ڈاکٹر سے کرا رہے ہیں جو راجپوت نہیں‘ یا اعوان یا جاٹ یا گجر نہیں! یہ ظلم نہ ڈھائیے گا! اور بس یا جہاز میں بیٹھتے وقت تو احتیاط لازم ہے۔ خدا کے بعد آپ کی زندگی بس کے ڈرائیور یا جہاز کے پائلٹ کے ہاتھ میں ہے۔ خدا کے لیے بیٹھنے سے پہلے ڈرائیور یا پائلٹ کی ذات چیک کر لیا کیجئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اتنا اہم کام‘ زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والا کام‘ کسی ایسے شخص کے سپرد ہو رہا ہو جو آپ کی ذات ہی کا نہیں! اس طرح تو برادری میں آپ کی ناک کٹ جائے گی! اور کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد میں سے سب نے اپنی ذات برادری کے اندر ہی شادیاں کی تھیں! چلیے مان لیا‘ آپ کے پاس اپنا خاندانی شجرۂ نسب محفوظ ہے جو نسل در نسل چلا آرہا ہے! مگر اس سے یہ کیسے معلوم ہو گا کہ آپ کے دادا کے پڑدادا نے کس ذات کی عورت سے شادی کی تھی؟ اور ان کی اپنی امی جان کون تھیں؟
آپ اپنی ذات پر فخر کیسے کر سکتے ہیں؟ اور دوسری ذاتوں کو کمتر کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ کیا آپ کی پیدائش سے پہلے فرشتوں نے آپ کو آپشن دیا تھا کہ اپنی ذات کا انتخاب کیجئے؟ پھر‘ کیا آپ نے فرشتوں سے پوچھا تھا کہ کون سی ذات برتر ہے اور کون سی کم تر؟ اور پھر کیا آپ نے برتر ذات چنی؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں‘ تو پھر آپ دوسری ذاتوں کے اندر بچوں کی شادیاں کیوں نہیں کر رہے؟ بیٹی کو کیوں بوڑھا کر رہے ہیں! اس کے خوابوں اور آرزوؤں کا خون کیوں کر رہے ہیں؟ اور اپنے آپ کو خدا کے دربار میں مجرم کیوں بنا رہے ہیں؟ کل سوال ہوگا تو کیا جواب دیں گے؟ کیا حشر کے روز یہ جواب دیں گے کہ شادی کرنا تو تھی مگر کوئی جاٹ یا آرائیں یا راجپوت یا مغل یا اعوان لڑکا مناسب نہیں نظر آیا! آپ کی اپنی بیٹی آپ کے خلاف مدّعی ہوگی! آپ کٹہرے میں کھڑے ہوں گے!
وہ تو کہیے کہ قدرت نے ٹیلنٹ دیتے وقت ذات برادری دیکھی نہ رنگ نہ مذہب! یہ جو رائٹ برادران تھے‘ ہوائی جہاز ایجاد کرنے والے‘ کیا یہ جاٹ تھے؟ کیا ٹیلی وژن کسی آرائیں نے ایجاد کیا؟ کیا انٹرنیٹ کا کرشمہ اعوانوں کا کمال ہے؟ جس جرمن نے دنیا کو ایکس رے کی مشین دی کیا وہ گجر تھا؟ سکاٹ لینڈ کے جس پروفیسر نے پنسلین دریافت کرکے کروڑوں‘ اربوں مریضوں پر احسان کیا‘ کیا وہ راجپوت تھا؟ اور شاعر مشرق علامہ اقبال کون سے سیّد تھے؟ کشمیری برہمنوں کی اولاد تھے۔ ان کی مشہور نظم ''ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجئے کہ خود کیا کہتے ہیں:
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
تو سیّدِ ہاشمی کی اولاد
میری کفِ خاک برہمن زاد
جس بابر نے سلطنت کی بنیاد رکھی وہ مغل تھا۔ جن نکموں اور عیاشوں نے اس سلطنت کو پارہ پارہ کیا‘ وہ بھی مغل ہی تھے۔ گویا ثابت ہو گیا کہ سلطنت بنانے میں مغل ذات کا کمال تھا نہ توڑنے میں مغل ذات کا قصور! جس شیر شاہ نے پانچ سال میں ہندوستان کا نقشہ بدل ڈالا وہ بھی سوری پٹھان تھا اور اس کے جو جانشین نالائق ثابت ہوئے وہ بھی سوری پٹھان تھے۔ یہ جو ذاتیں ہیں اور برادریاں ہیں‘ یہ شناخت کے لیے ہیں کہ ایک دوسرے کو پہچانا جا سکے۔ ہر برادری میں‘ ہر ذات میں‘ ہر قوم میں‘ اچھے لوگ بھی ہیں‘ برے بھی‘ لائق بھی‘ نالائق بھی‘ نیک بھی بد بھی! عالم فاضل بھی‘ جاہل بھی! کسی کو اپنی ذات پر غرور کرنے کا حق نہیں اور ذات برادری کی بنیاد پر کسی کو کمتر گرادننا بھی انسانیت کی توہین ہے!