پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے کنفیوژن اور اختلاف کا طوفان شاہ محمود قریشی کے بقول فی الحال تھم گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بالآخر تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو دعوت دی، انہوں نے اس پر لبیک کہا، اور اپنا اپنا سر لے کر وزیراعظم ہائوس پہنچ گئے تاکہ اسے جوڑ کر بیٹھ سکیں۔ نرم، گرم الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنے دِل کی بھڑاس نکالی۔ اس کے جواب میں وزیراعظم نے بھی اپنا دِل کھول کر رکھ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سب خوش و خرم اُٹھے۔ بعض اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نے مختلف نکات کو اس خوبی سے واضح کیا کہ کئی شرکا موضوع پر ان کی گرفت پر ششدر رہ گئے۔ ان اطلاعات میں مبالغہ ہو‘ تو بھی یہ مانے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ وزیراعظم نواز شریف اقتدار سنبھالنے سے بھی پہلے اس راہداری کا خواب دیکھ رہے تھے، جب انتخابات کے بعد لیکن حکومت کے قیام سے پہلے چینی وزیراعظم اسلام آباد پہنچے تھے‘ اور نگران وزیراعظم کھوسو صاحب کی میزبانی کا لطف اٹھایا تھا، تو اس وقت متوقع وزیراعظم (نواز شریف) نے گوادر کو چین سے منسلک کرنے کی تجویز ان کے سامنے رکھی تھی۔ چینی وزیراعظم کا دِل بھی اسی میں اٹکا ہوا تھا، یوں اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے جوش و خروش سے کام کرنے کا عہد کر لیا گیا۔
چین سے گوادر تک رابطے کی سڑکوں کی تعمیر کو ''پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ کا نام دیا گیا۔ چین کی طرف سے پاکستان میں آئندہ چند سال کے دوران 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا۔ پاکستان کے کئی سیاسی اور صحافتی حلقوں نے اس کا مطلب یہ لے لیا کہ اس راہداری پر 46 ارب ڈالر خرچ ہونے ہیں۔ گویا اس کے گرد‘ ان کے بھرے ہوئے مٹکے یا صندوق رکھ دیئے جائیں گے۔ زور دیا جانے لگا کہ یہ راہداری پہلے ''ہمارے گھر‘‘ کے پاس سے گزرے۔ خیبر پختونخوا سے تعلق
رکھنے والے حضرات و خواتین اس میں پیش پیش تھے۔ بار بار کہا گیا کہ چینی زر تعاون کا بڑا حصہ بجلی کے منصوبوں پر لگنا ہے، اور یہ چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری ہو گی۔ اپنے اپنے ہاں سرمایہ کاری کے لئے مختلف صوبے اپنے منصوبے بنا سکتے، اور سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن بیانات کم ہونے کے بجائے بڑھتے گئے۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک آل پارٹیز کانفرنس بُلا لی، خیبر پختونخوا کی حکومت بھی میدان میں آئی، اختر مینگل اپنی اے پی سی کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئے۔ ایسا شور اُٹھا کہ چین کو بھی خدشات لاحق ہو گئے۔ پہلے چینی سفارت خانے کی طرف سے اور بعد میں وزارتِ خارجہ کی جانب سے پاکستانی دوستوں کی توجہ اِس طرف مبذول کرائی گئی کہ وہ اختلافات رفع کر کے اس منصوبے کے فوائد کی طرف توجہ دیں کہ اس کے نتیجے میں بے پناہ معاشی امکانات سب کے دروازوں پر دستک دیں گے۔
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اپنی پوری صلاحیتوں کا استعمال کر رہے تھے، ایک ایک نکتے کی وضاحت میں لگے ہوئے تھے، لیکن یار لوگ ان کے ہر نکتے سے کئی نکتے مزید نکال لیتے تھے... ایک مقابلہ تھا کہ جاری تھا، اور فریقین کو نئی نئی نکتہ طرازیوں کی کمک پہنچ رہی تھی۔ اس پر سنجیدہ مبصرین نے تجویز پیش کی کہ وزیراعظم خود آگے بڑھیں اور راہداری کی تعمیر پر اُٹھنے والے اعتراضات کو دور کریں۔ یہ بات بڑی شد و مد سے کہی جا رہی تھی کہ وزیراعظم نے 28مئی 2014ء کی اے پی سی میں وعدہ کیا تھا کہ پہلے مغربی روٹ تعمیر کیا جائے گا، لیکن عملاً توجہ پنجاب سے گزرنے والے راستے پر زیادہ ہے۔ صد شکر کہ وزیراعظم نے اپنے دروازے کھولے، اور واضح ہو گیا کہ مغربی راستے کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا۔ وزیراعظم کے زیر قیادت ایک گیارہ رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی، جس میں گلگت بلتستان سمیت تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، چند وفاقی وزرا اور ایسے سیاسی رہنما شامل ہوں گے، جنہیں وزیراعظم نامزد کریں۔ یہ کمیٹی راہداری سے متعلق تمام امور کی نگرانی کرے گی۔ یوں آل پارٹیز کانفرنس نے ایک بار پھر پاکستان کی قومی سیاسی قیادت کا قد بڑھا دیا اور اس تاثر کی تردید ہو گئی کہ اسے صرف اختلافات کو ہوا دینے میں مہارت حاصل ہے۔ اب توقع کی جانی چاہیے کہ یہ کمیٹی سرگرمی سے کردار ادا کرے گی، اور اقتصادی راہداری کا 'کالا باغ ڈیم‘ بنانے کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔
یہ یاد رہنا چاہیے کہ گوادر سے چین تک کا زمینی رابطہ بجائے خود منزل نہیں ہے، یہ ترقی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ اس راہداری کے ذریعے چین کے بعض حصوںکا دُنیا سے فاصلہ کئی ہزار کلومیٹر تک کم ہو جائے گا۔ کاشغر سے گوادر اور گوادر سے دُنیا کے مختلف حصوں تک تیزی سے پہنچا جا سکے گا۔ چین کی درآمدات اور برآمدات دونوں اس راہداری سے گزریں گی تو ٹرانزٹ فیس پاکستان کو ملے گی۔ چین کی سالانہ برآمدات دو ٹریلین ڈالر سے زائد ہیں۔ ان کا 10 سے 15 فیصد حصہ بھی اس راہداری کو استعمال کرے تو دو سے تین سو ارب ڈالر بنتے ہیں۔ اس کی ٹرانزٹ فیس اربوں تک پہنچے گی۔ چین اسے وسطی ایشیا کے لئے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات درست کر لے تو افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی اس کے لئے بھی آسان ہو جائے گی۔ پاکستان کو اس کے ثمرات بھی حاصل ہوں گے۔ سڑکوں کے طویل سلسلے کے اردگرد صنعتی اور تجارتی زون قائم کر کے پاکستان کے چاروں صوبوں کے رہنے والے مزید فوائد حاصل کر سکتے ہیں، خیبر پختونخوا کے رہنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وسطی ایشیا تک پہنچنے کے لئے ان کے علاقے سے بہرحال گزرنا پڑے گا، اس لیے ان کو نظر انداز کر کے کسی راہداری کا تصور ممکن نہیں ہے۔
گوادر کی بندرگاہ کی اہمیت نمایاں ہوئی ہے تو ہمارے پیارے بھائی اختر مینگل اور ان کے کئی ہم نوا اہل گوادر کے حقوق کی حفاظت کے لئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ ان کا یہ عزم مبارک ہے کہ گوادر کے رہنے والوں کا تحفظ بہرحال ہونا چاہیے، ان کے خطے میں بہار آئے تو ہر آنگن کو معطر ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے پیش کی جانے والی تمام تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ گوادر تاریخی طور پر بلوچستان نام کے کسی صوبے کا حصہ نہیں ہے۔ بلوچستان کا موجودہ صوبہ یحییٰ خان کے مارشل لا کا مرہون منت ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی کسی انتظامی اکائی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ گوادر کا علاقہ تو حکومت پاکستان نے 1957ء میں مسقط سے خریدا تھا۔ اس لحاظ سے یہ وفاق پاکستان کی ملکیت ہے، اسے انتظامی طور پر صوبہ بلوچستان کا حصہ بنا دیا گیا‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے حوالے سے ایسے مطالبات کئے جائیں جن کا سر تلاش کیا جا سکے نہ پیر... گوادر بھلے صوبہ بلوچستان کا حصہ رہے، لیکن آئین پاکستان کے تحت، کہ موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روز نامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)