''ڈان لیکس‘‘ کا معاملہ (جو ایک سینئر اخبار نویس اور ایڈیٹر کے طور پر میری رائے میں) ایک تردید یا وضاحت سے نبٹایا جا سکتا تھا، وہ پاکستان کے مخصوص سیاسی تناظر میں اس طرح پھیلا کہ سول اور فوجی قیادتیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی نظر آنے لگیں۔ حزبِ اختلاف کے پُرزور اور پُرشور عناصر اور میڈیا کے بے لگام جتھے نے اس میں سے وہ کچھ نکالنے کی کوششیں شروع کر دیں، جو اس میں شاید موجود ہی نہیں تھا۔ شدید خواہش یہ تھی کہ وزیراعظم کو نشانہ بنایا جائے یا ان کے اہلِ خانہ کے سر الزام دھر دیا جائے۔ وزیراعظم ہائوس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی (مبینہ) کہانی روزنامہ ''ڈان‘‘ نے چھاپی، جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ نان سٹیٹ ایکٹرز کی سرکوبی کے حوالے سے سول اور فوجی قیادت کا معاملہ مختلف ہے اور یہ کہ بعض عناصر کو بعض حساس اداروں کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کی خبریں متعدد بار چھپ چکی ہیں اور بعض مقتدر حلقوں پر بعض قومی اور بین الاقوامی حلقوں کی طرف سے انگلیاں بھی اٹھائی جاتی رہی ہیں۔ سو، اس خبر نے پاکستان کے میڈیا حلقوں میں کسی کو نہیں چونکایا۔ میری جتنے بھی اخبار نویسوں اور ابلاغیات کے ماہروں سے بات ہوئی ان میں سے کسی کو بھی اس خبر سے نہ آسمان گرتا محسوس ہوا نہ زمین پھٹتی نظر آئی۔ اس کے مواد (Content) سے اختلاف کرنے والے موجود تھے اور ہیں،کہا گیا کہ ہم اس طرح کی حرکت کو غیر ضروری مہم جوئی سمجھتے ہیں اور اگر ہمارا رپورٹر فائل کرتا تو ہم اسے دراز میں رکھ لیتے... لیکن یہ اپنی اپنی رائے ہے۔جس ایڈیٹر نے اسے چھاپنے کا فیصلہ کیا،اس نے اپنے تئیں سوچ سمجھ ہی کر فیصلہ کیا ہو گا کہ اخبارات اور اخبار نویسوں کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مختلف اداروں پر نظر رکھیں کہ کسی بھی فنکشنل ریاست میں فیصلے کا مرکز ایک ہی ہونا چاہیے۔
ہماری اپنی تاریخ شاہد ہے کہ جب سیاسی قیادت نے فوج کو کوئی ذمہ داری سونپی تو اس کے نتائج اور اثرات فوجی قیادت پر مرتب نہیں ہوئے۔ بھٹو صاحب کے عہد میں بلوچستان میں جو کارروائی کی گئی یا خواجہ ناظم الدین کے دور میں لاہور میں جو مارشل لا لگایا گیا یا بھٹو صاحب ہی کے دور میں مختلف شہروں میں جزوی مارشل لا لگا کر فوجی عدالتیں لگائی گئیں تو ان کی ذمہ داری کسی کو بھی فوج کے سر ڈالنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس کے لئے سیاسی قیادت ہی سے پوچھ پڑتال ہوتی رہی اور آج بھی ہوتی ہے، لیکن جہاں سیاسی فیصلے فوج کو کرنا پڑے کہ اقتدار اس کے پاس تھا،وہاں قومی اور بین الاقوامی طور پر اسی سے سوالات پوچھے جاتے رہے اور آج تک وہ کٹہرے میں کھڑی نظر آتی ہے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں مشرقی پاکستان میں جو فوجی کارروائی کی گئی اور اس کے نتیجے میں جو کچھ بھگتنا پڑا، وہ ہمارے ماضی پر ایک سیاہ ترین دھبہ ہے۔ اس کے حوالے سے آج تک جنرل یحییٰ اور ان کے ٹولے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور ٹھہرایا جاتا رہے گا۔ بلوچستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو کچھ ہوا اور جن حالات میں نواب اکبر بگتی اس دُنیا سے رخصت ہوئے، اس کی ذمہ داری جنرل موصوف کے سیاسی حلیفوں میں سے کسی پر عائد کی گئی، نہ کسی نے اٹھائی۔ یہ درست ہے کہ بعد میں آنے والی فوجی قیادت نے معاملات کو سنبھالنے کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اس حوالے سے سراہا جاتا رہے گا، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ جو گرہیں ہاتھوں سے ڈالی جاتی ہیں، انہیں دانتوں سے نکالنا (یا کھولنا) پڑتا ہے تو وہ سو فیصد درست ثابت ہوا ہے۔فیلڈ مارشل ایوب خان کو جب ان کے پالتو جانشین نے صدارت سے الگ ہونے پر مجبور کیا تو وہ اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کا گلا گھونٹ کر اپنے ایوان سے باہر نکلے۔ ایک موقع پر ''نوائے وقت‘‘ کے (ثانی و لاثانی) مرحوم ایڈیٹر
مجید نظامی سے، جو کہ ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے بڑے داعی تھے، فیلڈمارشل صاحب کا سامنا ہو گیا۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں اودھم مچا ہوا تھا۔ موصوف نے نظامی صاحب کو مخاطب کرکے کہا کہ دیکھ لی اپنی جمہوریت؟ انہوں نے ترت جواب دیا، یہ میری جمہوریت نہیں، آپ کی پسندیدہ کوئی شے ہے۔ میری جمہوریت تو تب ہوتی جب آپ دستور کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر کو صدارت کا منصب سونپ کر مستعفی ہوتے۔
پاکستان میں قومی سلامتی کے نام پر بار بار قومی سلامتی کو صدمہ پہنچایا گیا ہے۔ کئی نادان دوست یہ سمجھتے (اور سمجھاتے) ہیں کہ جب سویلین بالادستی کی بات کی جاتی ہے تو خدانخواستہ اس سے فوجی قیادت کی سبکی کا کوئی پہلو نکلتا (یا نکل سکتا) ہے، حالانکہ یہ بات فوج سے خدانخواستہ نفرت یا کدورت کی بنیاد پر نہیں، اس سے محبت اور قلبی تعلق کی وجہ سے کہی جاتی ہے۔ ریاستی فیصلوں کی ذمہ داری ریاستی قیادت کو اٹھانی چاہئے کہ زہر خورانی کی سزا ہاتھوں کو دے کر دِل کو بہلایا نہیں جا سکتا۔ فوج ریاست کی طاقت ہے، اسے بغیر سوچے سمجھے خرچ نہیں کیا جانا چاہیے۔ جس طرح ایٹم بم چلانے کے لئے نہیں، دکھانے اور حریف کو اس کی حیثیت جتلانے کے لئے ہوتا ہے، اسی طرح فوجی طاقت مسائل کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے لیے سیاسی قیادت کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے اسے جنگ میں انتہائی اقدام کے طور پر جھونکا جاتا ہے، ابتدائی قدم کے طور پر نہیں۔ نام نہاد ڈان لیکس کو بآسانی دفنایا جا سکتا تھا، لیکن جنرل
راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ اعلیٰ ترین حلقوں میں اس طرح الجھا کہ اس کے ساتھ بہت کچھ الجھ گیا۔ دِلوں میں فاصلے ہوں تو ہر بات میں سے کوئی بات نکالی جا سکتی ہے کہ پنجابی محاورے کے مطابق لڑائی اور لسّی کو بآسانی بڑھایا جا سکتا ہے... بات بڑھتے بڑھتے دور نکل گئی۔ اگرچہ کہ ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا ڈالی گئی۔ جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا جیسے باوقار شخص کو اس کی سربراہی سونپ دی گئی، کمیٹی میں سول اور فوجی اداروں کے نمائندے شامل کرلیے گئے۔ ان کی متفقہ سفارشات مرتب ہو کر وزیر اعظم کے سامنے پیش ہو گئیں، لیکن ایک پروسیجرل کوتاہی کی وجہ سے، وزیر اعظم ہائوس کا ایک داخلی میمو نوٹیفکیشن بن کر میڈیا کے پاس آ دھمکا۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل اس پر تلملائے، اور اسے ادھورا قرار دے کر مسترد کر ڈالا۔ بس پھر کیا تھا، اس لہجے کو مسترد کرنے والے بھی شیر ہو گئے۔ اسے دور و نزدیک وزیر اعظم آفس کی سبکی سمجھا گیا۔ تلخی نقطہ ٔ عروج پر تھی... مخمصہ شدید تھا، لیکن فراست بروئے کار آئی، ٹویٹ واپس لیا گیا، وزارتِ داخلہ نے نوٹیفکیشن جاری کرکے جذبات کو آسودگی فراہم کر دی۔ پرویز رشید کے خلاف فیصلے کی توثیق منظر عام پر آئی، اور طارق فاطمی صاحب کی منصب سے علیحدگی پر اطمینان کا سانس لے لیا گیا۔ غلطی پر اصرار عظمت نہیں، اسے تسلیم کرنا عظمت ہے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کو خراج تحسین کہ انہوں نے اعصاب پر قابو رکھا اور یوں معاملات پر قابو پا لیا گیا۔ اس سے اپوزیشن کے بعض حلقوں اور میڈیا (سوشل اور غیر سوشل) کے بے لگاموں کو بہت صدمہ پہنچا۔ انہوں نے وہ غلاظت اگلی کہ خدا کی پناہ۔ لازم ہے قانون شکنی، بدزبانی اور بے لگامی کو قانون کی لگام دی جائے۔ پاک فوج ہمارا وقار اور اعتبار ہے، پاکستان آج پورے قد سے کھڑا ہے، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹی ہوئی نظر آ رہی ہے تو ایسا پاک فوج ہی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ جن ممالک کی فوجیں بے اعتبار ٹھہریں، وہ اغیار کی گرفت میں آتے، عراق اور شام بن جاتے ہیں۔ جمہوریت اور دستور کی محافظ فوج کو ایک نہیں، لاکھوں، بلکہ کروڑوں سلام۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)