یہ لطیفہ نما واقعہ تو اب پامال ہو چکا ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے کسی ریاست کے راجہ یا نواب نے چیف جسٹس کی جگہ چیف انجینئر کو لگا دیا۔ چیف جسٹس چھٹی سے واپس آئے تو انہیں چیف میڈیکل افسر تعینات کر دیا۔ یعنی ہر شخص وہ کام کر رہا تھا جو اُس کا نہیں تھا۔ ہم اس سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں۔اب ادارے وہ کام کر رہے ہیں جس کا ان سے کوئی واسطہ‘ کوئی لینا دینا نہیں! وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے کا یہی احوال ہے۔اس نے ادبی میلوں کے انعقاد کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔ یعنی شہر کی صفائی کا کام اب اکادمی ادبیات کرے گی اور خستہ شکستہ شاہراہوں کی درستگی ادارۂ فروغِ اردو کے ذمے ہو گی! حضور! جو آپ کے فرائض ہیں وہ تو ادا کر لیجیے۔
تو کارِ زمین را نکو ساختی؟
کہ با آسمان نیز پرداختی!
زمین کے کام مکمل کیے نہیں اور آسمان کی کارسازی کو چل پڑے! صرف میلوڈی مارکیٹ کو دیکھ لیجیے۔ لگتا ہے اس ادارے کے کسی سربراہ نے اسے بنفسِ نفیس دیکھنے کی آج تک زحمت نہیں کی۔ یہ شہر کا دل ہے۔ اور بلا مبالغہ گندگی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ یہاں شہر کا معروف فوڈ پارک بھی ہے۔ اس فوڈ پارک سے اگر سنیما ( جو کبھی تھا) کی طرف آئیں تو نالیوں سے پانی اُبل رہا ہے اور کناروں پر بیٹھے عوام کھانے کھا رہے ہیں! سپر مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ‘ جو کبھی شہر کی زینت تھیں‘ اب Slumsمیں تبدیل ہو چکی ہیں۔ شہری پانی کی سہولت سے محروم ہیں۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جا بجا پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ہر روز گاڑیاں اور موٹر سائیکل چوری ہو رہے ہیں۔ الگ الگ سینکڑوں کے الگ الگ گینگ ہیں۔ بقول ظفر اقبال؎
بٹوے میرے کو لے اُڑا کون
ڈی سی آفس کے بس سٹاپا!
شہر کے بڑے پارک میں خواتین کی آبرو ریزیاں ہو رہی ہیں۔ چیف کمشنر اور ترقیاتی اداری کے چیئر مین کی پوسٹیں ایک دوسرے میں مدغم ہو چکیں۔ یعنی ٹو اِن ون! ڈپٹی کمشنر اور پولیس ان کے ماتحت! آبپارہ مارکیٹ اور اس کا نواحی علاقہ‘ جو شہر کا مرکز ہے‘ کثافت اور بدنمائی میں کسی تحصیل ہیڈ کوارٹر سے بھی بدتر ہے! ناروا تجاوزات نے شہر کا چہرا مسخ کر رکھا ہے۔ کیا ادارے کو معلوم نہیں کہ جو جگہیں مختلف سیکٹرز کے بازاروں میں پارکنگ کے لیے مخصوس کی گئی تھیں وہاں سٹال اور دکانیں بن گئی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ اہلکار رشوت لے کر چشم پوشی کر رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں! جس ادارے کے ذمے یہ سب کام ہیں‘ وہ لٹریری فیسٹیول منا رہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ ان حالات میں جب ایک ایک پائی کے لیے ملک‘ ہاتھ میں کشکول پکڑے‘ ایک ایک دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے‘ اس نام نہاد ادبی جشن پر کتنا روپیہ اُڑایا گیا ہے؟ یہ سوال پارلیمنٹ کو پوچھنا چاہیے! ہنسی آتی ہے کہ جس ادارے نے شہر کی قدیم ترین یونیورسٹی کے جسم کو درمیان سے کاٹ کر دوحصوں میں تقسیم کر دیا ہے وہ ادبی میلہ منا رہا ہے۔
ادب پر بڑے بڑے مشکل وقت آئے! پہلے شاعر اور ادیب درباروں میں بلائے جاتے تھے۔ سازشیں اور غیبتیں ہوتی تھیں۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی تھیں۔ مگر پھر بھی غیر ادیب کو ادیب اور ناشاعر کو شاعر نہیں بنایا جاتا تھا۔دربار سے وابستہ شعرا‘ با کمال ہوا کرتے تھے۔ متقدمین کو تو چھوڑیے‘ قریب کے زمانے میں قاآنی‘ ذوق اور غالب جیسے عبقری درباروں سے وابستہ تھے۔ ادب پر وہ زمانہ بھی مشکل تھا جب اخبارات نے ادبی صفحات کا ڈول ڈالا۔ عطاالحق قاسمی اور اختر امان مرحوم کو چھوڑ کر‘ ادبی صفحات کے باقی انچارج‘ ادب سے کم ہی علاقہ رکھتے تھے۔ پی ٹی وی کا عہد بھی ادب نوازی کا نہیں دوست نوازی کا تھا! سکرین پر مخصوص چہرے ہی دکھائی دیتے تھے۔ مگر اب جو ادبی میلوں کے نام پر تیرہ تالی کھیلی جا رہی ہے‘ اس کا سامنا ادب نے کبھی نہیں کیا تھا۔ ان میلوں کے منتظم‘ کراچی سے لے کر لاہور تک‘ وہ افراد ہیں جن کا ادب کی کسی صنف سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ٹھیکیدار ہیں۔ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ‘ وہی سلوک کرتے ہیں جو ٹھیکیدار‘ لیبر کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ ٹھیکیدار‘ ایک سطر لکھنے کے قابل نہیں۔اب تو یوں بھی ان نام نہاد ادبی میلوں کے پیش منظر پر ان افراد کو لایا اور بٹھایا جا رہا ہے جن کا ادب سے کوئی رشتہ نہیں۔ کچھ میڈیا کے نمائندے ہیں اور کچھ سیاست دانوں کے چہیتے اور سیاسی پارٹیوں کے خدمتگار!!
اہلِ کمال کی بے قدری دیکھ کر رونا آتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ہمارے ٹاپ کے محققین اور مؤرخین میں سے تھے۔ تحریک پاکستان پر ان کا کام مثالی ہے۔ قائد اعظم کی زندگی کے ایک ایک ورق پر تحقیق کی اور جھاڑ جھنکار کو صاف کیا۔ مگر حرام ہے جو کسی ادبی میلے میں ان کی خدمات کو سراہا گیا ہو۔ کوئی شاہراہ ان کے نام پر ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا! بے شرمی کا یہ عالم ہے کہ سر حد پار سے پاکستان کے دشمن بلائے جاتے ہیں جو پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرتے ہیں۔ کوئی انہیں ٹوکتا نہیں! منہ میں گھگنیاں ڈال کر بیٹھے رہے! یہ سب وہ ناشکرے ہیں جو پاکستان کی چاندنی‘ ہوا اور دھوپ سے متمتع ہو رہے ہیں!
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!
حال ہی میں اکرام چغتائی کی وفات ہوئی ہے۔ اپنی ذات میں نابغہ تھے۔ اتنا کام کیا کہ بڑے بڑے ادارے نہ کر سکیں! فرانسیسی اور جرمن زبانوں پر عبور تھا۔ اسّی سے زیادہ تصانیف ہیں جن کی بین الاقوامی فورمز پر تحسین کی گئی ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کہ اکرام چغتائی کو آسٹریا کے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اگر چغتائی صاحب کسی سیاستدان کے زَلّہ خوار ہوتے تو اس اعزاز کی ملک بھر میں تشہیر ہوتی اور ان کے اعزاز میں تقریبات ہوتیں! اسلامک ریسرچ اکیڈیمی کراچی نے چغتائی صاحب کی علمی اور ادبی خدمات کے حوالے سے ارمغان( Festschrift)مرتب کر کے شائع کیا ہے۔ چغتائی صاحب اس میں بہت دُکھ سے لکھ گئے'' ان چالیس برسوں میں یورپ‘ امریکہ‘اور مشرق وسطیٰ کے متعدد سفر کیے۔کانفرنسوں میں حصہ لیا۔لیکن یہ سب دیارِ غیر کے علمی اداروں اور اربابِ دانش کا میرے مطالعات میں گہری دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ میرے دفتر سمیت ملک کے کسی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کا میرے غیر ممالک میں ان چار عشروں پر پھیلی ہوئی تحقیقی سرگرمیوں میں کوئی عمل دخل نہیں۔اور نہ کسی کی ذرہ برابر مالی امداد شامل ہے۔‘‘چغتائی صاحب کے یہ فقرے اس ملک کے ادبی اور علمی رخسار پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے! کیا کسی نام نہاد لٹریری فیسٹیول میں اتنی بڑی ادبی شخصیت کا ذکر تک کیا گیا؟ کیا صوبائی یا وفاقی حکومت کو کسی نے سفارش کی کہ لاہور کی کسی سڑک کو ان کے نام سے منسوب کر دیا جائے؟ ہاں چغتائی صاحب کوئی کام اینٹی پاکستان کر جاتے تو یہ حاطب اللیل پورے پورے سیشن ان کے نام کرتے!میر نے ایسے ہی سکالرز کے لیے کہا تھا
گھٹ گھٹ کے رہے میرؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم
لیکن دنیا میں نام جینؤئن سکالرز کا باقی رہتا ہے۔ تاریخ کام دیکھتی ہے! یہ نہیں دیکھتی کہ سیاسی پشت پناہی کس کی تھی اور پی آر میں کون تیز تھا! جو پیش منظر پر چھائے ہیں‘ ان کا سکّہ عارضی ہے کہ بقول ظفر اقبال
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت