پہلی بار یورپ جانے اور کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق آج سے چوالیس سال پہلے ہوا۔ کچھ چیزیں دیکھ کر تعجب ہوا۔ شاید اس لیے کہ یہ سب کچھ پہلے دیکھا تھا نہ معلوم تھا۔
اتوار کے دن باہر نکلے تو تقریباً ہر گھر کے سامنے مختلف اشیا پڑی تھیں۔ کہیں بچوں کی کار سیٹ‘ کہیں میز‘ کہیں گدّا‘ کہیں ٹائپ رائٹر۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ اشیا گھر والوں کی ضرورت سے زائد ہیں۔ اس عمل کے دو پہلو تھے۔ ایک تو جو غریب لوگ تھے وہ ضرورت کی چیزیں لے جاتے تھے۔ دوسرے‘ لوگ اپنی اشیا سے تبادلہ کر لیتے تھے۔ ایک اور عمل جس نے متاثر کیا‘ آلودگی کم کرنے اور پٹرول بچانے کے لیے تھا۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہو تی تھی۔ فرنگی زبان میں اسے '' ویک اینڈ‘‘ کہتے ہیں۔ اب یہ لفظ ہمارے ہاں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارا ویک اینڈ کا عمومی تصور یہ ہے کہ دن چڑھے تک سونا ہے۔ پھر انڈین فلم دیکھنی ہے۔ اور آخر میں رَج کے چکن کڑا ہی‘ نہاری یا حلیم کھانی ہے۔ سب کی نہیں مگر بہت سوں کی چھٹی اسی طرح گزرتی ہے۔ سفید چمڑی والوں کا ویک اینڈ کا تصور مختلف ہے۔ وہ گاڑی کے اوپر‘ یا پیچھے‘ سائیکلیں لادتے ہیں۔ کھانا ساتھ لیتے ہیں اور دو دن کے لیے شہر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ کسی جنگل میں‘ کسی فارم پر‘ کہیں ساحل کے قریب۔ ٹھہرنے‘ پکانے اور واش روم کی سہولتیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ بہت سے اپنے خیمے ساتھ لاتے ہیں اور کیمپنگ کرتے ہیں۔ کچھ گاڑیوں کے پیچھے ''کارواں‘‘ باندھ کر‘ لاتے ہیں۔ کارواں اُس ڈبے کو کہتے ہیں جس میں قیام کیا جا سکتا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے وہاں یہ قانون دیکھا کہ ایک ویک اینڈ پر صرف وہ گاڑیاں شہر سے باہر جائیں گی جن کے رجسٹریشن نمبر طاق ہیں۔ اگلے ویک اینڈ پر صرف وہ گاڑیاں نکلیں گی جن کے نمبر جفت ہیں۔ یوں ویک اینڈ پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد‘ عملاً پچاس فیصد کم ہو جاتی تھی۔ تیسری چیز جو پہلی بار یورپ میں دیکھی وہ پیدل چلنے والوں کی حد سے زیادہ اہمیت تھی۔ ان کے لیے راستے کا تعین‘ اور پھر اُس راستے کا کھلا ہونا لازم تھا۔ مثلاً اگر تعمیری سرگرمی کی وجہ سے‘ یا سڑک کی مرمت کے سبب‘ فٹ پاتھ کا کچھ حصہ استعمال کے قابل نہیں‘ تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پیدل چلنے والے سڑک پر چلیں۔ان کے لیے متبادل‘ خصوصی راستہ‘ بنایا جاتا ہے اور ایسا کرنا لازم ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں سڑک پار کرنے والے کے لیے گاڑی روک لینا عام بات ہے۔ زیبرا کراسنگ پر تو رگاڑیاں رکتی ہی ہیں‘ اس کے علاوہ بھی‘ سڑک پار کرنے والے کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ہمارے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے قوانین اور طریقوں میں کئی سبق ہیں مگر باقی کو چھوڑیے‘ صرف ان تین پہلوئوں سے‘ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے‘ اپنی حالت پر غور کر لیتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں‘ غریب ہیں یا امیر یا مڈل کلاس‘ بغیر ضرورت کا سامان بھرا رہتا ہے۔بچوں کی سائیکلیں اور کھلونے‘ جنہیں وہ ہاتھ نہیں لگاتے‘ فرنیچر جو استعمال نہیں ہوتا۔ پرانے گدّے‘ میز‘ کرسیاں‘ بیمار قسم کے صوفے‘ کتابیں‘ بچوں کے پرانے سکول بیگ اور نہ جانے کیا کیا! ممٹیاں‘ سٹور‘ نیم چھتیاں‘ کونے کھدرے‘ الماریاں‘ الماریوں کے اوپر بنے ہوئے خانے۔ سب کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ سالہا سال اسی طرح رہتا ہے۔ گھر والے مر کھپ جاتے ہیں۔ چیزیں پڑی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان غیر ضروری چیزوں کو ٹھکانے لگانے کے دو طریقے ہیں۔ انہیں اپنے ملازموں اور ارد گرد کے غریب خاندانوں میں بانٹیے۔ جن کھلونوں‘ جن پرانی سائیکلوں کی طرف آپ کے بچے دیکھتے بھی نہیں‘ آپ کے ہاں کام کرنے والوں کے بچوں کے لیے وہ نعمت سے کم نہیں۔ جس جیکٹ کو آپ نے کئی جاڑوں سے چھوا تک نہیں‘ برتن دھونے والی عورت کے میاں اور بیٹے کو اس کی سخت ضرورت ہے۔ جوتوں کے کتنے جوڑے ہیں آپ کے پاس؟ کتنی قمیصیں ہیں ؟ خدا کے لیے انہیں تقسیم کیجیے۔ اس سے پہلے کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد تقسیم کرنے کا کام دوسرے کریں! دوسرا طریقہ وہی ہے جو مغربی ملکوں میں رائج ہے۔ جن اشیا کی ضرورت نہیں‘ انہیں گھر سے باہر رکھ دیجیے۔ شروع شروع میں عجیب لگے گا۔ مگر اس رواج کو عام کرنا پڑے گا۔ تاہم ایک فرق ترقی یافتہ ملکوں اور ہمارے ملک میں یہ ہے کہ وہاں گھروں میں کام کرنے کے لیے مالی‘ ڈارئیور‘ باورچی اور برتن اور کپڑے دھونے کے لیے غریب عورتیں ملازم نہیں رکھی جاتیں۔ پرانا سامان لینے والا کوئی ہوتا ہی نہیں۔ اس لیے گھر سے باہر رکھ دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں ضرورت مندوں کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔آپ دینے والے بنیں۔ وہ گھر آکر لے جائیں گے۔
اب دوسرے پوائنٹ کی طرف آئیے۔ چھٹیوں کے دوران گاڑیوں کی تعداد کم کرنے والا پوائنٹ! صرف مری کی مثال لے لیجیے۔ کیا کیا نہیں ہوا تعطیلات کے دوران مری میں گاڑیوں کی تعداد حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ! جو جو بستیاں اسلام آباد اور مری کے درمیان پڑتی ہیں‘ ان کے رہنے والے‘ چھٹیوں کے دوران عذاب میں گرفتار رہتے ہیں۔ خاص کر بارہ کہو کے باسی ! پولیس چھوٹی عید پر صرف ان گاڑیوں کو مری جانے کی اجازت دے جن کے نمبر طاق ہیں۔ بڑی عید پر جفت نمبر والی گاڑیاں جائیں۔ یہ قاعدہ ویک اینڈ کے حوالے سے بھی بنایا اور نافذ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ویک اینڈ پر طاق نمبر والی گاڑیاں مری جائیں دوسرے پر جفت نمبر والی ! برفباری کے دوران ہر بار ہڑبونگ مچتی ہے۔ گرمیوں کے سارے موسم کے دوران ہر ویک اینڈ پر لاکھوں گاڑیاں مری کی طرف چل پڑتی ہیں! یہ طریقہ آزما کر دیکھ لیا جائے!
رہی بات پاکستان میں پیدل چلنے والوں کے حقوق کی ! تو اس حوالے سے صورتحال نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ قابلِ مذمت بھی! شہروں میں فٹ پاتھ خال خال ہیں۔ جو ہیں‘ وہ تجاوزات کی زد میں ہیں۔ تاجروں نے اشیا فٹ پاتھوں پر رکھی ہوئی ہیں جو ان کی ملکیت ہی میں نہیں! آپ پیدل چلنے والوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لاہور کی سب سے زیادہ شان‘ جاہ و جلال‘ طمطراق اور ہائی سٹیٹس رکھنے والی ہاؤسنگ سوسائٹی میں‘ جس کے کئی فیز ہیں‘ فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہے نا ناقابلِ یقین بات!! اگر آپ نے پیدل چلنا ہے تو سڑک پر چلیے۔ سیر کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اسی سے قیاس کیجیے کہ پیدل چلنے والوں کا اس معاشرے میں کتنا خیال رکھا جاتا ہے! کسی نے سڑک پار کرنی ہے تو ایک لمحے کے لیے بھی کوئی نہیں رکتا۔ خاص طور پر موٹر سائیکل چلانے والوں کے لیے تو رکنا جیسے حرام ہے ! اس قانون شکن طائفے نے نہ صرف پیدل چلنے والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے بلکہ کاریں‘ ویگنیں‘ بسیں‘ یہاں تک کہ ٹرک بھی اس منہ زور اور بے رحم گروہ کے سامنے عاجز ہیں۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پیدل چلنے والوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ موٹر سائیکل ہے اور تا دم تحریر کوئی ماں کا لعل ایسا پیدا نہیں ہوا جو اس بے مہار اونٹ کے نتھنے میں نکیل ڈال سکے!بہت کچھ ہے جو ہم دوسرے ملکوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے بھی ! مگر کیا کیا بتا یا جائے! بقول مولانا ظفر علی خان ؎
حذر ہیں اور بھی واجب مگر کہاں تک میں
بتائے جاؤں گا تم کو فلاں فلاں سے بچو