وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف سپریم کورٹ میں چلائے جانے والے پاناما مقدمے کا فیصلہ سنایا جا چکا۔ اس کی سماعت کے لیے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، دو جج صاحبان نے وزیر اعظم کی تقریروں میں مبینہ تضادات کو بنیاد بنا کر انہیں نااہل قرار دے دیا تھا، جبکہ تین جج حضرات نے مزید تحقیق و تفتیش کے لیے ایک جے آئی ٹی (جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) تشکیل دی تھی۔ اس میں ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔ تاریخ میں پہلی بار اس طرح کی ٹیم (سپریم کورٹ نے) تشکیل دی، اور پہلی ہی بار فوجی خفیہ اداروں کے نمائندے بھی اس اعزاز کے مستحق گردانے گئے۔ وزیر اعظم (اور ان کے خاندان) نے اس پر نظرثانی کی کوئی درخواست دائر نہیں کی۔ صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ایسی کسی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کیا، نہ وزیر اعظم کے منصب کو ملحوظ رکھتے ہوئے (طلبی کے بعد) مستعفی ہونے کو ترجیح دی کہ محمد نواز شریف کو اگر اس کے سامنے پیش ہو کر تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کا شوق چرا گیا تھا، تو وہ کم از کم وزیر اعظم کے حال پر رحم کھاتے، اور اسے دیرینہ آشنائی کے حوالے ہی سے معاف کر دیتے۔ میڈیا کا ایک پرجوش حصہ وزیر اعظم کے خون کا پیاسا بنا ہوا تھا (یا بنا دیا گیا تھا) ان کے خلاف ہر طرح کے افسانے گھڑے، ہر طرح کی افواہیں اُڑائی اور ہر طرح کے الزام تراشے جا رہے تھے۔ عمران خان جس جارحیت سے اپنی مہم چلا رہے تھے، شیخ رشید جس طرح رنگ بھر رہے تھے، لائیو کوریج ماحول کو جس طرح آتشیں بنا رہی تھی سب کچھ سامنے تھا۔ اس سب میں سے خون ٹپکتا ہوا صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ دھرنا (ون) میں تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل نہیں ہو پائی تھی، لیکن اب تو (حکومت کی کردہ یا نا کردہ کاری کے طفیل) اپوزیشن یک آواز اور یک زبان تھی۔ نواز شریف کے خون کی پیاس میں سب کی زبانیں گز گز بھر لٹک رہی تھیں۔
اس ماحول میں سپریم کورٹ میں مقدمہ پہنچا، اور مدعا علیہان پر خود سپردگی طاری ہوتی گئی۔ شریف خاندان کو نہ دائرہ سماعت پر اعتراض تھا، نہ وزیر اعظم کے استثنا کا سوال اٹھانا درکار تھا۔ نہ عدالتی کمیشن کے قیام پر اصرار تھا، اور نہ ہی پارلیمانی کمیٹی بنا کر اس کے سپرد معاملہ کرنے پر وہ تیار تھا۔ تو پھر وہ ہوتا چلا گیا، جو ہو چکا ہے۔ دیدہ و نادیدہ عناصر وہ کر گزرے جس پر اب مسلم لیگی زعما دہائی مچا رہے ہیں، گویا گرے ہوئے دودھ کو سنبھالنے کے لیے ہلکان ہو ہو جا رہے ہیں۔ کاش یہ مبینّہ عقاب بروقت بیدار ہو جاتے۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر حکومت سے فوراً الگ ہونے کی سناونی دے دی، کابینہ بھی تحلیل ہو گئی، اور جب یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں ملک حکومت کے بغیر ہے۔ کسی نے اپنے ملک کے ساتھ پوری تاریخِ انسانی میں یہ کچھ نہیں کیا ہو گا، جو ہمارے... اسلامی جمہوریہ پاکستان... کے ساتھ کر دیا گیا ہے کہ وہ تین دن سے حکومت نام کے ادارے سے محروم ہے۔ اگر تین یا پانچ دن کے اندر اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بُلا کر نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کی ہدایت کر دی جاتی تو خدا معلوم اس سے کیا بگڑ جاتا؟ اور ملکی مفاد کو کون سا نقصان پہنچ جاتا؟ ریاست کے سر سے حکومت کی چادر اُتار کر کس کی عزت میں اضافہ کیا گیا؟ فیصلے کے حوالے سے یہ توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ لگائے جانے والے الزامات زیریں عدالتی فورم کو ریفر کئے جا سکتے ہیں۔ تاریخ میں موجود ہر طرح کا کاٹھ کباڑ جمع کرکے جو کچھ کہا جاتا رہا، اس سب کو 12 عدد ریفرنسز کے کوزے میں بند کرنے کا حکم جاری ہو چکا ہے۔ چھ ماہ کے اندر اندر احتساب عدالت (یا عدالتیں) ان کے بارے میں فیصلہ دینے کی پابند ہوں گی، ان کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے سپریم کورٹ ہی کا ایک جج مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ آئینی اور قانونی ماہرین کی بھاری تعداد نے اسے زیریں عدالت کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اِس دبائو میں احتساب عدالت انصاف نہیں کر سکے گی۔ امکان غالب ہے کہ کم از کم اِس نکتے کے خلاف نظرثانی کی اپیل تو ضرور دائر ہو گی۔
جس معاملے میں وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ دبئی میں قائم اپنے بیٹوں کی ایک کمپنی کے وہ چیئرمین تھے، اور اس عہدے کے لیے ان کی تنخواہ بھی مقرر کی گئی تھی۔ وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں نے تنخواہ لینے یا دینے کی تردید کی، گویا کاغذات میں تنخواہ کا اندراج اقامے کا پیٹ بھرنے کے لیے کیا گیا تھا، درحقیقت اس کا کوئی وجود نہ تھا، لیکن یہ معاملہ کاغذات نامزدگی داخل کراتے ہوئے ظاہر نہیں کیا گیا تھا، اس لیے اسے ان کے صادق اور امین نہ ہونے کے مترادف قرار دے دیا گیا۔ عدالت کا استدلال ہے کہ تنخواہ کی وہ رقم جو وصول نہیں کی گئی، لیکن واجب الوصول بہرحال تھی، وہ وزیر اعظم کا اثاثہ تھی، اسے ڈکلیئر نہ کرکے وہ بے قاعدگی کے مرتکب قرار پائے ہیں۔ قانون دانوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ یہاں چونکہ مدعا علیہان نے الزام تسلیم کر لیا تھا، اس لیے اس کے ٹرائل کی ضرورت تھی، نہ اپیل کا سوال پیدا ہو سکتا تھا، اس لیے فیصلہ صادر کر دیا گیا۔ کئی سیاسی اور صحافتی حلقے وزیر اعظم کی نااہلی کو تاحیات قرار دے رہے ہیں، لیکن ہماری رائے اس سے یکسر مختلف ہے۔ دستور کی دفعہ 62 کے تحت (قبل از انتخاب بے قاعدگی) کی کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ نہ ہی عوامی نمائندگی کے متعلقہ قانون (ROPA) کی دفعہ12 کے تحت کاغذات نامزدگی میں کوئی اندراج نہ کرنے کی کوئی سزا مقرر ہے۔ اس لیے اس حوالے سے محض ایک انتخاب کی نااہلی کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اسے تاحیات پھیلایا جا سکتا ہے، نہ ہی پانچ سال تک کھینچا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر101 سے منتخب ہونے والے رکن اسمبلی جسٹس افتخار چیمہ کے کاغذات نامزدگی میں ایسا ہی سقم پایا گیا تھا، تو سپریم کورٹ نے انہیں ڈی سیٹ کرنے کے بعد ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔ مارچ 2016ء میں وہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے دوبارہ منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں جا پہنچے اور ہنوز وہیں تشریف فرما ہیں۔
فیصلے کے اسباب اور اثرات پر بحث جاری رہے گی، پاکستان کے تاریخی پس منظر میں بھی اسے دیکھا جاتا رہے گا۔ اہلِ سیاست کے ایک دوسرے سے الجھائو اور خفیہ ہاتھوں کی کارستانیوں کا بھی جائزہ لیا جاتا رہے گا۔ خارجہ پالیسی کے معاملات اور سویلین بالادستی کے خواب کا تذکرہ بھی ہوتا رہے گا، لیکن سامنے کا واقعہ یہ ہے کہ شریف خاندان وزیر اعظم ہائوس خالی کر چکا۔ ان کے مستقل جانشین کے طور پر شہباز شریف کا نام سامنے ہے۔ انہیں صوبائی سے قومی اسمبلی پہنچنے میں وقت لگے گا، اس دورانیے کے لیے ایک عارضی وزیر اعظم کی نامزدگی متوقع ہے۔ عین ممکن ہے جب یہ سطور آپ کی نظر سے گزر رہی ہوں منظر واضح ہو چکا ہو۔ دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ جذبات کے دریا میں گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، سسٹم کے اندر رہتے ہوئے جو بھی ازالہ ہو سکتا ہے، وہ کیا جائے، بلکہ وہ ہی کیا جائے کہ ع
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)