ڈھول پر تھاپ پڑ رہی تھی۔ ہر تھاپ کے ساتھ‘سننے اور دیکھنے والوں کا دل باہر آجاتا تھا۔ پھر‘ اگلی تھاپ پر واپس چلا جاتا تھا! عجیب‘ کَیف کا عالم تھا۔ سب ڈھول بجانے والے کو‘ اور شہنائی بجانے والے کو‘ پلک جھپکائے بغیر‘ دیکھ رہے تھے۔ نگاہیں ہٹتی نہیں تھیں۔ پھر نوجوان آئے اور لڈی کھیلنے لگے۔ ان نوجوانوں کے سا تھ ادھیڑ عمر اور بوڑھے بھی شامل ہو گئے۔زمین سے اٹھتا قدم پیچھے پڑتا‘ پھر آگے‘ اس دوران بازو ہوا میں لہرا کر تالی بجاتے! کبھی سر کے اوپر‘ کبھی سامنے! پھر ڈھول کی لیَ تیز ہونے لگی۔ رقص کرنے والوں کے پاؤں تیزی سے پیچھے ہٹنے اور آگے پڑنے لگے! دیکھنے والوں کے دل اسی تیزی سے رقص کرنے لگے۔ یہ کلچر تھا۔ مٹی سے جڑا ہوا کلچر! نسل در نسل ساتھ چلتی ثقافت! اس ثقافت کا کوئی نعم البدل نہیں! اس لیے کہ جس مٹی میں ہم پیدا ہوتے ہیں‘ اُس مٹی کا کوئی نعم البدل نہیں! ہمارے جسم اسی مٹی سے بنے ہوتے ہیں۔ اسی مٹی سے اُگا ہوا رزق ہم کھاتے ہیں۔ اس رزق کو اُگانے میں وہ مٹی بھی شامل ہے جس سے ہمارے اجداد کے جسم بنے تھے۔ ہم سب‘ ہم بھی‘ ہمارے اجداد بھی‘ مٹی ہو کر‘ اس مٹی میں مِل جاتے ہیں۔ انسان پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائے‘ جرنیل بن جائے‘ کمشنر بن جائے‘ ارب پتی بزنس مین بن جائے‘ برسوں سے نیویارک یا لندن رہ رہا ہو‘ ڈھول کی اس تھاپ کو‘ لڈی کے اس رقص کو‘ نہیں بھول سکتا۔ ایک وڈیو نہیں بھولتی! اب بھی یو ٹیوب پر پڑی ہو گی۔ خیبر میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی ری یونین تھی۔ ان میں اکثر ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹرز عمر رسیدہ تھیں۔ بڑے بڑے مشہور سپیشلسٹ‘ بڑے بڑے نامور سرجن! وہ سب ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے تھے۔ اس وقت وہ ڈاکٹر نہیں‘ اپنی مٹی کے‘ اپنی دھرتی کے‘ بیٹے اور بیٹیاں تھیں! یہ رقص نہیں‘ یہ ڈھول پر پڑتی تھاپ نہیں‘ یہ اپنی مٹی سے وابستگی اور اپنی زمین سے پیوستگی کی علامتیں ہیں !
یہ ثقافتی پروگرام‘ تلہ گنگ ادبی میلے ( لٹریری فیسٹیول ) کا آخری حصہ تھا۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ! لٹریری فیسٹیول صرف لاہور کراچی جیسے بڑے شہروں میں نہیں‘ چھوٹے شہروں میں بھی منعقد ہوتے ہیں۔ اور جو چھوٹے شہروں میں منعقد ہوتے ہیں وہ زیادہ جینوئن ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹے شہروں کے ادبی میلے ٹھیکیداروں کے تصرف میں نہیں ہوتے۔ یہاں جنوب سے آنے والے نام نہاد دانشور پنجاب پولیس پر تبرّا بھیجنے کے بہانے صوبائیت کا زہر نہیں پھیلاتے۔تلہ گنگ ادبی میلہ‘ ادبی میلوں کی اس کاروباری گھٹن میں ایک خوشگوار جھونکا تھا۔ اس کے انعقاد کا بیڑہ '' تلہ گنگ پروفیشنل نیٹ ورک‘‘ نے اٹھایا جو ایک فلاحی تنظیم ہے۔ تلہ گنگ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اس تنظیم کو چلا رہے ہیں۔ ملک سہیل اعوان‘ جو اقوام متحدہ میں اعلیٰ منصب پر فائز ہیں‘ اس تنظیم کے روح ِرواں ہیں۔ ترقیاتی امور کی ماہر‘ نگہت النسا ان کی دست ِراست ہیں۔ اس فیسٹیول میں جن سکالرز اور مصنفین کو مدعو کیا گیا تھا‘وہ اپنے اپنے شعبے میں ٹاپ پر ہیں! یہاں پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک سے ملاقات ہوئی جو برطانیہ میں تاریخ کے معروف پروفیسر اور محقق ہیں۔The Silk Road and Beyondان کی معرکہ آرا تصنیف ہے۔پی ایچ ڈی امریکہ سے کی۔ درجنوں کتابیں تصنیف کیں۔ فیسٹیول میں ان کی گفتگو سنی تو یوں لگا اصفہان سے سمرقند تک ان کے ساتھ پھر رہے ہیں۔ ایک سوال انہوں نے دلچسپ اٹھایا کہ ہمارے ہاں بچوں کا نام سکندر رکھا جاتا ہے‘ پورس کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ اعوان سے ملاقات ہوئی جو اسلام آباد یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے کی سربراہ رہیں۔ زراعت کے بین الاقوامی ماہر‘ ملک فتح خان کی گفتگو از حد مفید تھی۔ ملک فتح خان نے اپنے فارم پر زیتون کے دس ہزار پودے لگا کر دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ بریگیڈیئر (ر) فتح خان نے اپنے تجربات حاضرین سے شیئر کیے۔ بریگیڈیئر (ر) فتح خان نے اپنے گاؤں‘ دندہ شاہ بلاول‘ میں ہسپتال قائم کر کے کمال کر دیا ہے۔ایکس رے اور الٹرا ساؤنڈ کی مشینیں مہیا کیں۔دو ایمبولینسیں ہیں۔ لیبارٹری ہے۔ ساڑھے چھ لاکھ مریض اب تک فیضیاب ہو چکے ہیں!
فیسٹیول میں نئی تصانیف کا تعارف کرایا گیا۔ سول سروس میں نیک نامی حاصل کرنے والے تنویر ملک نے '' شہر آشوب تلہ گنگ‘‘ لکھ کر ایک نئے اسلوب کی طرح ڈالی ہے۔ کتاب میں شہر یہی ہے جو موجود ہے۔مگر لوگ وہ نہیں ہیں۔ رفتگاں کا تذکرہ عجب دلسوز انداز میں کیا ہے۔ سعید اختر ملک کے افسانوں کے مجموعے ''سوچ دالان‘‘ پر گفتگو ہوئی۔سعید اختر ملک نے اپنے علاقے میں سکولوں کی عمارتیں تعمیر کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔نمل میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر طاہر ملک نے میڈیا سے متعلق سیشن کو مہارت سے چلایا۔ سوشل میڈیا کے ان پہلوؤں پر گفتگو کی گئی جو نوجوانوں کو درپیش ہیں۔ بڑے شہروں سے دور‘ بہت ٹیلنٹ ہے! خاص کر آئی ٹی کے شعبے میں! ان بچوں کو درست رہنمائی درکار ہے تا کہ ان کا ٹیلنٹ غلط سمت نہ چل پڑے! ان کے پاس اعلیٰ تعلیم کے لیے وسائل نہیں۔ افرادی قوت ضائع ہو رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ زیاں کا احساس نہیں ہے۔
پس نوشت: مہنگائی کا جن پوری طرح بوتل سے نکل کر سامنے آچکا ہے۔ بد قسمتی کی انتہا یہ ہے کہ اللے تللے اسی طرح جاری ہیں! عوام کچھ سوالات اٹھا رہے ہیں! یہ سوالات پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوؤں کو اٹھانے چاہئیں مگر جہاں پارلیمنٹ مسئلے کا حصہ ہو وہاں وہ مسئلہ حل کیا کرے گی؟ سوالات یہ ہیں! 1: کیا ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے سالِ رواں کے اخراجات پبلک کیے جائیں گے؟ 2: کیا وزیراعظم آفس کے اخراجات گھٹائے گئے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو تفصیل؟ 3: اس وقت وزیراعظم کے کتنے کیمپ آفس ہیں اور کہاں کہاں؟ ان کے اخراجات کی تفصیل بتائی جائے۔ 4: لاہور میں وزیراعظم کے کتنے گھروں کو وزیراعظم ہاؤس قرار دیا گیا ہے؟ ان کے اخراجات عوام کے ساتھ شیئر کیے جائیں! 5: وفاقی کابینہ کے ارکان کے زیر استعمال گاڑیوں کی کیا تعداد ہے! یہ گاڑیاں کون کون سی ہیں؟ ان گاڑیوں کے پٹرول اور مینٹی ننس پر ہر ماہ سرکاری خزانے سے کتنا خرچ ہو رہا ہے؟ 6: سالِ رواں میں (یکم جولائی سے اب تک) ارکانِ پارلیمنٹ کے علاج پر سرکار ی خزانے سے کیے گئے اخراجات کی تفصیلات کیا ہیں؟ 7: ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں پر ہر ماہ کتنی رقم خرچ ہو رہی ہے؟ 8: پارلیمنٹ کے کیفے میں کھانے کے نرخ پبلک کیے جائیں‘ حکومت ہر ماہ اس حوالے سے کتنی سبسڈی دے رہی ہے؟ 9: بیورو کریسی کی سینئر سطح نے گاڑیوں کی Monetisation کے نام پر حشر برپا کیا ہوا ہے! حکومت اس مد میں ہر ماہ کتنی رقم دے رہی ہے؟ 10: Monetisation کے باوجود‘ افسر شاہی کے پاس سرکاری گاڑیاں کتنی ہیں؟ ان کے پٹرول کے ماہانہ اخراجات کیا ہیں؟ 11: کیا سرکاری ظہرانوں اور عشائیوں کے مینیو پر نظر ثانی کی گئی ہے؟ 12: تقریباً سنچری جتنی کابینہ کے ارکان کو جو پی اے‘ پی ایس‘ ڈائریکٹر‘ ڈرائیور‘ نائب قاصد اور دیگر سٹاف مہیا کیا گیا ہے‘ اس کی کل تعداد کیا ہے؟ اور ان کی تنخواہوں کے ماہانہ اخراجات؟
سوالات اور بھی ہیں مگر انہی کے جواب مل جائیں تو غنیمت ہے۔ یہ تاثر عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہا ہے کہ بالائی طبقہ مہنگائی کی یلغار سے محفوظ ہے! زد صرف عوام پر پڑ رہی ہے۔ وہ بھی مڈل کلاس پر! اس ملک میں مڈل کلاس یوں بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اسے بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ سرحد پار‘ بھارت میں‘ مڈل کلاس کا سائز مسلسل بڑھ رہا ہے !!!