"MSC" (space) message & send to 7575

لہو گرم رکھنے کے لئے

نومبر کی آخری تاریخوں میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے جماعت اسلامی پاکستان کا سالانہ اجتماع ِ عام کئی سال کے بعد منعقد ہوا۔ بلاشبہ اِس میں شریک ہونے والوں کی مجموعی تعداد لاکھوں میں تھی۔ یہ کوئی ایک دن کا جلسہ نہیں تھا، یہاں مندوبین کو تین روز قیام کرنا تھا، ان کی باقاعدہ رجسٹریشن ہو رہی تھی اور ان سے رجسٹریشن فیس بھی وصول کی جا رہی تھی، اس لئے انہیں گننا ممکن تھا۔ مندوبین کے علاوہ لاہور اور اس کے گردو نواح سے تعلق رکھنے والے مختلف اوقات میں آتے اور جاتے رہتے تھے، ان کی وجہ سے رونق میں اضافہ ہو گیا تھا۔ دنیا بھر سے اسلامی تحریکوں کے نمائندے بھی شرکت کے لئے آئے تھے اور جماعت اسلامی کے عالمی اداروں سے تعلق رکھنے والے بھی اپنی موجودگی کا احساس دِلا رہے تھے۔ امیر جماعت اسلامی ہند کو نئی دہلی کے پاکستانی سفارت خانے سے صرف لاہور کا ویزا ملا تھا، اس لئے وہ خواہش کے باوجود کراچی یا اسلام آباد نہ جا سکے۔ پاکستان اور بھارت کی طرف سے دونوں ملکوں کے شہریوں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کہ انہیں ویزا ملک کا نہیں، شہر کا دیا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جانے کے لئے آپ کو ایک ایسا ویزا دیا جاتا ہے، جس کی بدولت آپ پورے ملک میں گھوم سکتے ہیں، لیکن ان دو پڑوسی ملکوں کا باوا آدم نرالا ہے،یہاں ویزے پر شہر کا نام لکھ دیا جاتا ہے اور کسی دوسرے شہر میں جانے کی اجازت نہیں مل پاتی۔ایک بار ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے مَیں نئی دہلی گیا، تو بعض دوستوں کے ساتھ اجمیر جانے کا پروگرام بنا بیٹھا۔ ''راجدھانی‘‘ میں نشست بھی محفوظ کرا لی، جب ایک بھارتی اخبار نویس سے تذکرہ ہوا تو اُس نے استفسار کیا، آپ نے اجمیر کا ویزا لے رکھا ہے، مَیں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا کہ آپ کے محکمہ اطلاعات سے درخواست کر کے وہاں چلے جائیں گے۔ اُس نے یہ جواب دے کر حیران کر دیا کہ محکمہ اطلاعات کا اِس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہ وزارت ِ داخلہ کا کام ہے اور ایک دن میں، آپ کو وہاںسے اجازت نہیں مل سکتی، اِس لئے نشست منسوخ کرا دیجئے۔بھارت سے پاکستان آنے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے، لیکن یہاں مہمان نوازی کے جذبے سے سر شار میزبان اکثر آسانی کے ساتھ اجازت نامہ حاصل کر گزرتے ہیں۔ بہرحال ہندوستان کے ایک مسلمان رہنما کے ساتھ ہمارے سفارت خانے کے اِس (مساویانہ) سلوک نے دل کو کچوکا سا لگا دیا۔
جماعت اسلامی کا اجتماع حاضری اور نظم و ضبط کے اعتبار سے قابل ِ رشک تھا۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے جلسے ہڑبونگ کا شکار رہتے ہیں، اگر ان میں کھانے کی کوئی شے تقسیم کرنا پڑ جائے، تو لوٹ مار کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ایک بڑی سیاسی جماعت کے اجتماع کے تو شرکا کرسیاں تک اُٹھا کر لئے گئے تھے۔ایسی جماعتیں بھی ہمارے ہاں مونچھوں کو تائو دیتی پائی جاتی ہیں، جن کی افطار دعوتوں میں کارکن افطار سے پہلے اشیائے خورو نوش پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کو اپنی جماعتوں میں نظم و ضبط پیدا کرنے میں کوئی قابل ِ ذکر دلچسپی لیتے نہیں دیکھا گیا۔اس کا نتیجہ ہے کہ اقتدار میں پہنچ کر بھی بدنظمی تعاقب کرتی رہتی ہے۔ مذہبی جماعتوں کے اجتماعات(عام طور پر) اس حوالے سے ممتاز ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا کارواں تو ممتاز تر تھا، کہ نہ کہیں چھینا جھپٹی کا کوئی منظر تھا، نہ کوئی ہنگامہ اٹھ رہا تھا۔ اردگرد کے بازاروں میں معمول کی سرگرمیاں جاری رہیں اور کہیں قیمت کم کرانے پرکوئی کسی کو دھمکاتا ہوا بھی دکھائی نہیں دیا۔
سید منور حسن کی جگہ منصب امارت سنبھالنے والے سراج الحق ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو اپنے مزدور والد پر فخر ہے۔ اپنی تعلیم کے اخراجات بھی محنت کر کے پورے کرتے رہے، ان کے اس پس منظر نے انہیں عوامی مسائل کے حل کے لئے سرگرداں کر دیا ہے۔ اُن کا لہجہ روایتی خطیبوںاور مولویوں جیسا نہیں، ایک ایسے شخص کا ہے، جو عوام کا درد سمجھتا اور اسے بانٹنے پر یقین رکھتا ہے۔ سراج الحق نے ہر روز مفصل تقریریں کیں اور واضح کیا کہ جماعت اسلامی برسر اقتدار آ کر مہنگائی، غربت، جہالت اور بیماری کو شکست دے گی، کم وسیلہ لوگوں کو اشیائے خورو نوش میں سبسڈی دی جائے گی، اردو زبان ذریعہ تعلیم ہو گی۔ دل، جگر اور گردے کی بیماریوں کا علاج مفت ہو گا۔ سراج الحق صاحب خیبرپختونخوا میں طویل عرصے تک وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے دوران بھی اور تحریک انصاف کی مخلوط حکومت میں بھی یہ منصب ان کے پاس رہا ہے۔ اب بھی وہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن ہیں اور سیاسی نظام سے ان کا واسطہ نظری نہیں عملی ہے۔ انہوں نے متناسب نمائندگی کا مطالبہ پوری شدت سے کیا۔ اس نظام میں امیدواروں کے بجائے جماعتوں کو ووٹ دیئے جاتے ہیں، کوئی جماعت معاشرے میں جس تناسب سے موجود ہو، اُسی کے مطابق نشستیں حاصل کر لیتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں جب سے جمہوریت آئی ہے، حلقہ جاتی انتخابات کرائے جاتے رہے ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، پاکستان ہر جگہ یہی طریقہ رائج ہے۔ ہمارے ہاںاس طریق کار کو یکسر بدل دینا شاید ممکن نہ ہو، لیکن دونوں نظاموں کو یکجا کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔1979ء میں یہ معاملہ بڑی شدت سے زیر بحث آیا تھا، اس وقت ایک تجویز یہ پیش کی گئی تھی کہ اسمبلیوں کی آدھی نشستیں حلقہ جاتی بنیاد پر پُر کی جائیں، اس مقصد کے لئے ہر دو انتخابی حلقوں کو ایک کر دیا جائے۔ ان انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی بنیاد پر آدھے ارکان مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے نامزدگی کی بنیاد پر منتخب کر لئے جائیں۔ یہ تجویز بحث و تمحیص کے لئے اچھی بنیاد فراہم کر سکتی ہے، لیکن یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ ہماری سیاسی جماعتیں منظم نہیں ہیں، اس لئے ان کے قائدین کے ہاتھ میں طاقت اور بھی مرتکز ہو جائے گی۔ پھر یہ کہ اس نظام میں ایک خاص حد(کم از کم پانچ فیصد) تک ووٹ حاصل نہ کرنے والی جماعتیں کوئی بھی نشست حاصل نہیں کر پاتیں، یہ نکتہ الجھن کا باعث ہو سکتا ہے۔
سراج الحق نے سودی معیشت پر بھی شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ یہ موضوع عوامی جذبات کو ابھارنے کے بجائے سنجیدہ غور و خوض کا متقاضی ہے۔ یہ صرف پاکستان کا نہیں پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ بنک کے سود کو ربویٰ قرار دینے کے بارے میں ہمارے ہاں تاریخی طور پر اختلاف رہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ بھی بنک کے سود کو منافع سمجھتے تھے، ''ربویٰ‘‘ نہیں۔ پاکستان میں سٹیٹ بینک نے غیر سودی بنکاری کے حوالے سے کئی اقدامات کئے ہیں اور پیشرفت جاری ہے۔سراج الحق کو اپنے تصورات کے مطابق غیر سودی مالیاتی اداروں کی تشکیل کے لئے قدم بڑھانا چاہئے کہ اب اس شعبے میں سرکاری اجارہ داری نہیں رہی۔انہیں یہ احساس کرنا چاہئے کہ سماجی، فلاحی، تعلیمی اور ثقافتی شعبوں میں بہت سا کام ایسا ہے، جو اقتدار میں آئے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔
جماعت کے سابق امیر سید منور حسن نے اپنے خطاب میں ''جہاد فی سبیل اللہ اور قتال فی سبیل اللہ‘‘ کا ذکر ایسے الفاظ میں کیا، جس سے فکری الجھائو پیدا ہوا ۔ یہ ذمہ داری ریاست کی ہے اور ریاست کا کام جماعتیں یا افراد اپنے ہاتھ میں لیں گے، تو خلفشار پیدا ہو گا اور معاشرہ تِتر بتر ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی کو اپنے کسی کارکن کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ سٹیج پر آ کر ایسی بات کہے جن کی ایسی منفی تعبیر ممکن ہو جو جماعت اسلامی کے دستور اور اساسی نظریات کے خلاف ہے۔ پُرامن اور دستور کے دائرے میں رہ کر جدوجہد کرنا،جماعت اسلامی کا ایسا شعار رہا ہے، جس پر سختی سے کار بند رہنا آج پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
اس اجتماع کے اثرات کے حوالے سے جماعت کے ناقد اور حامی اہل دانش میں بحث جاری ہے۔اسے ایک بڑی کامیابی قرار دینے والے بھی موجود ہیں اور اس کی بے ثمری کا رونا رونے والے بھی۔ سیدھی بات تو یہ ہے کہ کسی ایک اجتماع سے کسی تحریک یا نظریاتی یا سیاسی جماعت میں انقلاب برپا نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔ اس بڑے اجتماع نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا،لیکن کارکنوں کو یہ احساس بہرحال دلایا ہے کہ وہ ایک بڑی تحریک کا حصہ ہیں اور ایک ہاتھی کا سا وجود رکھتے ہیں ۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع کی طرح اس اکٹھ نے بھی جماعت کا تشخص اجاگر کیا،اور اس کے حلقہ بگوشوں کو متحرک (Motivate)کیا ہے ؎
پلٹنا، جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں