بابے …(2)

اس عنوان کی پہلی قسط چھ فروری2016ء کو اسی صفحے پر ظاہر ہوئی تھی۔ ایک بار پھر اس بات کا اعلان لازم ہے کہ میں بابوں کو مانتا ہوں۔یہ جو ڈِس انفارمیشن ہے کہ میں فلاں خاندان سے ہوں اورفلاں مسلک کی وجہ سے بابوں کو نہیں مانتا ‘ یہ ڈِس زیادہ ہے اور انفار میشن کم ! میرے باپ دادا بابوں کے بہت بڑے معتقد تھے۔ وہ رومی‘ سعدی‘عطار‘ نظامی‘ امیر خسرو اور جامی کے معتقد تھے۔ ان سے بڑے بابے کون ہوں گے! وہ میر‘ غالب اور بیدل کے ارادت مند تھے۔ میں بھی ‘ اپنے آبا ؤ اجداد کی تقلید میں‘ اپنے زمانے کے بابوں کا شیدائی ہوں! فرق صرف یہ ہے کہ بابے ‘ جنہیں میں مانتا ہوں‘سبز چولے پہنتے ہیں نہ مالائیں! وہ بالکل عام لوگوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ وہ زبردست دماغی قوتوں کے مالک ہیں اور قلم جب ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو اس میں کیسے مافوق الفطرت طاقت بھر جاتی ہے۔ اصل بابا ہوتا ہی وہی ہے جو اپنے بابا ہونے کا اعلان خود نہ کرے۔ لاہور ہی کو دیکھ لیجیے۔ اس شہر میں سب سے بڑا بابا ظفر اقبال ہے۔ اب وہ ماشاء اللہ نوّے سے اوپر ہے مگر شعر گوئی کی رفتار میں کمی آئی نہ کوالٹی میں! چند ہفتے پہلے تک روزانہ کے حساب سے کالم بھی لکھ رہا تھا۔ اس کے پاس ایسا اسم ہے اور ایسا طلسم ہے کہ غزل کو جس طرف چاہے موڑ دے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس وقت اُردو غزل میں اس کا کوئی ثانی ہے نہ حریف! اختلاف کرنے والوں کا حق ہے کہ اختلاف کریں۔ ظفر اقبال نے تو خود ہی معاملہ وقت پر چھوڑ دیا ہے۔
ظفرؔ یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں
ظفر اقبال نے اُردو شاعری میں گونگے لفظوں کو زبان دی۔ایسے ایسے مضامین غزل میں باندھے جو نظم میں باندھنے سے بھی شعرا ہچکچاتے تھے۔ یہ بابا اپنے مریدوں سے بے حد پیار کرتا ہے۔ اس وقت آبِ رواں کا جو ایڈیشن بازار میں دستیاب ہے‘ اس کا فلیپ اس حقیر مرید کا لکھا ہوا ہے جو بابے نے حکم دے کر لکھوایا۔ سرتابی کی مجال نہ تھی۔ بابا واحد بڑا شاعر ہے جو جونیئر اور نئے شعرا کو پڑھتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔'' اب تک ‘‘ اس کی کلیات کا نام ہے جس کی چھ جلدیں چھپ چکی ہیں۔ اُردو ادب کے شائقین کو آج بآسانی دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پرو ظفر اقبال اور اینٹی ظفر اقبال یعنی ظفر اقبال کے حامی اور ظفر اقبال کے مخالف۔ یہ جرأت صرف ظفر اقبال ہی میں ہے کہ اپنی شاعری پر خود تنقید کرتا ہے اور اپنے سے آگے بڑھ جانے والے کا شوق اور بے تابی سے منتظر بھی ہے۔ کس میں ہمت ہے کہ ایسا شعر کہہ سکے
مجھے غَسّال ہی نہلائیں گے اب
بہت میلا کچیلا ہو گیا ہوں
ظفر اقبال کی خدمت میں حاضری کا نذرانہ پیش کر کے میں لاہور کے ایک اور بڑے بابے کے آستانے پر حاضر ہوتا ہوں۔ یہ بابا عطا الحق قاسمی ہے۔ اس کی بقچیوں میں ہر وضع کے ساغر موجود ہیں۔ رُلا بھی سکتا ہے۔ ہنسا بھی سکتا ہے۔ دو ایسی حقیقتیں ہیں جن سے شاید ہی کوئی انکار کرے۔ اُردو اخبارات میں ادبی صفحے کا آغاز اسی نے کیا۔ اس کے بعد پھر لائنیں لگ گئیں۔ لگنی ہی تھیں کہ اس سے اخبارات کے عام قار ئین تک بھی ادب پہنچ سکا اور وہ بھاری بھرکم ادبی جریدوں سے بچ کر بھی ادب سے روشناس ہونے لگ گئے۔ اس بابے کا دوسرا کمال یہ ہے کہ کالم کو اس نے ادب کی صنف میں شامل کرایا۔ اس سے پہلے ادب اور کالم کے درمیان خلیج حائل تھی۔ اس نے ادب پارے لکھے جو کالم تھے اور کالم لکھے جو ادب پارے تھے۔ تعزیت نامے لکھ کر ایک اور باب وا کیا۔ سفرنامے لکھے۔ ٹی وی کے ایسے ڈرامے لکھے جو یادگار ہیں۔ معاصر کے عنوان سے ایک وقیع ادبی جریدے کی بنیاد رکھی۔ یہ اور بات کہ اب بابے کی صحت ادبی پرچے کے تھینک لیس کام کی متحمل نہیں ہو سکتی !
پھر میں لاہور ہی میں بابے مستنصر حسین تارڑ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہوں۔ اس بابے کی کرامتوں کے کیا ہی کہنے ! اتنے سفر نامے لکھے اور اتنے ناول کہ عجب نہیں خود اسے بھی سب کے نام نہ یاد آئیں۔ بابے کا دروازہ سب زائرین کے لیے کہاں کھلتا ہے بس ہم جیسے قسمت کے دھنی اس سے مل لیتے ہیں۔بابے کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے عشق ہے۔ اس عشق کو اس نے اپنے سفرناموں کے ذریعے متعدی مرض کی طرح پھیلایا اور ان علاقوں کو مشہور کیا۔ جب تک صحت اجازت دیتی رہی‘ بابا ہر سال شمالی علاقوں کے سفر کے سختیاں برداشت کرتا رہا۔
دل تو چاہتا ہے کہ مجیب الرحمان شامی صاحب کو بھی لاہور کے بابوں میں شامل کروں مگر وہ‘ ماشاء اللہ ‘ اتنے متحرک اور ایکٹو ہیں کہ بابے کی اصطلاح کا اطلاق ان پر منطقی لحاظ سے ہو نہیں سکتا۔ وہ ایک روزنامہ نکالتے ہیں۔ ٹی وی پر ہفتے میں پانچ دن پروگرام کرتے ہیں۔ یہ کام ایک جوان شخص ہی کر سکتا ہے۔ چشم بد دور!!
اب میں اسلام آباد کا رُخ کرتا ہوں۔ یہاں افتخار عارف ہے۔ ایک بڑا بابا!! اس کا آستانہ ہر بڑے چھوٹے کے لیے ہر وقت کھلا ہے۔ صحت کی خرابی کے باوجود کسی کی عرضی نا منظور نہیں کرتا اور آنے جانے کی ‘ اور سفر کی کلفت برداشت کرتا ہے۔ غزل کا بڑا شاعر تو وہ ہے مگر نعت کواس نے جو جو رنگ دیے ہیں‘ اسی کا حصہ ہے۔
یہ سر اٹھا ئے جو میں جا رہا ہوں جانبِ خُلد
مرے لیے مرے آقا نے بات کی ہوئی ہے
اور
درود پہلے بھی پڑھتا ہوں اور بعد میں بھی
اسی لیے تو اَثر بھی دعا میں رہتا ہے
ایک ڈھارس مجھ جیسے ساکنانِ اسلام آباد کے دل کو رہتی ہے کہ بابا افتخار عارف شہر میں موجود ہے۔ ضمیر جعفری نے کہا تھا کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں میں ہوتی ہے۔ بابا افتخار عارف اس شہر کا مینار ہے۔اختلاف کرنے والوں سے بھی پیار کرتا ہے!!
افتخار عارف کے گھر کے قریب ہی ایک اور بابا رہتا ہے۔ بڑا ہی باکمال ! بابا انور مسعود! بابا ابھی بی اے میں پڑھ رہا تھا کہ پنجابی کی نظم ''پنچایت‘‘ لکھی اور پیش منظر پر چھا گیا! وہ دن اور آج کا دن! وہ پنجابی شاعری کو مزاح سے ‘ نئی امیجری سے‘ اچھوتے موضوعات سے اور انوکھی بُنت سے مسلسل مالا مال کر رہا ہے۔ پہلے شاعری سنانے میں گھن گرج زیادہ تھی۔ اب مسکراہٹ زیادہ ہے۔ بے شمار نظمیں ضرب المثل کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ ان نظموں کے عنوانات بھی زبان زد خاص و عام ہیں! یہ اور بات کہ اس نے سنجیدہ اشعاربھی کمال کے کہے
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے
کیا بابا کے مقابلے میں بابی کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے ؟ مجھے نہیں معلوم! تو کیا میں کشور ناہید کو بابی کہوں ؟ ویسے میں اسے آپا کہتا ہوں! جب تک آپا کی صحت ٹھیک رہی‘ اس کا گھر دعوتوں کا مرکز رہا۔ اب طبیعت مضمحل زیادہ رہتی ہے۔ وہ بھی دن تھے جب آپا ماہ نو کی ایڈیٹر تھیں۔ خوب ڈانٹ ڈپٹ کر کے ہم سے کام کراتی تھیں۔ ترجمے کرائے۔ نظمیں کہلوائیں۔ ایسے ایسے نمبر ماہ نو کے نکالے کہ تاریخِ ادب کا حصہ ہیں۔ اب صرف ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں۔ یہ بھی اپنائیت اور پیار کی شکل ہے۔ اور آخری بات یہ کہ میں خود بھی اب چھوٹا موٹا بابا ہوں۔ اس کی تفصیل پھر کبھی!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں