جب سے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی ) نے طالبان سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے اور انہیں اپنے مطالبات کے حق میں دلائل دینے کا موقع فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اندرون اور بیرون ملک ایک ایسی بحث چھڑ گئی ہے،جو ختم نہیں ہو پا رہی۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ آئے دن پیش آنے والے واقعات اور حادثات اپنے اپنے اثرات مرتب کرتے چلے جا رہے ہیں۔کبھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امن کی خواہش رکھنے والوں کے ہاتھ خالی کئے جا رہے ہیں اور گولی کا جواب گولی سے دینے والے توانائی حاصل کرتے جا رہے ہیں۔اپر دیر میں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے رفقاء کا خون تازہ ہی تھا کہ پشاور کے ایک چرچ میں مسیحی عبادت گزاروں پر حملے کی شرمناک واردات کا ارتکاب کر ڈالا گیا۔سینکڑوں خاندان ویران نظر آئے۔ یہ زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ پشاور ہی میں سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکہ ہو گیا۔درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے۔ طالبان کہلانے والے کسی گروپ نے بڑی ڈھٹائی سے اس کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ فوجی افسروں کی شہادت کے بعد بھی طالبان کہلانے والے ایک گروپ نے اسے اپنا کارنامہ قرار دیا تھا۔چرچ کی واردات کے بعد اوّلاً تو تحریک طالبان پاکستان کے ایک مبینہ گروپ نے اسے اپنے کھاتے میں ڈالا، لیکن پھر برأت کا اعلان سامنے آ گیا۔کہنے والوں نے کہا کہ یہ اعلان ایک دھوکہ ہے اور محض شدید ردعمل سے خود کو بچانے کے لئے کیا گیا ہے، لیکن یہ نقطۂ نظر بھی سامنے آیا کہ طالبان کی نقاب اوڑھ کر کوئی بھی غیر ذمہ دار عنصر کوئی بھی کارروائی کر سکتا ہے،اس لئے صدمے کو سمیٹتے ہوئے مذاکرات کے راستے پر سفر جاری رکھا جائے۔کچھ حاصل نہ ہونے کے باوجود یہ تو حاصل ہو گا کہ اس کاوش کو اوّل روز ہی سے سعیٔ لا حاصل قرار دینے والوں کے ہاتھ بالآخر کُھل جائیں گے اور وہ کُھل (یا کھل کر)کھیل سکیں گے۔ مذاکرات کے حامی اور مخالف عناصر کے درمیان کبڈی کا یہ میچ جاری ہے۔ اس کے انجام کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنامشکل ہے…لیکن ہر وہ شخض جو ٹھنڈے دل و دماغ سے کام لے کر الجھنوں کو سلجھانا چاہتا ہے، وہ تمام تر مشکلات کے باوجود مکالمے کی اہمیت سے انکار نہیں کر پارہا۔ وزیراعظم نوازشریف اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک گئے ہوئے ہیں،وہاں انہوں نے اپنے زوردار خطاب میں یہ واضح کیا ہے کہ شدت پسندوں سے مذاکرات کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اس سے پہلے ایک اخباری انٹرویو میں بھی انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ مذاکرات اسی وقت کامیاب ہوں گے ،جب مسلح عناصر ہتھیار رکھ دیں گے اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرلیں گے۔یاد رہنا چاہیے کہ پاکستان کا آئین ایک اسلامی اور جمہوری دستاویز ہے اور ووٹ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے اقتدار کے حصول کی اجازت نہیں دیتا۔اس کے تحت مسلح جدوجہد کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جو شخص اپنے کسی بھی مطالبے کے حق میں بندوق اٹھاتا ہے، گویا وہ اپنے خلاف ریاستی بندوق کو حرکت میں آنے کی دعوت دیتا ہے۔یہ ا ور بات کہ بعض اوقات بندوق کی ہیبت کو برقرار رکھنے کے لئے اس کے بے محابا استعمال سے گریز لازم ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے ہوں یا بلوچستان کے شورش زدہ مقامات، دونوں میں پھیلی ہوئی وبا کے علاج کے لئے کئی تدابیر کو بروئے کار لانے کی ضرورت کا احساس کرنا، بدامنی یا شورش کی حوصلہ افزائی کرنے کا نام نہیں ہے۔اس پر انتہاپسندوں کو تسلیم کرنے کی پھبتی کسی جاسکتی ہے نہ ہی اسے ’سرنڈر‘کانام دیاجاسکتاہے کہ جہاں گُڑسے کام نکل جائے،وہاں زہر کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بقول ایک بڑے مدبرحکمران کے،جوکام ہاتھ سے ہوسکے، وہاں مَیں کوڑااستعمال نہیں کرتا اور جو کوڑے سے ہو سکتا ہو، اس کے لئے کبھی تلوار نہیں اُٹھاتا۔ مذاکرات کے آغاز کے لئے اے پی سی نے کوئی شرط نہیں لگائی، اس لئے کسی شدت پسند عنصر کی طرف سے بھی کسی شرط کا کوئی جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ آئین کی بالادستی کا عمومی تصور اس وقت ہی بروئے کار آئے گا، جب مذاکرات کامیاب ہوں گے۔ وزیراعظم نواز شریف نے آئین کوتسلیم کرنے کے حوالے سے جو بات کہی ہے، اسے مذاکرات کی کامیابی کی شرط تو قرار دیا جاسکتا ہے، ان کے آغاز کی نہیں۔ اس باریک فرق کو ہمارے کئی تجزیہ کاروں نے نظرانداز کر کے اپنی فہم و فراست کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔ ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی مرحوم کی 34 ویں برسی کے موقع پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں ایک اہم نکتے کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا سے ان کا رابطہ پچاس کی دہائی میں شروع ہوا تھا ، پھر وقتاً فوقتاً ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا۔ ان سے قومی سیاست کے بارے میں جب بھی بات ہوئی، انہیں مذاکرات کا قائل پایا کہ اس طرح فریقین کو ایک دوسرے کو اپنا نقطہء نظر سمجھانے کا موقع ملتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے سامنے براہ راست اپنے دلائل پیش کر سکتے ہیں۔ مولانا مرحوم مکالمے کو ایک تبلیغی سرگرمی سمجھتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ مبلغ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دے۔ ایس ایم ظفر کا استدلال تھا کہ طالبان سے مذاکرات کو بھی شرائط کے گورکھ دھندے میں الجھاناضروری نہیں ہے۔ تبلیغ ہر مسلمان کی پیدائشی ذمہ داری ہے، اس لئے مقابل کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو، کیسا بھی ہو، یہ فرض تو بہرحال ادا کرنا ہی چاہیے۔ (یہ کالم روزنامہ ’’دنیا‘‘اورروزنامہ’’پاکستان‘‘میں بیک وقت شائع ہوتاہے۔)