لکھنے بیٹھا ہوں تو موضوعات کا ایک ہجوم ہے جس نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ کلبھوشن یادیو کو موت کی سزا اپنی جگہ اہم ہے کہ اُس نے پاکستان اور بھارت کے پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید کشیدگی کا زہر گھول دیا ہے۔ کسی مُلک میں جب بھی کسی مُلک کا جاسوس پکڑا جاتا ہے تو اس کے اپنے قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ کلبھوشن یادیو تو کوئی عام جاسوس بھی نہیں تھا، وہ تو دہشت گردوں کو منظم کر رہا تھا، علاقے اور فرقے کی بنیاد پر نفرت کو ہَوا دینے والوں کو مسلح کرنے میں مصروف تھا۔ پنجابی محاورے کے مطابق ایک ایسا سانپ جو اُڑ بھی سکتا ہو۔ ایران سے نقلی نام پر اصلی پاسپورٹ بنوا کر وہ پاکستان آیا اور یہاں دھر لیا گیا۔ بھارتی نیتائوں کو اِس پر شرمندگی محسوس ہونی چاہئے تھی، اور اُس کی سزا کے معاملے کو انہیں اسی خجالت کے ساتھ زیر بحث لانا چاہئے تھا، لیکن وزیر خارجہ سشما سوراج ایسی گرجی برسیں کہ جیسے کلبھوشن یادیو بھارت کا کوئی باقاعدہ سفیر یا ایلچی تھا جسے خیر سگالی کے خصوصی مشن پر پاکستان بھیجا گیا، لیکن وہاں کے اداروں نے اس کی مشکیں کس دیں۔ تاریخ میں ایلچیوں اور سفیروں کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر جنگیں چھڑی ہیں، اور ہنگامے اُٹھے ہیں، لیکن کبھی کسی دہشت گرد جاسوس کے خلاف کارروائی پر اس طرح کا واویلا کرتے شاید ہی کسی کو دیکھا گیا ہو۔ یہ بھارت کی نام نہاد ڈپلومیسی کا وہ انداز ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہر پاکستانی کو اس سے دِلی صدمہ پہنچا ہے، اور جو لوگ بھارت سے اچھے تعلقات کی حمایت کرتے، اور مذاکرات کے دروازے کو کسی صورت بند نہیں دیکھنا چاہتے، ان کی زبانیں بھی گنگ ہو کر رہ گئی ہیں۔ کلبھوشن سے جڑا ہُوا معاملہ عزیر بلوچ کا سامنے آیا ہے، جو لیاری سے تعلق رکھنے والی ایک بلا کا روپ دھارے ہوئے تھا‘ جس کے سامنے بڑے بڑوں کی سٹی گم ہو جاتی تھی۔ اس کا مقدمہ فوجی عدالت کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرکے اسے فوجی تحویل میں دیا گیا، تو یہ تفصیلات سامنے آئیں کہ اس کا کلبھوشن سے بھی (کچھ نہ کچھ) تعلق تھا، اور یہ ایرانی انٹیلی جنس کے ساتھ مل کر بھی کھیل کھیل رہا تھا۔ اس کے اعترافی بیان میں پاکستان کی بڑی معزز سمجھی جانے والی سیاسی شخصیات کا بھی ذکر ہوا، اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ جائیدادوں پر قبضے کرانے اور اپنے مخالفین سے دائمی نجات حاصل کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے تھے۔ تحقیق ہی سے معلوم ہو سکے گا کہ کس الزام میں کتنی صداقت ہے، اور کس کس نے اس عفریت کو پال کر اس سے اپنے حریفوں کو ڈسوایا ہے۔ یہ تحقیقات کچھ مشکل بھی نہیں ہیں۔ بآسانی جائیدادوں، زمینوں اور کارخانوں کی چھان پھٹک کی جا سکتی ہے، ان کے ڈی این اے تک پہنچنے کے لیے کسی بین الاقوامی لیبارٹری کی ضرورت نہیں ہو گی۔ متعین افراد پر بعض الزامات سے قطع نظر یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ سندھ کی سیاست میں جرم اور سیاست جڑواں بہنیں ہیں۔ انہوں نے برسوں ایک دوسرے کی پرورش کی ہے اور اب بھی اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انتظامیہ کی دستبرد سے آزاد کرکے خصوصی خود مختاری اور اس کی نگرانی کا اہتمام نہ کیا گیا، تو یہ دوبارہ ایک دوسرے کی بیساکھی بن جائیں گی۔ 2013ء سے شروع ہونے والے آپریشن نے ایک بار تو کراچی کو ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا ہے، لیکن اگر موثر حفاظتی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا گزرے گی اور خدا معلوم اس کا نتیجہ کتنا بھیانک نکلے۔
عزیر بلوچ اورکلبھوشن کے معاملوں سے جڑا ہوا ایک مسئلہ ایرانی خفیہ اداروں کا کردار بھی ہے، اہلِ پاکستان کو اس نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایران سے ہمارے تعلقات دوستانہ رہے ہیں، اور بعض معاملات میں اختلاف کے باوجود آج بھی معاندانہ نہیں ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ پاکستانی اداروں کو زیادہ احتیاط کرنا چاہئے تھی اور ایران کا نام اس طرح اچھالنا نہیں چاہئے تھا۔ لیکن اس کے برعکس سوچنے والے بھی موجود ہیں، اور ان کا خیال ہے معاملہ طشت از بام ہونے سے ایرانی دوست احتیاط سے کام لینے پر مجبور ہو جائیں گے، اور شکایات کا سلسلہ دراز نہیں ہو پائے گا۔ بہرحال ایرانی حکومت سے یہ توقع رکھنا بلا جواز نہیں ہو گا کہ وہ نہ صرف صورتِ حال کی وضاحت کرے، بلکہ اس طرح کی سرگرمیوں کا سختی سے سدِ باب بھی کرے۔ اچھے برادرانہ تعلقات کی حفاظت ایران کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی کہ پاکستان کی۔ کسی ایک کے نقصان میں کسی دوسرے کو فائدہ تلاش نہیں کرنا چاہئے۔
اب آئیے، مردان یونیورسٹی میں ابلاغیات کے ایک طالب علم مشعال خان پر طلبہ ہی کے ایک ہجوم کے حملے کی طرف۔ اسے ایک الزام کا ڈھنڈورا پیٹ کر جس طرح ہلاک کیا گیا، اس نے پاکستانی معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ ایک بڑی یونیورسٹی میں، طلبہ کے گروہوں کا دن دہاڑے ایک طالب علم سے یہ سلوک انتہا درجے کی سفاکی ہے۔ اس نوجوان پر توہینِ مذہب کے الزام کو پھیلایا گیا، لیکن اس کی اب تک کوئی تصدیق نہیں ہو سکی، خدانخواستہ اگر یہ درست ہو تو بھی مقدمہ درج کرا کر معاملہ قانون کے سپرد ہونا چاہئے تھا۔ خود ہی مدعی، خود ہی شاہد، خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن جانے والوں کو انتہائی کڑی سزا دینا ضروری ہے۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر جھوٹے الزامات لگانے، منافرت پھیلانے اور اپنے حریفوں کو جھوٹے الزامات سے زچ کرنے کی روش کو روکنا بھی پوری ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ بدقسمتی سے پاکستانی ادارے، سیاسی جماعتیں اور مذہبی رہنما اپنی ذمہ داری کا کماحقہ، ادراک نہیں کر پا رہے۔ اور تو اور عدلیہ کا رویہ بھی کئی سوالات اٹھا رہا ہے۔ پیمرا نے دہائی دی ہے کہ وہ منافرت پھیلانے والوں کے خلاف جب بھی کارروائی کرتا ہے، کسی نہ کسی عدالت کا حکم امتناعی اسے غیر موثر کر دیتا ہے۔ اس وقت پیمرا کے پانچ سو سے زائد اقدامات کے خلاف عدالتوں میں درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے انتہائی فاضل اور زیرک چیف جسٹس جناب ثاقب نثار اور ان کے رفقا کو اس بات پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ انارکی اور افراتفری کی آگ کو پھیلنے دیا گیا تو یہ سب کو جلا کر راکھ کر دے گی۔ ریاست کسی ایک شخص گروہ یا ادارے کی ملکیت نہیں، اس کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔ قانون شکنوں کو ریلیف دینا اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا قانون کی پابندی کرنے والوں کو نشانہ بنانا۔ آزادیٔ اظہار اور آزادیٔ اظہار کے قتل میں تمیز ہونی چاہئے۔ نفرت انگیزوں اور نفرت انگیزی کو تحفظ دینے والے کسی تحفظ (یا رعایت) کے مستحق نہیں ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)