کرشن کمار پروفیسر ہے۔ سائنس کی ایک برانچ میں اس نے یورپ سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ ایک بڑی یونیورسٹی میں گریجوایشن اور ایم اے کی کلاسوں کو پڑھاتا ہے۔ اس کی نگرانی میں کئی طلبہ و طالبات ایم فل اور پی ایچ ڈی کر چکے ہیں! بین الاقوامی شہرت رکھنے والے معتبر جریدوں میں اس کے تحقیقی مضامین شائع ہوتے ہیں! اس نے اپنے گھر کے ایک گوشے میں پتھر کے بنے ہوئے بت رکھے ہوئے ہیں۔ صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے وہ ان کی پو جا کرتا ہے۔ وہ گائے کو گؤ ماتا کہتا ہے۔ گائے کا پیشاب اس کی روزانہ خوراک کا حصہ ہے!
نجم خان ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہے۔ وہ ایک بینک میں برانچ منیجر ہے۔ اس کی اپنے پیر صاحب سے اندھی عقیدت ہے۔ یہ پیر صاحب ''لوٹا ‘‘ پیر صاحب ہیں۔ لوٹا گھماتے ہیں اور چوری کا سراغ لگا لیتے ہیں! بدقسمتی سے نجم کے گھر کچھ عرصہ پہلے چوری کی واردات ہوئی۔اس کے احباب نے اسے بہت سمجھایا کہ پولیس سٹیشن جا کر رپورٹ درج کرائے مگر اس کا کہنا تھا کہ پیر صاحب لوٹا گھمائیں گے تو چور پکڑا جائے گا۔ معلوم نہیں چور پکڑا گیا یا نہیں‘ مگر اس کی عقیدت میں کوئی فرق نہیں آیا۔
آپ کا کیا خیال ہے یہ دو افراد‘ اور انہی جیسے اور لوگ‘ نفرت کے لائق ہیں یا رحم کے حقدار ؟ اعلیٰ ترین تعلیم بھی ان کی اندھی عقیدت کے قلعے میں شگاف نہیں ڈال سکی! ان مثالوں سے ‘ جو حقیقی زندگی سے لی گئی ہیں‘ یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ضروری نہیں صرف نا خواندگی ضعیف الاعتقادی کا سبب ہو! خواندگی یا نا خواندگی کا‘ تھوڑی تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کا ‘ عام طور پر‘ ضعیف الاعتقادی سے کوئی تعلق نہیں! ضعیف الاعتقادی کے ڈانڈے جہالت سے ملتے ہیں! اور جہالت اعلیٰ تعلیم کے باوجود بھی قائم رہ سکتی ہے! اگر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص گائے کا قارورہ پیتا ہے یا چوری کا سراغ لوٹا گھمانے سے لگواتا ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم کے باوجود جاہل ہے۔ اس سے نفرت نہیں کرنی چاہیے! اسے بیمار سمجھ کر اس کا علاج کرنا یا کرانا چاہیے! اسے قابلِ رحم سمجھنا چاہیے!
تو پھر اس میں تعجب ہی کیا ہے اگر کوئی کیمبرج سے پڑھا ہے یا ہاورڈ سے ‘ اور اس کے باوجود جہالت کی گہرائی میں گرا ہوا ہے۔ ایسے فرد کے ذہن کو کنٹرول کرنا چنداں مشکل نہیں! ایک بار اس کے ذہن پر قبضہ ہو جائے تو پھر وہ کوئی سوال‘ کوئی اعتراض ‘ نہیں کرے گا! وہ مکمل طور پر عامل کا ذہنی غلام ہو جائے گا! ہاورڈ سے پڑھا ہے یا کیمبرج سے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسے کہا جائے گا یہاں دہلیز پر سجدہ کرو ‘ وہ وہیں ماتھا ٹیک دے گا ! اسے کہا جائے گا تم نے کسی میت کی موجودگی میں نہیں جانا‘ وہ نہیں جائے گا یہاں تک کہ وہ عزیز ترین فرد کے جنازے میں شرکت نہیں کرے گا۔ اسے بتایا جائے گا کہ تم نے کس وقت باہر نکلنا ہے اور کس وقت واپس آنا ہے تو وہ ان اوقات کی پابندی کرے گا۔ اسے کہا جائے گا کہ ملازم اسے رکھو جس کا نام 'بے‘ سے یا 'ر‘ے سے یا 'سین‘ سے شروع ہو تو وہ ایسا ہی کرے گا خواہ وہ ملازم بالکل ناکارہ ہی کیوں نہ ہو! وہ اس حد تک عامل کے احکام کا پابند ہو گا کہ اگر اسے بتایا جائے گا کہ ملازم چوری کرنے کا عادی ہے یا بد دیانت ہے تو وہ پھر بھی اسے ہٹانے کی جرأت نہیں کرے گا اس لیے کہ عامل کے حکم سے سرتابی کی اس میں جرأت ہی نہیں ہو گی! ذہنی غلامی اس حد تک جا سکتی ہے کہ اگر عامل کہے کہ اپنے بچوں سے ‘ یا بھائیوں سے یا فلاں عزیز سے نہیں ملنا تو وہ ایسا ہی کرے گا! عامل اسے جو کہانی بھی سنائے گا وہ یقین کر لے گا۔ اگر اسے بتایا جائے گا کہ عامل کے قبضے میں جنات ہیں یا شر‘ اشرار ہیں یا پُر اسرار مخلوقات سے اس کا رابطہ ہے تو وہ آنکھیں بند کر کے یقین کر لے گا!ایسے بیمار شخص کو ‘ کسی حال میں بھی کوئی ایسا منصب نہیں سونپنا چاہیے جس کا تعلق مفادِ عامہ سے ہو! کیونکہ وہ کسی عاقل کے مشورے پر کبھی بھی نہیں عمل کرے گا اور وہی کرے گا جو عامل کہے گا۔ یوں نتیجہ صرف فساد اور عوام کے نقصان کی شکل میں ظاہر ہو گا!
تاریخ نے کئی ضعیف الاعتقاد حکمران دیکھے ہیں! مگر وہ فیصلے اپنی عقل یا اہل ِدانش کے مشورے سے کرتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ تخت نشینی کے لیے یا نئے محل میں منتقل ہونے کے لیے وہ نجومیوں سے یا جوتشیوں سے مبارک ساعت پوچھتے تھے مگر کاروبارِ سلطنت میں وہ ریشنل اور منطقی ہوتے تھے! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی عامل یا جوتشی یا نجومی نے بادشاہ سے امیدواروں کی تصویریں منگوائی ہوں اور پھر اسی نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ فلاں اس عہدے پر لگایا جائے اور فلاں کو یہ منصب دیا جائے!
اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دی۔ اسلام کے لیے یہ تصور ہی ناقابلِ برداشت ہے کہ ایک انسان‘ اپنے جیسے انسان کے سامنے حاجتمند ہو کر کھڑا ہو یا اپنے آپ کو اس کے احکام کا پابند بنا دے۔ کوئی سبز کرتا پہنے ہو‘ یا چغہ اور عمامہ پہنے ہو‘ یا تھری پیس سوٹ زیب تن کر کے گھومنے والی کرسی پر براجمان ہو یا اپنے زعم میں ‘ غیب کی خبریں بتانے والا ہو ‘ کسی صورت میں بھی اس امر کا مستحق نہیں کہ اس سے خوف زدہ ہوا جائے۔ سچ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں نفع ہے نہ نقصان ! آنکھیں بند کر کے اس کی پیروی کرنا انسانی شرف و نجابت کی توہین ہے!
وہ لوگ جو ضعیف الاعتقادی سے بچے ہوئے ہیں اور اپنے جیسے کسی انسان کو اپنی قسمت کا یا اپنے مستقبل کا مالک نہیں سمجھتے‘ خوش بخت ہیں! انہیں پروردگار کا شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ وہ بھی کسی چو کھٹ پر سجدہ ریز ہوتے یا کسی اپنے جیسے انسان کو مافوق الفطرت سمجھ کر اس کے اشاروں پر ناچ رہے ہوتے! ذلت ان کے مقدر میں ہوتی اور دنیا اور آخرت دونوں میں رسوا ہوتے!
ایک ہی دن پیدا ہونے والے افراد کی عادات‘ مزاج‘ افتاد طبع اور رجحا نات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کوئی فیاض تو کوئی بخیل! کوئی بہادر تو کوئی بزدل! ان کی زندگیاں بھی مختلف انداز کی ہوتی ہیں۔ کوئی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے تو کوئی پے در پے ناکامیوں کا شکار ہوتا ہے۔مگر ہاروسکوپ ہے کہ کروڑوں لوگوں کو اپنے جال میں الجھائے ہوئے ہے۔ سب سے پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ کا سٹار کون سا ہے۔لطیفہ نما واقعہ یہ ہوا کہ کئی سال پہلے ایک دوست کے ہاں بیٹھا تھا۔ اس کی بیٹی بھی‘ جو اُس وقت سکول میں پڑھتی تھی‘ ہمارے ساتھ بیٹھی تھی۔ میرا دوست کسی کام سے اندر گیا۔ بیٹی نے مجھ سے پوچھا‘ انکل آپ کا سٹار کون سا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے معلوم نہیں! پھر میں اسے سٹارز کی حقیقت بتا رہا تھا کہ اتنے میں میرا دوست آگیا۔اور کہنے لگا‘ تم بچی کو گمراہ کر رہے ہو! اس پر ایک اور لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ایک کاکروچ کھانا کھا رہا تھا۔اس کا بیٹا کہنے لگا‘ ابو یہ نالی جو ساتھ والی گلی میں ہے‘ اس کا پانی صاف ہے۔ اس پر اسے بڑے کاکروچ نے ڈانٹا کہ میرے کھانا کھانے کے دوران گندی باتیں نہ کیا کرو!