مفتی صاحب کچھ عرصہ خاموش رہے! مگر دیندار آدمی تھے۔ ضمیر کو زیادہ دیر نظر انداز نہ کر سکے! بالآخر عدالت میں آئے اور سب کچھ بتا دیا۔ ابھی تک متعلقہ صاحب نے تردید کی نہ ان کی طرف سے کسی اور نے !
تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس عدالتی کارروائی کی تفصیلات ظاہر ہوئی ہیں۔مفتی صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ ''باسٹھ سال عمر ہے۔مدرسے میں پرنسپل ہوں۔عمران خان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ان کی کور کمیٹی کا ممبر تھا۔یکم جنوری2018ء کو عمران خان نے مجھ سے کال پر رابطہ کر کے کہا میرا نکاح بشریٰ بی بی سے پڑھوا دو۔نکاح پڑھانے لاہور جانا ہے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لاہور کے علاقے ڈیفنس کی کوٹھی میں لے گئے۔ بشریٰ بی بی کے ساتھ ایک خاتون نے خود کو بشریٰ بی بی کی بہن ظاہر کیا۔ خاتون سے میں نے پوچھا کہ کیا بشریٰ بی بی کا نکاح شرعی طور پر ہو سکتا ہے؟ خاتون نے بتایا کہ بشریٰ بی بی کے نکاح کی تمام شرعی شرائط مکمل ہیں اور دونوں کا نکاح پڑھایا جا سکتا ہے۔یکم جنوری2018ء کو خاتون کی یقین دہانی پر عمران خان اور بشریٰ بی بی کا نکاح پڑھا دیا۔ نکاح کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی اسلام آباد میں ساتھ رہنے لگے۔عمران خان نے مجھ سے فروری 2018ء میں دوبارہ رابطہ کر کے درخواست کی کہ بشریٰ بی بی سے دوبارہ نکاح پڑھانا ہے۔عمران خان نے دوبارہ نکاح کی وجہ بتائی کہ نکاح یکم جنوری کو اس لیے ضروری تھا کہ وزیر اعظم بننے کی پیشگوئی تھی کہ2018ء کے پہلے دن بشریٰ بی بی سے شادی کروں گا تو وزیر اعظم بن جاؤں گا۔ اسی وجہ سے بشریٰ بی بی سے اسی دن (یکم جنوری) نکاح کیا۔عمران خان کی اس بات پر حیرت زدہ ہوالیکن فروری2018ء میں بنی گالہ میں دوبارہ نکاح پڑھوایا۔شرعی اور قانونی لحاظ سے عمران خان نے غیر قانونی اور غیر شرعی نکاح کیا۔جب دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا گیا تو مجھے یقین ہو گیا کہ دونوں نے جان بوجھ کر پیشگوئی کے زیر اثر غیر شرعی نکاح کیا۔‘‘
تمام اخبارات میں کم و بیش یہی بیان چھپا ہے۔ اس لیے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ بیان مفتی صاحب ہی کا ہے ! آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کی توجہ ایک دلچسپ نکتے کی طرف مبذول کرانی ہے۔ بقول عمران خان صاحب کے‘ پیشگوئی یہ تھی کہ یکم جنوری کو شادی کریں گے تو وزیر اعظم بن جائیں گے‘ مگر یکم جنوری کو تو شادی ہوئی ہی نہیں کیونکہ عدت کے دوران نکاح نہیں ہو سکتا۔ اور نکاح کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی ! اس کا مطلب ہے کہ عمران خان پیشگوئی کی بنیاد پر وزیر اعظم نہیں بنے۔ پیشگوئی میں یکم جنوری کو نکاح کی شرط تھی ! اس پر ڈیوڈ بلو (David Blow) یاد آگیا جس نے شاہ عباس کی سوانح حیات لکھی ہے۔شاہ عباس (1571-1629) صفوی خاندان کا سب سے زیادہ طاقتور ایرانی بادشاہ تھا اور ہر اس شخص کی طرح جو اقتدار کا خواہشمند ہو نجومیوں کا سہارا لیتا تھا۔ اسے باغبانی کا بھی شوق تھا۔ ڈیوڈ بلو نے اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔ ایک بار شاہ عباس کو کہیں سے کچھ نادر پودے بھیجے گئے۔ اس نے شاہی باغبان کو طلب کیا مگر وہ کسی وجہ سے حاضر نہ ہو سکا۔ اب اس نے نجومی کو بلوایا اور حکم دیا کہ ستاروں کا حساب لگا کر شاہی باغ میں کسی ایسی جگہ کا تعین کرو جہاں یہ پودے ہمیشہ لگے رہیں اور کوئی انہیں اکھاڑ نہ سکے۔ اس نے حساب کیا اور اپنے حساب کے مطابق پودے لگا دیے۔ دوسرے دن صبح صبح شاہی باغبان ڈیوٹی پر آموجود ہوا۔ اس نے نوٹ کیا کہ کچھ پودے نئے لگائے گئے ہیں اور فنِ باغبانی کے لحاظ سے بالکل غلط جگہ لگائے گئے ہیں۔ وہاں ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا کوئی امکان نہیں۔اس نے انہیں اکھیڑا اور دوسرے مقامات پر لگایا۔ شاہ عباس کو معلوم ہوا تو غضبناک ہوا۔باغبان سے کہا کہ بدبخت ! تو نے یہ کیا ظلم کیا! نجومی نے تو ان پودوں کو ایسے مقامات پر لگایا تھا جہاں انہوں نے سینکڑوں سال قائم و دائم رہنا تھا۔ باغبان ہنسا اور کہا: جہاں پناہ! وہاں سینکڑوں سال تو کیا‘ دو دن بھی نہ قائم رہ سکے! بادشاہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا ! اسی طرح ایک بادشاہ کو پیشگوئیاں کرنے والے ایک درباری نے بتایا کہ بادشاہ سلامت صرف ایک سال زندہ رہیں گے۔ وزیر اعظم وہاں موجود تھا۔ اس نے سوچا کہ بادشاہ تو اب افسردگی میں چلا جائے گا اور سلطنت کا نظم و نسق متاثر ہو گا! اس نے پیشگوئی کرنے والے کذّاب سے پوچھا کہ خود تم کتنے برس زندہ رہو گے! اس نے زائچہ کھینچا‘ ستاروں کا حساب کتاب کیا اور کمال خود اعتمادی سے جواب دیا کہ میں ابھی دس سال زندہ رہوں گا‘ وزیر اعظم نے شمشیر نیام سے نکالی اور اس کی گردن اڑا دی۔پھر بادشاہ سلامت کی خدمت میں عرض کیا کہ جسے اپنی زندگی کا کچھ علم نہ تھا‘ وہ آپ کی زندگی کے بارے میں کیسے درست دعویٰ کر سکتا ہے۔ یوں بادشاہ کے ذہن سے ایک سال کے بعد موت آنے کا ڈر نکل گیا!
یاد نہیں‘ شورش کاشمیری مرحوم نے کس کے بارے میں کہا تھا مگر کمال کا فقرہ تراشا تھا۔ کہا تھا کہ مادرِ فطرت نے فلاں سے بڑا کذّاب آج تک نہیں پیدا کیا! یہ جو اقتدار کے بھوکے سیاستدان ہوتے ہیں‘ انہیں یہ عامل‘ یہ پامسٹ‘ یہ نجومی‘ یہ شعبدہ باز‘ یہ کذاب‘خوب خوب بے وقوف بناتے ہیں ! جنرل ضیا الحق کا بھی ایک پسندیدہ پامسٹ تھا! جتوئی صاحب سے لے کر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو تک کس نے بابے دھنکے کی چھڑیاں پیٹھ پر نہیں کھائیں! اسلام انسان کو انسان کی غلامی سے نکالنے آیا تھا مگر یہاں حال یہ کہ کوئی کسی کے پاؤں چاٹ رہا ہے‘ کوئی کسی کی طرف پشت کر کے چلتا نہیں! کوئی کسی کو ہاتھ دکھا رہا ہے کوئی زائچہ بنوا رہا ہے۔ کوئی کسی تھری پیس سوٹ میں ملبوس‘ گھومتی کرسی پر براجمان فرعون کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے کہ یہ کہیں اے سی آر ( سالانہ رپورٹ) نہ خراب کر دے یا تبادلہ نہ کر دے ! اقبال کا یہ شعر تو ہم میں سے اکثر نے سنا ہوا ہو گا!
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جو شخص پیشگوئیوں پر اتنا یقین و ایمان رکھتا ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے نکاح کی شرط اولین کو نظر انداز کرتا ہے۔ پھر ایک ماہ اسی فاسد نکاح کے ساتھ گزار دیتا ہے‘ کبھی کسی دہلیزپر ماتھا ٹیکتا ہے یا دہلیز کو بوسہ دیتا ہے کیا ملک کی باگ ڈور اس کے سپرد کرنی چاہیے؟ کریں گے تو پھر بزدار اور شہزاد اکبر جیسے ہی اس کے یمین و یسار پر جلوہ افروز ہوں گے! ایک ضعیف الاعتقاد اور توہّم زدہ شخص تو ایک خاندان کا سربراہ ہو تو اسے برباد کر کے رکھ دیتا ہے چہ جائیکہ اسے ایک مملکت کے سیاہ سفید کا مالک و مختار بنا دیا جائے!! رہی یہ بات کہ فلاں کے پیروکار بے شمار ہیں تو اس کی وجوہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے! ماضی کے کرپٹ حکمرانوں سے عوام اتنے متنفر ہو چکے ہیں کہ اب کوئی بھی ہو‘ بے شک ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست ہی کیوں نہ ہو‘ ماضی کے کرپٹ حکمرانوں سے بہتر لگتا ہے! ابھی تو قدرت کرپشن کی سزا دے رہی ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا حساب بھی بعد میں ہو جائے گا!!