''پاکستان چھوڑ کر کیوں نہیں گئے؟‘‘ پاکستان چھوڑ کر نہیں گیا کیونکہ پاکستان نے مجھے تعلیم دی۔ جو بھی میں نے زندگی میں کیا ہے وہ پاکستان کی دی ہوئی تعلیم سے کیا ہے۔ میں نے بھی ٹاٹ سکول سے زندگی سٹارٹ کی تھی۔ اب جب میں کسی کام کے قابل ہوا ہوں تو کیا یہ کہوں کہ یار! یہ ملک میرے لیے ٹھیک نہیں ہے؟ کیا میں کہیں اور پیدا ہوا تھا؟ میرا تو وطن یہی ہے اور جس کا وطن نہیں ہے‘ جیسے کسی افغانی سے پوچھیں جو یہاں آیا ہوا ہے اور جدوجہد کر رہا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے ملک دیا ہے‘ آپ سکون کے ساتھ اس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ناشکری سے اللہ تعالیٰ بچائے۔ پاکستان نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں نہ تو امیر آدمی کا بیٹا تھا نہ مجھے آؤٹ آف لائن ایسے پیسے ملے ہیں جو جائز نہیں تھے۔ یہیں کام کیا ہے۔ یہیں محنت کی ہے۔ جو پروڈکٹ میں بنا رہا ہوں وہ جرمن مجھ سے خریدنے میں خوش ہیں۔ لیکن جب میں پاکستان میں کام کر رہا ہوں تو پاکستان کے لیے کر رہا ہوں! ہزار ہا لوگ میری فیکٹری میں آئے جن کی میں نے ٹریننگ کی۔ پھر انہیں مختلف اداروں میں نوکریاں ملیں۔ میں اگر امریکہ چلا جاؤں تو میرا دال دلیا تو ٹھیک ہو جائے گا مگر یہاں جو کام کر رہا ہوں وہ ختم ہو جائے گا۔ اللہ نے میرا دال دلیا بھی یہاں ٹھیک کر دیا ہے۔ اور یہ صرف میری سٹوری نہیں ہے۔ بے شمار لوگوں کی ہے۔ اصل میں کچھ لوگ شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔ انہوں نے فلمیں دیکھی ہوتی ہیں جن میں ایک دن بندہ مزدور ہوتا ہے اور دوسرے دن سیٹھ بنا ہوتا ہے۔ نوکر آگے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ ایسا بس فلموں ہی میں ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ Easy money comes only in movies۔ حقیقی زندگی میں کچھ کرنا ہے تو محنت کرنا ہو گی۔ کوشش کرنا پڑے گی۔ بد قسمتی سے ہمارا نوجوان اس ذہنیت میں پڑ گیا ہے کہ فوراً امیر ہو جائے اور کہتا ہے ''پاکستان میں کچھ نہیں رکھا ہوا میں سپین جا رہا ہوں‘‘۔ میں سپین میں تھا۔ وہاں لاکھوں زیتون کے درخت ہیں۔ انہیں پاکستان سے لیبر چاہیے۔ تو وہ لیبر آپ یہاں بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بہت مثالیں ہیں۔ بہت سوں نے پاکستان ہی میں قسمت بنائی ہے اور حق حلال سے بنائی ہے۔ نپولین ہِل کی ایک کتاب ہے: Think and grow rich۔ اس کا پہلا باب ہے ''ہیروں سے بھرے ہوئے ایکڑ‘‘۔ اس میں بتایا ہے کہ امریکہ میں ایک شخص کے پاس زمین تھی مگر بنجر تھی۔ اس میں اُگتا کچھ نہیں تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ آگے چلے جاؤ فلاں زمین ہے جو زرخیز ہے اور سستی بھی۔ جتنے میں یہ بیچو گے اس میں وہاں کئی گنا زیادہ زمین مل جائے گی۔ چنانچہ اس نے وہ زمین بیچی اور چلا گیا۔ جس نے یہ زمین خریدی وہ اسی زمین میں ایک چشمے سے گھوڑے کو پانی پلا رہا تھا۔ گھوڑے کے پینے سے پانی میں ارتعاش پیدا ہوا۔ پانی ہِلا تو وہاں کوئی چمکدار شے نظر آئی۔ اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر اسے نکالا تو اسے لگا کہ وہ کوئی قیمتی پتھر ہے۔ وہ اسے جوہری کے پاس لے گیا۔ جوہری نے پوچھا: یہ تم نے کدھر سے لیا ہے؟ یہ تو ہیرا ہے اور بہت مہنگا ہے۔ زمین کے اس نئے مالک نے وہاں کھدائی شروع کر دی۔ وہ جگہ امریکہ کی بہت بڑی ہیروں کی کان ثابت ہوئی‘‘۔
یہ طویل اقتباس‘ امتیاز رستگار صاحب کے ایک انٹرویو کا حصہ ہے۔ رستگار صاحب ایک سیلف میڈ آدمی ہیں۔ صنعتکار ہیں۔ ایکسپورٹر ہیں اور کنسلٹنٹ! پاکستان میں وزیر رہے۔ نیدرلینڈز حکومت کے مشیر رہے۔ بے شمار کمپنیوں کو ٹریننگ دی۔ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ ویتنام‘ مراکش اور مصر کے کاروباری افراد کی بھی تربیت کی۔ ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان ہے: Stand Up & be Counted with a Global Mindset۔ یہ کتاب چھوٹی اور درمیانی سطح کا کاروبار کرنے والوں (SME) کو رہنمائی مہیا کرتی ہے۔
ہم میں سے بہت سوں کو امتیاز رستگار صاحب کی مندرجہ بالا باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو باہر گئے ہیں‘ وہ زر مبادلہ بھیج رہے ہیں۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جن تارکین وطن کے قریبی رشتہ دار پاکستان میں نہیں ہیں وہ زرمبادلہ نہیں بھیج رہے اور صرف اُس ملک کو بنا سنوار رہے ہیں جہاں رہ رہے ہیں۔ رستگار صاحب کا بنیادی نکتہ ہے کہ ''اب جب میں کسی کام کے قابل ہوا ہوں تو یہ کہوں کہ یار! یہ ملک میرے لیے ٹھیک نہیں ہے؟‘‘۔ جس ماں نے پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے‘ پڑھایا ہوتا ہے‘ جب وہ بیمار ہو جائے تو کیا اسے ہم چھوڑ کر چلے جاتے ہیں؟ یہ دھرتی ہماری ماں ہے۔ یہ آج کل بیمار ہے‘ حالات ٹھیک نہیں۔ تو کیا ہم اسے چھوڑ کر بھاگ جائیں؟ میرے پڑھنے والے اکثر مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارے تو اپنے بچے ملک سے باہر ہیں۔ تو گزارش ہے کہ میرے دو بچے اگر باہر ہیں تو تین‘ یہیں‘ اسی ملک میں محنت کر کے کما بھی رہے ہیں اور ملک کو دے بھی رہے ہیں۔ بے شمار لوگ جنہیں باہر بہت اچھی نوکریاں مل سکتی ہیں‘ نہیں جانا چاہتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہیں رہنا ہے! ان میں سے کوئی بھی بھوکا نہیں مر رہا! یہ جو بیس بیس‘ چالیس چالیس لاکھ روپے دھوکے باز نام نہاد ایجنٹوں کو دے کر کشتیوں میں ڈوب رہے ہیں یا ٹرالوں کے سامان میں چھپے مر رہے ہیں‘ یہ اسی بیس یا چالیس لاکھ سے اپنے ہی ملک میں روٹی کما سکتے ہیں اور اچھی روٹی کما سکتے ہیں!
کسی کو یہ بات بری لگے یا اچھی‘ سچ یہ ہے کہ ہمارا ملک یہی ہے۔ اس نے ان شاء اللہ قائم ودائم رہنا ہے۔ قائداعظم چلے گئے‘ ملک باقی ہے۔ عمران خان‘ زرداری‘ شریف برادران‘ چودھری‘ مولانا‘ سب چلے جائیں گے‘ ملک باقی رہے گا۔ دنیا کی تاریخ پڑھیے‘ اس سے کئی گنا زیادہ خراب حالات میں ملکوں نے جدوجہد کی اور بحرانوں سے نکل آئے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ملک شخصیات سے نہیں‘ اداروں سے چلتے ہیں۔ جس دن ہمارے ہاں سول ادارے مضبوط اور خودکار ہو گئے ہم بھی شخصیات سے بے نیاز ہو جائیں گے اور شخصیت پرستی سے نجات پا لیں گے۔ نکسن‘ ریگن‘ بش اور جو بائیڈن میں سے کوئی بھی جینئس نہ تھا‘ نہ ہی جان میجر! نہ ہی کیئر سٹارمر کوئی نابغہ یا عبقری ہے۔ یہ سب اوسط درجے کی ذہانت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ یہ ملک کو نہیں بلکہ خود انہیں ادارے چلاتے ہیں۔ کسی شخصیت پر انحصار کرنے والے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ آپ اس پوائنٹ کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ سنگاپور کا لی اور ملائیشیا کا مہاتیر بھی تو شخصیات ہی تھیں مگر آپ بھول رہے ہیں کہ لی اور مہاتیر نے اپنے اپنے ملکوں کو سسٹم دیے جو آج‘ ان کے جانے کے بعد بھی‘ چل رہے ہیں! جبکہ حسنی مبارک اور قذافی قسم کے سربراہوں نے سسٹم نہیں بنائے اور حسینہ واجد نے جو سسٹم موجود تھا‘ اسے بھی تہس نہس کر دیا اور اپنی ذات کو لائل پور کا گھنٹہ گھر بنا دیا۔ ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم ایسی شخصیات کے سحر میں تو نہیں مبتلا جو سسٹم بنا سکتے ہیں نہ لیڈرشپ پیدا کر سکتے ہیں۔ جو رہنما دو دو‘ تین تین دہائیوں میں اپنی اپنی جماعت میں اپنے جانشین نہیں پیدا کر سکے اور اپنی اپنی پارٹی کو کوئی سسٹم نہیں دے سکے وہ ملک کو کیا سسٹم دیں گے۔ یہ تو وہ رہنما ہیں جو اپنی پارٹی میں کسی لائق اور فعال شخص کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔
مت بھولیے کہ آپ کے قدموں تلے ہیروں کی کان ہے۔