ترکی میں فوجی بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے۔ صدر طیب اردگان کی اپیل پر ہزاروں، لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اور فوجی ٹینکوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ فوج کا بڑا حصہ، پولیس اور انٹیلی جنس ادارے بھی باغیوں کے خلاف کھڑے رہے، اور ان کی ابتدائی کامیابیوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ناکامی میں تبدیل کر دیا۔ ترک قیادت نے پوری جرأت اور ہمت کے ساتھ اپنی قوم کی رہنمائی کی۔ باغی سرکاری ٹیلی ویژن کی نشریات روکنے میں کامیاب ہو گئے تھے، اور اس کی عمارت پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا تھا، سوشل میڈیا کو بھی بند کر دیا گیا تھا، اس کے باوجود ترک رہنما حواس باختہ نہیںہوئے۔ صدر طیب اردگان نے موبائل فون کے ذریعے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا، اور لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آئے، اپنے حق ِ حکومت کے حق میں سینہ سپر ہو گئے۔ چیف آف آرمی سٹاف منظر سے غائب تھے، اور ان کا کچھ سراغ نہیں مل پا رہا تھا، بعد کی اطلاعات سے واضح ہوا کہ باغیوں نے انہیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہیں ان کی قید سے رہائی دلوائی جا چکی ہے۔ متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ کئی باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں، اور تادمِ تحریر وہ دوسرے ساتھیوں کو بھی اس کی ترغیب دے رہے ہیں۔
دُنیا بھر میں جمہوریت پر اِس شب خون کی مذمت کی گئی ہے، پاکستان میں بھی اس پر مسرت کا سماں ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے فوری طور پر ترک عوام کو سلام پیش کیا، اور جمہوریت کے تحفظ میں کامیابی پر اُنہیں مبارک باد دی، لیکن کئی ایسے سیاست دانوں اور دانشوروں کے اوسان خطا ہو گئے جو فوجی مداخلت کے جواز تلاش کرتے رہتے یا اس کے حق میں دلائل ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
ترکی میں بھی پاکستان کی طرح کئی بار فوجی مداخلت ہو چکی ہے۔ مسلح افواج نے کئی بار اقتدار سنبھالا، اور ترک سیاست دانوں کو سیاست سے بے دخل کیا ہے... لیکن اِس بار ایک تو فوج نے ادارے کے طور پر یہ جسارت نہیں کی، دوسرے یہ کہ جن لوگوں نے یہ حرکت کی، انہوں نے حکومت کی مقبولیت کا اندازہ لگانے میں شدید غلطی کی۔ ترک فوج نے بحیثیت مجموعی اور سیاسی جماعتوں نے بھی بیک آواز مارشل لا کو مسترد کر دیا۔ طیب اردگان کی طرف سے ممتاز مذہبی سکالر اور ایک بڑی سماجی تحریک ''الخدمت‘‘ کے بانی فتح اللہ گولن پر اِس سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔ وہ خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر کے امریکہ میں مقیم ہیں، لیکن انہوں نے بھی اِس بغاوت کی تائید میں زبان نہیں کھولی۔ اس کی مذمت کی ہے، اور کہا ہے کہ ان پر یہ الزام توہین آمیز اور ناقابل ِ قبول ہے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی طور پر اے کے پارٹی کو فتح اللہ گولن کے پیروکاروں کی بھرپور تائید حاصل تھی، لیکن بعد میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ اس تنظیم کے میڈیا اداروں پر حکومت قبضہ کر چکی ہے، اور تعلیمی اداروں کو بھی میلی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ مختلف اداروں سے اس تحریک کے حامیوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، اور یہ بعید ازقیاس نہیں ہے کہ اس کے حامیوں کے کسی گروپ نے بغاوت کو منظم کرنے میں کوئی حصہ لیا ہو۔
طیب اردگان کی جماعت نے چند ماہ پیشتر عام انتخابات میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کی تھی کہ اس سے پہلے ہونے والے انتخابات میں کوئی جماعت پارلیمنٹ میں حکومت سازی کے لیے مطلوب تعداد میں نشستیں حاصل نہیں کر پائی تھی۔ کئی ہفتوں کی سر توڑ کوشش کے باوجود کسی مخلوط حکومت کا قیام ممکن نہ ہو سکا کہ بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہ ہو پائیں، نتیجتاً دستور کے مطابق نئے انتخابات کرانا پڑے، جن میں اے کے پارٹی ایک بار پھر واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی، اور یوں اس کی حکومت کا تسلسل قائم رہا ۔ یہ جماعت 2001ء میں قائم ہوئی تھی، اور گزشتہ پانچ انتخابات میں یہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کے طور پر اپنا وجود منوا چکی ہے۔ گزشتہ چودہ سال سے اس کی حکومت قائم ہے۔ طیب اردگان نے ایک عرصہ تک وزیراعظم کے طور پر قائدانہ کردار ادا کیا،پھر صدر منتخب ہو گئے۔ اس دوران ترکی کی معیشت بہت مضبوط ہوئی، اور عالمی سطح پر بھی فعال کردار ادا کیا گیا۔ طیب اردگان سے ان کے مخالفین اور کئی میڈیا ہائوسز کو شکایات پیدا ہوئیں، لیکن انہوں نے مُلک کو مارشل لائوں کے اثرات سے نکالا،مداخلت کار فوجیوں پر مقدمے چلائے، سول اداروں کو منظم کیا، اور عوام کی زندگیوں کو خوشی اور خوش حالی سے ہمکنار کیا۔ ان کی مقبولیت میں کئی سال گزرنے کے باوجود کمی نہیں آئی، اور اپنے نقادوں کی سخت تنقید کے باوجود وہ اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں... فوجی بغاوت کو عوامی طاقت کے ذریعے ناکام بنا کر تو ایک نئی تاریخ رقم کر دی گئی ہے... ترکی کا یہ تجربہ دوسرے ملکوں کے لیے بھی مثال بنے گا، اور جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کا خیال پالنے والوں کو سو بار سوچنا پڑے گا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی ترکی سے ملتی جلتی ہے، یہاں کسی فوجی گروہ نے بغاوت کرنے کی جب بھی کوشش کی، اُسے ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ سازش کرنے والوں کو کسی اقدام سے پہلے ہی دبوچ لیا گیا۔ چار بار فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا، تو ہر بار ایک ادارے کے طور پر اپنے سربراہ کی قیادت میں کارروائی کی۔ ایوب خان کی مداخلت اس وقت ممکن ہوئی، جب سیاست دانوں کی ساکھ بُری طرح متاثر ہو چکی تھی۔ جنرل یحییٰ خان کو ایوب خان نے اپنے خلاف تحریک کی وجہ سے اقتدار سونپا ،اور مُلک کی سیاسی جماعتوں نے اسے قبول کر لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے مخالف پاکستان قومی اتحاد کے درمیان شدید محاذ آرائی کی وجہ سے اقتدار سنبھالا۔ انہیں بھٹو صاحب کے مخالفین کی بھرپور تائید میسر آ گئی۔ جنرل پرویز مشرف کی پوزیشن بہت کمزور تھی، لیکن وزیراعظم نواز شریف کے حامیوں کی بے اقدامی اور ان کے مخالفوں کی تائید کے سبب وہ پائوں جمانے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر اس وقت فوری طور پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے، تو جنرل پرویز مشرف کے لیے اقتدار سنبھالنا ممکن نہ رہتا۔
ترکی کے تجربے نے واضح کر دیا ہے کہ مقبول قیادت کو اقتدار سے بے دخل کرنا آسان نہیں ہے۔ پاکستانی تجزیہ کاروںکو بھی اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔ عوام نے اپنی طاقت کا جس طرح مظاہرہ کیا ہے، اس نے ترقی پذیر ملکوں کے جمہوریت پسندوں کو ایک نیا حوصلہ بخش دیا ہے۔ یہ ولولہ ٔ تازہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے کام آئے گا، اور ان سب عناصر کی حوصلہ شکنی کا سبب بنے گا، جو شب خون مارنے والوں کی تائید کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ ترک عوام نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر ان پر واضح کر دیا ہے کہ شہروں کی سڑکیں نہیں، سرحدیں ان کا اصل مقام ہیں، انہیں وہیں رہنا چاہیے۔ ٹینکوں کی یہ شکست دُنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کو مبارک۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)