ہمارے جیسے ملکوں میں سب سے زیادہ بے خبر شخص کون ہوتا ہے؟ حکومت کا سربراہ!
روایت ہے کہ صدر ایوب کے ملاحظہ کے لیے ایک خصوصی اخبار چھاپا جاتا تھا جس کے واحد قاری وہ خود ہوتے تھے۔ اس میں ''سب اچھا ہے‘‘ کی تفصیل دلکش انداز میں بیان کی جاتی تھی۔ خصوصی اخبار یہ بھی بتاتا تھا کہ ایوب خان ملک کے محبوب ترین لیڈر ہیں اور ہر مرد و زَن معترف ہے کہ پاکستان کو انہوں نے پاتال سے اٹھا کر بامِ ثریا تک پہنچا دیا! سنا ہے کہ اقتدار کے آخری ایام میں کار کی کھڑکی سے ہاتھ باہر نکال کر اُس وقت بھی لہراتے رہتے جب باہر کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہ روایت بھی سنی ہے کہ جب یحییٰ خان کو معلوم ہوا کہ لوگ اسے برُا بھلا کہتے ہیں‘ یہاں تک کہ دشنام دہی سے بھی باز نہیں آ رہے تو اس نے حیران ہو کر پوچھا ''کیوں؟ میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
صدیوں کے تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ حکمران ''اپنوں‘‘ کا جو حصار اپنے اردگرد باندھتا ہے‘ اسی حصار سے حکمران کے خلاف سازشوں کا جال پھیلتا ہے۔ اس حصار کے اکثر اراکین ان سازشوں سے آگاہ ہوتے ہیں۔ اگر نہیں آگاہ ہوتا تو تخت پر بیٹھا حکمران! جنرل ایوب خان نے جب‘ الطاف گوہر اینڈ کمپنی کی ''مہربانی‘‘ سے عشرۂ ترقی کا شور مچایا تھا تو لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے والی بات تھی۔ مشرقی پاکستان کے دریاؤں میں چلنے والی غریب مانجھیوں کی کشتیوں پر ''عشرۂ ترقی‘‘ کے بینر لگا دیے گئے تھے جو ہوا میں پھڑپھڑاتے تھے۔ اس کے جلد ہی بعد جنرل ایوب کی حکومت بھی پھڑپھڑانے لگ گئی۔ تازہ مثال دیکھیے۔ آٹے کے تھیلے پر بڑے میاں صاحب کی تصویر!! سبحان اللہ! یقینا میاں صاحب نے ایسا کرنے کو نہیں کہا ہو گا! یہ نادان دوستوں کا کارنامہ ہے۔ وہ بھی تو دوست تھا جس نے سوئے ہوئے دوست کے چہرے پر سے مکھی ہٹانے کے لیے چہرے پر پتھر مارا تھا! ارے بھئی! تصویر تو تب لگائیں جب تصویر والے نے آٹے کے یہ تھیلے اپنی جیب سے دیے ہوں۔ اگر یہ حکومتِ پنجاب کی جیب سے دیے جا رہے ہیں تو اس پر حکومت پنجاب کی مہر لگائیے۔ کسی شخصیت کا اس سے کیا لینا دینا! اب یہ کون سمجھائے کہ تصویر دیکھ کر نفرت بڑھتی ہے۔ اب مفلس اور قلاش بھی جانتا ہے کہ امیر کیوں امیر ہے اور غریب کیوں غریب ہے!!
اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف ان کے ''اپنے‘‘ جو زہر پھیلا رہے ہیں‘ ان سے پورا ملک واقف ہے سوائے خود وزیراعظم کے۔ لوگ ہنس رہے ہیں۔ لوگ قہقہے لگا رہے ہیں۔ لوگ ٹھٹھا اڑا رہے ہیں۔ لوگ تضحیک کر رہے ہیں۔ لوگ سوشل میڈیا پر شیئر کر کرکے مزے لے رہے ہیں۔ پہلا کارنامہ وزیراعظم کے ساتھیوں کا جس سے ان کی حکومت نَکّو بنی ایچی سن والا سانحہ تھا۔ یہ اتنا واضح کیس تھا کہ پورے ملک میں جگ ہنسائی ہوئی۔ اس پر وی لاگ ہوئے۔ تبصرے ہوئے۔ ٹی وی پروگرام ہوئے۔ مضامین لکھے گئے۔ سب کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کون زیادتی کر رہا ہے سوائے جنابِ وزیراعظم کے۔ گورنر صاحب سے لے کر پنجاب حکومت کے ایک وزیر تک سب نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق وفاقی حکومت کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر کی۔ بات صرف اتنی تھی کہ وزیراعظم اپنے وفاقی وزیر کو بلاتے اور کہتے کہ بھئی! تمہارے تو اعلان کیے گئے اثاثے ماشاء اللہ اتنے ہیں۔ تم نے یہ کیا تنازع کھڑا کیا ہے۔ ختم کرو یہ مذاق!! آپ اندازہ لگائیے کوتاہ نظری کا کہ ایچی سن کالج کا پرنسپل پاکستان چھوڑ کر چلا گیا اور ایک صوبائی وزیر صاحب اس کے جانے کے بعد اس پر اور اس کی بیوی پر الزامات لگا رہے ہیں۔
دوسرا سانحہ جس نے وفاقی اور پنجاب‘ دونوں حکومتوں کو ایکسپوز کر دیا بہاول نگر کا واقعہ ہے۔ فوج نے تو آئی ایس پی آر کے ذریعے اپنا مؤقف بیان کر دیا۔ حکومت کا مؤقف کہاں ہے؟ وزیراعظم‘ وفاقی وزیر اطلاعات‘ وزیراعلیٰ‘ صوبائی وزیر اطلاعات‘ وزیر داخلہ‘ سب مُہر بلب ہیں! پنجاب پولیس کے سربراہ نے جو وڈیو بیان دیا وہ ایک کمزور اور لِسّا بیان تھا۔ مُذَبذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ۔ پورے اس طرف نہ پورے اُس طرف!! دونوں ادارے اپنے ہیں۔ دونوں ادارے قومی ہیں۔ دونوں کی قوم کے لیے قربانیاں ہیں۔ دونوں نے شہیدوں کا خون قوم کی نذر کیا ہے۔ دونوں ملکی جسد کے اعضائے رئیسہ میں سے ہیں۔ وزیراعظم کی طرف سے بیان آنا ضروری تھا۔ خم ٹھونک کر سامنے آنا لازم نہ تھا۔ آپ مملکت کے بڑے ہیں۔ آپ کی طرف سے ایسا بیان‘ ایسا مؤقف آنا چاہیے تھا جو دونوں فریقوں کو مطمئن کر دیتا۔ آپ خود نہ بھی کچھ کہتے تو آپ کے وزیر اطلاعات یا وزیر داخلہ آپ کی حکومت کا مؤقف بیان کر دیتے۔ ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں جب حکمران کی دانائی‘ حکمت‘ دور اندیشی‘ فراست‘ ژرف نگاہی اور سوجھ بوجھ ظاہر ہوتی ہے اور عوام قائل ہو جاتے ہیں کہ صورتحال ہمارے حکمران کے کنٹرول میں ہے۔ پہلے زمانے کے حکمران کاروبارِ مملکت سیکھنے کے لیے اپنے اردگرد دانا افراد اکٹھے کرتے تھے۔ راتوں کو گلستانِ سعدی‘ سیاست نامہ طوسی اور قابوس نامہ جیسے شاہکار سنا کرتے تھے۔ یہ جو ناخواندہ اکبر‘ دنیا بھر میں اکبر اعظم بن کر چمکا‘ کسی جادو یا ٹونے کے سبب نہیں چمکا۔ سبب یہ تھا کہ اس نے اپنے اردگرد مملکت کے دانا ترین افراد جمع کیے تھے۔ اس کی کامیابی اُن پالیسیوں کی وجہ سے تھی جن کا تصور راجہ ٹوڈر مل‘ راجہ مان سنگھ‘ بیرم خان‘ عبد الرحیم خانخاناں‘ ابو الفضل‘ فیضی اور مرزا عزیز کوکلتاش اکبر کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ یہ عقل مند لوگ تھے۔ سمدھی اور بھتیجے نہیں تھے۔
وزیراعظم کو تیسرا بڑا نقصان اُن افلاطونوں اور ارسطوؤں نے پہنچایا ہے جنہوں نے جہاز کو پہلے جدہ کے بجائے مدینہ منورہ اُترنے پر مجبور کیا اور پھر اسلام آباد جانے کے بجائے اسے لاہور لے گئے۔ ان بزرجمہروں نے مسافروں کو پہلے جدہ میں دو گھنٹے انتظار کرنے پر مجبور کیا اور پھر یہی اذیت لاہور ہوائی اڈے پر دی! کون تھا یہ ذات شریف جسے یہ نادر خیال آیا؟ بدنام تو وزیراعظم ہوئے اور وزیراعلیٰ!! کھایا پیا سب نے اور گلاس توڑنے کے بارہ آنے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے سر پڑے!!
مصائب دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اُن حالات کے سبب آتے ہیں جو اپنے اختیار میں نہیں ہوتے۔ دوسرے وہ جو اپنے ہاتھوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اپنی حماقتوں‘ کوتاہ اندیشی اور کور چشمی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ یہ کیسے لوگ اکٹھے کیے ہیں جناب وزیراعظم نے اپنے اردگرد؟ ان میں کتنے پی ایچ ڈی ہیں؟ ان میں سے کتنے ہیں جو کسی نہ کسی کارنامے کے لیے مشہور ہیں؟ معاف کیجیے گا۔ یہ اوسط سے کم درجے کے لوگ ہیں۔ اس کالم نگار کی سعد رفیق سے ملاقات ہے نہ تعارف نہ کوئی غرض! مگر جب انہوں نے ریلوے کا چارج لیا تھا تو ریلوے کے منہ کے راستے پانی پیٹ میں پہنچ چکا تھا اور ریلوے ڈوب رہی تھی۔ سعد رفیق نے دن رات محنت کی اور اسے نئی زندگی بخشی۔ یہ مجھے ذاتی طور پر اس لیے معلوم ہے کہ اس وقت میرے کچھ برخوردار ریلوے کی ٹاپ بیورو کریسی میں تھے اور رات گئے بھی وہ سعد رفیق کے ساتھ میٹنگ میں بیٹھے ہوتے تھے۔ جبھی پی آئی اے کے چند درد مندوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہوا بازی کی وزارت بھی سعد رفیق کو دی جائے۔
آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور حکمران اپنے وزیروں اور مشیروں سے!!