جہاز ہچکولے کھا رہا ہے !
نیچے والی منزل میں غدر برپا ہے! قیامت کا سماں ہے! پیندے میں سوراخ ہو گیا ہے! چھوٹا سا ‘ بے بضاعت سا سوراخ! پانی ذرا ذرا سا آنا شروع ہوا ہے مگر آئے جا رہا ہے! سوراخ بند کرنے کی کسی کو فکر نہیں! سب شور مچا رہے ہیں! نوشتۂ دیوار نظر آ رہا ہے۔ کوئی بچوں کو بچانے کی فکر میں ہے۔کسی کو خواتین کا خیال ہے۔ جہاز کے ڈوبنے میں کتنا وقت لگے گا؟ کچھ معلوم نہیں! اگر معجزہ برپا ہو جائے تو کوئی مددگار جہاز غیب سے نمودار ہو! جان بچانے والی کشتیاں (lifeboats ) نہ جانے میسر ہیں کہ نہیں!
جہاز کی اوپر والی منزل میں اور ہی صورت حال ہے! یہ اپر کلاس کے مسافر ہیں۔ ان کے پاس بڑے بڑے کیبن ہیں! یعنی لگژری خوابگاہیں ! کھانے پینے کے بہترین انتظامات ہیں! ایک ایک مسافر کے لیے کئی کئی دست بستہ خدمت گار ہیں۔ آواز دیں تو تیرتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں !ان مسافروں کو تنکا بھی خود نہیں توڑنا پڑتا۔ انہیں ذرہ بھر بھی پروا نہیں کہ پیندے میں سوراخ ہو چکا ہے۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ نیچے والوں کا ہے! ان کے لیے تو لائف بوٹس بھی میسر ہیں!ہماری سینیٹ اور اسمبلی کے معزز و محترم نمائندے بھی اسی اوپر والی منزل پر تشریف فرما ہیں ! تازہ ترین خبر کی رُو سے چیئرمین سینیٹ کی سرکاری رہائشگاہ کی تزئین و آرائش کے لیے پہلے ایک لاکھ روپے کی رقم مخصوص تھی۔ اب اسے بڑھا کر پچاس لاکھ روپے کر دیا گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا اضافی الاؤنس چھ ہزار روپے سے بڑھا کر پچاس ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ چیئرمین کی صوابدیدی گرانٹ چھ لاکھ روپے سے بڑھا کر اٹھارہ لاکھ کر دی گئی ہے۔چیئرمین کے سرکاری دورے کے دوران ڈیلی الاؤنس کو 1750 روپے سے بڑھا کر دس ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔اسی طرح روزانہ کے قیام کے لیے چار ہزار آٹھ سو روپے کا خصوصی رینٹ بڑھا کر پندرہ ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ ایک گاڑی رکھنے کا مجاز تھا ‘ اب وہ اور ان کی فیملی تین‘ چار یا اس سے بھی زیادہ گاڑیاں رکھ سکیں گے۔سابق چیئرمینوں کو بھی تا حیات مکمل حفاظتی بندو بست فراہم کیا جائے گا یعنی کئی سنتری اور کئی اہلکار ! اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے! اس کے باوجود چیئرمین صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ ان اضافوں سے پاکستان پر اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔ اسے کہتے ہیں زخموں پر نمک چھڑکنا۔ فرنگی زبان میں کہا جاتا ہے: Adding insult to injury۔صرف جماعت اسلامی کے سینیٹر نے اس بِل کی مخالفت کی۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر کو اس پر اعتراض نہیں تھا کہ یہ اضافے نا روا ہیں۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ صرف چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئر مین کے لیے اضافے کیوں؟ سارے ارکان کے لیے کیوں نہیں ؟؟ ان ناروا اضافوں کے حق میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ووٹ دیا! عوام کے یہ خادم جو دست و گریباں رہتے ہیں ‘ مراعات کی خاطر ہمیشہ اکٹھے ہو جاتے ہیں!
یہ ملک ایک بحری جہاز ہے۔ اوپر والے حصے میں ملک کی کل آبادی کا پانچ فیصد حصہ‘ یا شاید پانچ فیصد سے بھی کم ‘ سفر کر رہا ہے! اس میں سیاستدان ہیں‘ فیوڈل ہیں‘ بلوچستان کے سردار ہیں۔سوِل اور خاکی بیورو کریسی کا اوپر کا حصہ ہے۔ کچھ پراپرٹی ٹائیکون ہیں! کچھ صنعتکار اور بزنس مین ہیں! اور دیگر اُمرا! انہیں آبادی کے اُس پچانوے فیصد حصے کی اتنی بھی پروا نہیں جتنی قدموں کے نیچے آنے والی چیونٹی کی ہوتی ہے!! ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ ان کی زندگیاں آسودہ تر سے آسودہ ترین ہو جائیں! ورنہ ان حالات میں جب آئی ایم ایف ہماری پشت پر لات تک نہیں مار رہا‘ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی مراعات یوں نہ بڑھائی جاتیں!! اس پانچ فیصد آبادی کی الگ دنیا ہے۔ ان کی خوراک‘ ان کا پانی‘ ان کی سیر و تفریح‘ ان کی تعلیم غرض ان کی زندگی کا ہر شعبہ پچا نوے فیصد عوام سے الگ اور دور ‘ بہت دور ہے! آپ غور کیجیے۔ جس وقت عوام کشتی کی ہلاکتوں کا ماتم کر رہے تھے‘ عوامی '' نمائندے‘‘دیدہ دلیری کے ساتھ اور پوری بیگانگی‘ عدم دلچسپی‘ بے حسی‘ بے توجّہی اور لاتعلقی کے ساتھ اپنی مراعات بڑھانے کی فکر میں تھے۔ اس پانچ فیصد ایلیٹ اور امیر طبقے کاکوئی اصول ہے نہ نظریہ ! یہ مرغانِ باد نما کا ایک طائفہ ہے جو اپنا رُخ ‘ مفادات دیکھ کر بدلتا رہتا ہے۔
رہی پچانوے فیصد آبادی ! تو وہ جہاز کے نیچے والے حصے میں مقید ہے! یہ ایک اور ہی دنیا ہے۔ ان لوگوں کا پانی‘ غذا‘ تفریح‘ تعلیم‘ صحت ‘ اگر ہو تب بھی ‘ پانچ فیصد والوں سے بالکل مختلف ہے یہاں تک کہ زمین و آسمان کا فرق ہے! یہ عدالتوں میں جائیں تو فیصلوں کے انتظار میں ان کی زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں! بازاروں میں جائیں تو حسرتوں کے سکے دے کر محرومیاں خریدتے ہیں! ایک بہتر زندگی کی تلاش میں بیرونِ ملک جائیں تو سمندروں میں غرق ہو جاتے ہیں!اس نوے فیصد آبادی کا ملک کے وسائل پر کوئی حق نہیں! اسی لیے یہ سفارت خانوں کے سامنے قطاریں باندھ کر کھڑے رہتے ہیں۔ جیسے ہی ویزہ لگے‘ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اگر ان کے وسائل ہیں اور اگر ان کے حقوق ہیں تو وہ دوسرے ملکوں میں جا کر ہی ہاتھ آتے ہیں! یہ ملک اس پچانوے فیصد سسکتی‘ بلکتی ‘ روتی‘ سینہ کوبی کرتی آبادی کا نہیں ! یہ ملک ‘ اس کے وسائل‘ اس کی حکومتیں‘ مراعات‘ حقوق‘ سب کچھ‘ بلاولوں‘ مریم نوازوں‘ حمزہ شہبازوں‘مونس الہٰیوں‘ اسعد محمودوں‘ آمروں کی آل اولاد‘ اور آمروں کے ساتھیوں کی آل اولاد کے لیے ہیں ! یہ پچانوے فیصد آبادی کبھی سیلابوں میں ڈوب کر مرتی ہے ‘ کبھی بسوں اور ٹرکوں کے حادثوں میں ‘ کبھی بیرون ملک‘ بے یار و مددگار کشتیوں میں اور کبھی سرکاری ہسپتالوں کے بے رحم برآمدوں میں ایڑیاں رگڑ کر ہلاک ہوتی ہے جہاں ڈاکٹر موجود ہوں تو دوا نہیں ملتی اور دوا موجود ہو تو ڈاکٹر نہیں ہوتے ! یہ پچانوے فیصد آبادی نلکوں‘ جوہڑوں اور ندی نالوں کا پانی پیتی ہے۔ ان کے بیماروں کے علاج مزاروں پر ہوتے ہیں! ان کے بچے ورکشاپوں ‘ ریستورانوں ‘ پانچ فیصد کے گھروں‘ اور کھیتوں کھلیانوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کے ناشتوں میں انڈا ہوتا ہے نہ مار ملیڈ نہ پھلوں کا رس! ان کے بچوں کو سکول لے جانے کے لیے ڈرائیور ہوتے ہیں نہ گاڑیاں! یہ لندن‘ نیویارک اور ٹوکیو تو دور کی بات ہے‘ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کی جھلک بھی مشکل سے دیکھ پاتے ہیں!ان کے نوجوانوں کو پولیس والے کسی شک میں پکڑ کر تھانے لے جائیں تو چھڑا نے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پھر لاش ہی واپس ملتی ہے! ان کے بیٹے نوکری کی تلاش میں اسلام آباد آئیں تو کسی بااثر خاتون کا بچہ انہیں کچل دیتا ہے پھر انصاف غائب ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کوئی فرد ‘ وردی پہنے‘ چوک پر کھڑا ہو کر ڈیوٹی دے رہا ہو تو ایک سردار کی گاڑی اسے دن دہاڑے کچل دیتی ہے۔ پھر وہ سردار دو انگلیوں سے فتح کا نشان بنا کر حوالات سے باہر نکل آتا ہے اور انصاف قتل کو یوں بھول جاتا ہے جیسے قتل ہوا ہی نہیں تھا !
اس کے باوجود‘ رحم اُن مسافروں پر آرہا ہے جو اوپر کی منزل میں ہیں اور مال مست ہیں!اس لیے کہ وہ پیندے کے سوراخ کو صرف نیچے والوں کا مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔پانچ فیصد مراعات یافتہ آبادی کو اندازہ ہی نہیں کہ عوام کی فلاکت اور خواری و ناداری جب ایک خاص حد سے آگے بڑھی تو سب کچھ بہا لے جائے گی !