مسافر بس میں قتل

نہیں معلوم اس بات میں کتنی صداقت ہے۔ تاہم مشہور یہی ہے کہ جب چنگیز خان کا پوتا ہلاکو خان بغداد پر حملہ کر رہا تھا تو بغداد کی مسجدوں‘ مدرسوں اور چوراہوں پر بحث یہ ہو رہی تھی کہ کوا حلال ہے یا حرام !
ہو سکتا ہے مغرب میں بھی تحریک ِاحیائے علوم سے پہلے ایسی بحثوں کا رواج ہو‘مسلمانوں میں تو آج تک ہے۔ اس کی ایک شکل مناظرہ بھی ہے۔ ہمارے مذہبی حلقوں میں مناظرہ ایک مقبول سرگرمی رہی ہے۔ اس کا انجام‘ اکثر و بیشتر مجادلوں کی صورت میں سامنے آتا رہا۔ مناظرہ ذہنی عیاشی کا بہت بڑا ذریعہ رہا ہے۔ اب اس کا رواج نسبتاً کم ہو گیا ہے۔ وہ وقت بھی تھا جب ''مناظر‘‘ یا ''مناظر اسلام‘‘ باقاعدہ ایک لقب تھا۔
مذہبی بحث تو ہمارا طُرّۂ امتیاز تھی ہی‘ اب سیاسی بحث بھی پیش منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ ہر گھر میں‘ ہر دفتر میں‘ ہر بازار میں‘ ہر ٹرین اور ہر بس میں‘ سیاسی بحث ہو رہی ہے۔ اس میں بڑے بھی شامل ہیں‘ چھوٹے بھی‘ مرد بھی عورتیں بھی۔ یہ جو اکبر الہ آبادی نے کہا تھا :
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
تو یہ بات سیاسی بحث پر زیادہ صادق آ رہی ہے۔ اس سیاسی بحث کے چند ایسے خواص ہیں جن کی تصدیق ہر معقول شخص کو کرنا پڑے گی۔ بہت دھیمے انداز میں بات شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں فریقین کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کون کس لیڈر کا پیروکار ہے۔وہ فریق ثانی کے لیڈر پر الزامات لگاتا ہے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے کہ فریق ثانی ان الزامات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سنے اور آرام سے ہر پوائنٹ کا جواب دے۔ الزامات عائد کرنے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ خاموشی سے اپنے اعتراضات کا جواب سنے۔مگر افسوس! صد افسوس! ایسا ہوتا نہیں! الزامات سنتے ہی فریق ثانی بھڑک اٹھتا ہے۔ جواب دینے کے بجائے وہ فریق اول کے لیڈر پر جوابی الزامات کی بوچھاڑ کر دیتا ہے۔ اب دونوں فریق بیک وقت بولنے لگ پڑتے ہیں۔ آوازیں اونچی ہونے لگتی ہیں۔ لیڈروں کو گالیاں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر لیڈروں کو چھوڑ کر‘ دونوں فریق ایک دوسرے پر دشنام طرازی کرنے لگتے ہیں۔ قریب ہے کہ دونوں اُٹھ کر ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیں‘ پاس بیٹھے ہوئے لوگ بیچ بچاؤ کر کے دونوں کو بٹھاتے ہیں۔ بظاہر جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔ مگر اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔اس کے بعد دونوں کی بات چیت بند ہو جاتی ہے۔ دونوں کے خاندان ایک دوسرے کے ساتھ معاشرتی تعلقات کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ لکیر گہری ہوتی جاتی ہے۔ یوں ایک معمولی بحث فساد کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
جاویداحمد غامدی صاحب کی کئی باتوں سے اختلاف ہے۔یوں بھی کسی گروہ یا شخصیت کا حلقہ بگوش ہونے کا مطلب ہے کہ دماغ کے دروازے بند کر دیے جائیں یہاں تک کہ ان پر مکڑی کے جالے تن جائیں۔ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کی ہر بات کو بلا چون و چرا تسلیم کیا جاتا ہے اور کیا جائے گا؛ تاہم غامدی صاحب کا یہ نکتہ دماغ کو اپیل کرتا ہے کہ سائنس میں مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے بہترین دماغ‘ سائنس کی طرف نہیں گئے بلکہ فلسفے اور فقہ کی طرف گئے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ فلسفہ اور فقہ بحث کے ماں باپ ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ان شعبوں کا تو اوڑھنا بچھونا ہی بحث ہے۔ اسی لیے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا :
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
اہل دیہہ بہت زیادہ بحث کرنے والے کے بارے میں کہتے ہیں کہ حلوے کا سرا ڈھونڈ رہا ہے۔ حلوے کا سرا ہوتا ہی نہیں۔ کہاں سے ملے گا؟ کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں سیاسی بحث ایک سماجی بیماری (سوشل ایول) کے طور پر پھیل رہی ہے۔ اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ویکسین ہے نہ سرجری! سوشل میڈیا اسے مزید بھڑکا رہا ہے۔ برداشت عنقا ہو چکی ہے۔ بھائی بھائی سے اور بہن بہن سے جھگڑ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو بلاک کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے جو واقعہ پیش آیا‘ عبرت کا سامان ہے۔ پشاور سے مسافر کوچ چلی۔ یہ تیمر گرہ جا رہی تھی۔راستے میں دو مسافروں کے درمیان ایسی ہی بحث چھڑ گئی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نے کہا: تمہارا لیڈر جھوٹا ہے۔ دوسرے نے کہا: تمہارا لیڈر فراڈ ہے۔ بات بڑھ گئی۔ ایک نے اپنے رشتہ داروں کو بلا لیا۔ مسافر بس بابو زئی انٹرچینج پر پہنچی تو بندوق بردار افراد نے بس کو روک لیا۔ بحث کرنے والے ایک فریق کو اندر سے نکالا اور موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ اس سے قیاس کر لیجیے کہ ہم کہاں پہنچ چکے ہیں۔
کئی تجربوں سے گزرنے کے بعد یہ قلمکار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ بحث سے‘ مذہبی ہو یا سیاسی‘ اجتناب کرنے میں بہت فائدہ ہے۔ ایک معروف کالم نگار اور دانشور نے‘ جو ہمارے برخوردار ہیں اور ہمیں بہت عزیز ہیں‘ ایک بار‘ ایک تقریب میں ہمارے بارے میں ایک تحریر پڑھی۔ ہماری خوبیاں یا خامیاں بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بحث نہیں کرتے۔ طرح دے جاتے ہیں۔ بحث سے گریز کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اول تو چپ رہیے۔ ہاں ہوں‘ کچھ بھی نہ کیجیے۔ '' بحثیا‘‘ جب دیکھے گا کہ آگے سے ردِ عمل میں کچھ نہیں آرہا تو آپ پر تین حرف بھیج کر خاموش ہو جائے گا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کر دیجیے۔ جب دیکھے گا کہ مزہ نہیں آرہا اور لڑائی کا کوئی امکان نہیں تو ناامید ہو کر منہ دوسری طرف کر لے گا۔ موضوع بدلنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے مثلاً اگر کوئی صاحب آپ سے عمران خان یا نواز شریف کے بارے میں کچھ پوچھیں یا بات کرنا شروع کریں تو آپ آگے سے اپنی چچی یا ممانی کی درد ناک موت کی تفصیل بیان کرنی شروع کر دیجیے۔ ہو سکے تو آواز بھی روہانسی کر لیجیے۔ امید ہے ان کا بخار اتر جائے گا۔
ایک بزرگ نے ایک نوجوان کو بتایا کہ وہ اپنا مؤقف ایک بار بیان کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی اس پر بحث شروع کر دے تو وہ آگے سے کہتے ہیں کہ '' آپ درست کہہ رہے ہیں‘‘۔ نوجوان نے کہا کہ یہ تو غلط بات ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اعتراض کرنے والے کی تشفی کریں! اس پر بزرگ نے نوجوان کو کہا کہ ''آپ درست کہہ رہے ہیں‘‘۔
سیاسی یا مذہبی بحث‘‘ پانی وچ مدھانی‘‘ کی بد ترین مثال ہے۔ لسی بنے گی نہ مکھن نکلے گا۔ صرف چھینٹے پڑیں گے۔حاصل کچھ نہیں ہو گا سوائے دشمنی اور قطعِ تعلق کے ! اور جن کی خاطر آپ اپنے پیاروں کو رنجیدہ کرتے ہیں اور تعلقات کشیدہ کرتے ہیں‘ ان کے نزدیک آپ کا وجود صفر سے زیادہ نہیں! جتنی چاہیں بحث کر لیجیے‘ آپ کو جاتی امرا یا ایون فیلڈ یا بنی گالا یا بلاول ہاؤس میں کسی نے گھسنے بھی نہیں دینا! اور اگر آپ نے زبردستی اندر جانے کی کوشش کی تو کتا یا چوکیدار‘ یا دونوں‘ آپ کو چیر کھائیں گے! کتے سے ایک واقعہ یاد آگیا۔ حفیظ جاندھری ایک کمشنر صاحب کو ملنے ان کے دفتر گئے۔ یہ کمشنر صاحب معروف ادیب بھی تھے۔ دربان نے روکنے کی کوشش کی۔ حفیظ صاحب کہاں رکنے والے تھے۔ اندر چلے گئے اور کمشنر صاحب کو بتایا کہ وہ جو باہر چھوٹا کتا بیٹھا ہے‘ اُس نے روکنے کی کوشش کی تھی !!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں