سید فصیح اقبال سے چند ہی روز پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ حسبِ معمول چہک تو نہیں رہے تھے، لیکن زبان کو تالہ بھی نہیں لگا تھا۔ پریس کونسل کا اجلاس کم و بیش دو گھنٹے جاری رہا، صدر ممنون حسین نے اس کے شرکاء کو ظہرانے پر مدعو کر رکھا تھا، وہاں بھی گئے۔ ڈیڑھ، دو گھنٹے ایوانِ صدر میں گزرے ہوں گے۔ صدر گرامی کے دائیں‘ کونسل کے چیئرمین جسٹس(ر) شفقت عباسی اور ان کے دائیں فصیح صاحب کی نشست تھی۔ بائیں ہاتھ مَیں بیٹھا ہوا تھا۔ صدر صاحب سے بھرپور تبادلہ ٔ خیال جاری رہا۔ فصیح صاحب جہاں بیٹھتے، اپنے آپ کو مرکز نگاہ بنا لیتے تھے۔ اس دن بھی انہوں نے خوب گفتگو کی، ان کو گلہ تھا کہ جناب صدر ابھی تک بلوچستان نہیں آئے۔ وفاقی حکومت اور اس کے وزراء بھی زد میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اہل اقتدار کو وہاں آنا اور کچھ نہ کچھ قیام کرنا چاہئے۔ یہ کیا کہ ایک جہاز سے آئے، اور دوسرے سے واپس۔ صدر ممنون حسین کا انداز مدافعانہ تھا۔ وہ انہیں یقین دلا رہے تھے کہ وہ ان کی خواہش کو پہلی نہیں تو دوسری، تیسری فرصت میں ضرور پورا کریں گے۔
پریس کونسل میں سید صاحب اور مَیں، دونوں اے پی این ایس کی نمائندگی کر رہے تھے۔ میر شکیل الرحمن اور جگنو محسن کو بھی نامزد کیا گیا تھا، لیکن کسی ایک نے کسی ایک اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔ میر صاحب تو دوبئی میں ''پناہ‘‘ لے چکے، جگنو پاکستان میں جگمگاتی ہیں، لیکن بڑی احتیاط سے ۔ وہ نجم سیٹھی صاحب کی اہلیہ ہیں، لیکن اپنی ذات میں اعلیٰ پایے کی ایڈیٹر ہیں اور پبلشر بھی۔ انہوں نے بالآخر استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ اے پی این ایس نے برادرم قاضی اسد عابد کو نامزد کیا تھا، وہ اسلام آباد پہنچے تھے اور پریس کونسل کے اجلاس میں پہلی بار شریک ہو رہے تھے۔ مجھے سی پی این ای کا صدر منتخب کر لیا گیا تھا، اس لئے پریس کونسل کے قواعد کے مطابق اس کی رکنیت کا اہل نہیں رہا تھا۔ اخباری صنعت کی کسی بھی تنظیم کا کوئی عہدیدار اس میں بطور رکن نہیں بیٹھ سکتا۔ یہ کونسل چند سال پہلے پرنٹ میڈیا کے احتسابی ادارے کے طور پر وجود میں آئی تھی۔ اس میں مختلف اخباری تنظیموں کے نمائندے، قومی اسمبلی کے ارکان اور سول سوسائٹی کے افراد بھی موجود ہیں۔ کسی اخبار یا رسالے سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی کوئی شکایت پیدا ہو تو اس سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ یہ کونسل فریقین کا نقطہ نظر سننے کے بعد تردید یا معذرت کی اشاعت کے لئے ہدایات جاری کر سکتی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال جب سپریم کورٹ سے (پی سی او کا حلَف نہ لینے کی پاداش میں) رخصت ہوئے، تو انہیں اس ادارے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ جب بحالی عمل میں آئی تو انہوں نے اسے خیرباد کہہ دیا۔ آج کل اس کے چیئرمین راجہ شفقت عباسی ہیں اور اسے فعال بنانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔کاغذوں میں تو یہ ادارہ بن چکا، لیکن مطلوبہ فنڈز ابھی تک وفاقی حکومت نے فراہم نہیں کئے، اس لئے ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔
راجہ صاحب نے میرے لئے چائے کا اہتمام کیا ہوا تھا، رفقائے عزیز نے خوب صورت الفاظ سے الوداع کہا،فصیح اقبال اس دوران موجود رہے اور (مجھ سے) محبت کا حق ادا کیا۔ تمام تر شگفتگی کے باوجود اُن کے چہرے پر زردی سی چھائی تھی۔ اس پر تشویش کا اظہار کیا تو کہا کہ آپریشن کرایا ہے،( شائد) پِتے کا، اور اس کے بعد پیشاب کی تکلیف ہو رہی ہے۔انہوں نے اپنے مرض کو اختصار کے ساتھ بیان کیا ، تو کرید، پڑتال کی ہمت نہ ہوئی، صرف یہ عرض کیا کہ اپنا خیال رکھئے، آرام کیجئے، بے احتیاطی سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے چند روز بعد وہ اسلام آباد ہی میں اے پی این ایس کے اجلاس میں شریک ہونے پہنچ گئے۔ اس دن برادرم خوشنود علی خان کے صاحبزادے اویس خوشنود کی دعوتِ ولیمہ بھی تھی کہ وہ مراکش سے چاند سی دلہن بیاہ کر لائے ہیں۔ میں اسلام آباد نہ جا سکا تھا کہ لاہور میں ڈاکٹر فرید پراچہ کی دختر نیک اختر کی رخصتی تھی۔ عزیزم عمر شامی نے لاہور آ کر بتایا کہ فصیح صاحب بڑے مضمحل تھے‘ ان کی حالت ٹھیک نظر نہیں آتی۔ برادرم جمیل اطہر نے تفصیل یوں بیان کی کہ وہ کوئٹہ سے شائع ہونے والے چند اخبارات کو رکن بنوانے کے لئے آئے تھے، اور یہ کہہ کر سب کو اُداس کر دیا تھا کہ خرابی ٔ صحت کے باوجود انہوں نے اپنے رفقاء کے لئے یہ تکلیف گوارا کی ہے، براہ کرم ان کو اے پی این ایس کی رکنیت عطا کر دیجئے۔جمیل اطہر صاحب نے بڑے جذباتی انداز میں اس کی تائید کی، دوسرے ارکان بھی اسی رو میں بہہ نکلے اور فصیح صاحب کی درخواست کو حکم سمجھ کر قبول کرلیا گیا۔
فصیح صاحب کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ اِسی عالم میں کراچی کا سفر اختیار کر لیا۔وہاں پہنچے تو طبیعت بگڑ گئی، ہسپتال لے جایا گیا، لیکن دل نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ڈاکٹروں نے وینٹی لیٹر پر لگا دیا، مگر لاحاصل ... ان کی ابدی مسکراہٹ ابدی نیند سو چکی تھی۔گلستان جوہر میں ان کی نماز جنازہ ادا کرنے کا اعلان ہوا۔ اس کے بعد وصیت کے مطابق اُن کی میت کو کوئٹہ لے جایا جانا تھا، جس مٹی کو اپنا لیا تھا اُسی کو اوڑھ کر سونا چاہتے تھے۔ بھاگم بھاگ کراچی پہنچا، راجہ شفقت بھی اسی جہاز میں تھے، برادرم نصیر احمد سلیمی نے ایئرپورٹ سے وصول کر کے گلستان جوہر کی بھول بھلیوں سے گزارا۔ مرحوم کے بھائی، بھتیجوں اور اخباری تنظیموں کے رہنمائوں نے سینکڑوں دوسرے افراد کے ساتھ مل کر اُن کی مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ انہیں پھولوں میں لادا، اور بوجھل دل کے ساتھ واپس ہو لئے۔
سید فصیح اقبال الٰہ آباد سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تھے۔ چند سال کراچی میں گزارے، وہیں ہفت روزہ ''زمانہ‘‘ کا اجراء کیا، پھر اُسے کوئٹہ لے گئے۔ وہاں اُسے روزنامہ بنا کر بلوچستان کا پہلا اخبار شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔کئی سال بعد انگریزی کا روزنامہ ''بلوچستان ٹائمز‘‘ بھی وہیں سے شروع کیا اور ملک کیا‘ دنیا بھر میں بلوچستان کی آواز بن گئے۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سینیٹر بھی منتخب ہوئے، لیکن عملی سیاست میں دل نہیں لگایا۔اُن کا دشمن کوئی نہیں تھا، سب کو دوست سمجھتے اور سب کے ساتھ دوستی نبھاتے تھے۔ جس محفل میں بیٹھتے اس کی جان بن جاتے۔مہمان نوازی اور دوست داری ان پر ختم تھی۔ سی پی این ای کے کئی بار صدر منتخب ہوئے۔ اے پی این ایس کی صدارت بھی سنبھالی۔ بلوچستان میں جب بھی اجلاس ہوتا‘ وہ میزبان ہوتے۔ اُن کی موجودگی میں کوئی اپنے خرچ پر کوئٹہ میں نہیں ٹھہر سکتا تھا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ اُن کے اشارے کے محتاج ہوتے، وفاقی حکومت کو جھنجھوڑنے، بھنبھوڑنے کے بھی ماہر تھے۔ شادی نہیں کی، لیکن اپنے بھتیجوں کو بیٹوں سے بڑھ کر پیار دیا، اپنے عملے کو اولاد کی طرح سمجھا۔ بلوچستان کو انہوں نے اور بلوچستان نے ان کو اس طرح اپنایا تھا کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔ انہیں قومی اعزازات بہت ملے، ایک سال پہلے بلوچستان یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی۔ دوستوں کے حلقے میں وہ ''بلوچ سردار‘‘ سمجھے جاتے تھے، بلوچستانی صحافت ان کی جاگیر تھی، لیکن ان میں تندی اور تلخی نہیں تھی۔ وہ اپنی ''رعایا‘‘ پر ہمیشہ مہربان رہے اور دونوں ہاتھوں سے داد و دہش میں مصروف۔ برادرم جمیل اطہر کا کہنا ہے کہ وہ 85سال کے ہو چکے تھے،55سال پہلے جب لائل پور (فیصل آباد) میں وہ اُن سے اور مصطفی صادق صاحب سے ملنے آئے تھے، تو اس وقت گورا چٹا سجیلا نوجوان 30سے کم کا نہیں تھا۔ یہ عمر اُن کے چہرے سے عیاں نہیں تھی، بڑھاپا طاری تو کیا ظاہر بھی نہیں ہوپایا، آسانیاں اور خوشیاں بانٹنے والے کو یہ انعام تو ملنا ہی چاہئے تھا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)