"MSC" (space) message & send to 7575

لگے گی آگ تو…

اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان دیوار بن جانے والے دھرنے کے خلاف پولیس ایکشن کے بعد، ملک بھر میں احتجاج شروع کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے دو ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود، کسی کارروائی پر آمادگی ظاہر نہیں کی تھی۔ علمائے کرام اور مشائخ عظام کے کئی وفود سے ملاقاتیں کرنے، اور دھرنا قائدین سے بار بار رابطے کے باوجود اُنہیں اِس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکا تھا کہ وہ عام شہریوں کی آمد و رفت میں خلل ڈالنے کے بجائے اپنا دھرنا قریبی پریڈ گرائونڈ میں منتقل کر لیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے مطالبات کیا تھے، اور ان کا کوئی جواز تھا بھی یا نہیں، یا تھا تو کتنے فیصد تھا، یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے جذباتی فضا قائم کر رکھی تھی۔ خدشہ تھا کہ ان کے خلاف بلا سوچے سمجھے کارروائی کی گئی، تو ہنگامہ پھیل سکتا ہے، اور ملک بھر کے در و دیوار کو لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال رک رک کر بڑھتے اور بڑھ بڑھ کر رکتے رہے۔ ان کی والدہ آپا نثار فاطمہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ لاہور میں ان کا حلقہ ٔ درسِ قرآن خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک یونیورسٹی کی سی حیثیت رکھتا تھا۔ احسن اقبال نے اُس مرحومہ کا دودھ پیا اور اُس کی گود میں پرورش پائی ہے۔ اسلامی اقدار کے معاملے میں اُن سے کسی مداہنت کی توقع نہیں کی جا سکتی، نہ ہی کسی مذہبی گروہ کو نشانہ بنانے کی تمنا وہ پال سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ افہام و تفہیم بلکہ منت سماجت سے معاملہ طے ہو جائے، لیکن سست روی کمزوری سمجھی جانے لگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے کا نوٹس لیا، اور سپریم کورٹ نے بھی صورتِ حال کی سنگینی کا شدت سے احساس کیا۔ اس سے انتظامیہ کو نفسیاتی تقویت ملی، اور وہ تازہ دم اقدام کے بارے میں سوچنے لگی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم تھا کہ دھرنے کو شاہراہِ عام سے اٹھا کر قریبی پریڈ گرائونڈ میں منتقل کیا جائے۔ انتظامیہ کی بے عملی کی وجہ وزیر داخلہ کو قرار دیا گیا تو عدالت نے اُنہیں توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر دیا۔ ...اس پر اسلام آباد انتظامیہ نے پولیس، ایف سی اور رینجرز کی مدد سے دھرنا نشینوں کو دھکیل کر پریڈ گرائونڈ لے جانے کا عمل شروع کیا، تو انتہائی احتیاط سے کام لینے کا مظاہرہ کر کے دکھایا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر مسلح تھے، آنسو گیس ان کا بڑا ہتھیار تھا، اور وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے۔ حکومت احتجاج کرنے والوں کو لاشوں اور زخمیوں کا تحفہ نہیں دینا چاہتی تھی کہ ان کی سرخی کے اثرات سمیٹنا مشکل سے مشکل تر ہو جاتے۔ لال مسجد کے محصورین کے خلاف جنرل پرویز مشرف کی خونین کارروائی کے تباہ کن نتائج، اور ماڈل ٹائون لاہور میں ادارہ منہاج القرآن کو جانے والے راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے کے لیے کئے جانے والے منہ زور اقدام کی فتنہ سامانیاں سب کے سامنے تھیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ کسی فتنے سے ملک کو محفوظ رکھنا اِس وقت اولین ترجیح تھی، اور ہونا بھی چاہیے تھی۔
اس پولیس ایکشن کے نتیجے میں ملک بھر میں جذباتی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیمرا نے آئو دیکھا نہ تائو، فوراً ٹی وی چینلز کو نشریات بند کرنے کا حکم دے دیا، حالانکہ ایکشن کے ابتدائی چند گھنٹوں میں ٹی وی کیمروں نے جو منظر دکھائے، اس سے دھرنا دینے والوں کے حق میں جذبات پیدا نہیں ہوئے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ ان میں سے بعض کے پاس آنسو گیس کے گولے، انہیں داغنے والی بندوقیں، پتھر انڈیلنے والی غلیلیں موجود ہیں، اور ان کے ساتھ ہی ساتھ ایسا دریائی پتھر بھی بڑی مقدار میں پایا جا رہا ہے جو اسلام آباد میں نہیں ہوتا تو تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مذکورہ پتھر کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ یہ کم وزن ہوتا ہے اور دور تک مار کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے یہ خبر بھی میڈیا ہی کے ذریعے لوگوں تک پہنچی تھی کہ دھرنے پر آنکھ رکھنے والے سی سی ٹی وی کیمروں کی تاریں کاٹ ڈالی گئی ہیں۔ ''حساس راز‘‘ اُن تک کیسے پہنچا، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ جس طرح ہجوم کے اندر موجود بعض افراد پولیس کا مقابلہ کر رہے تھے، اس سے اُن کی ''پیشہ ورانہ‘‘ مہارت کا پتہ چلتا تھا، لگتا تھا وہ باقاعدہ تربیت یافتہ جنگجو ہیں۔ اِس صورتِ حال نے بھی تہہ در تہہ سوالات کو مزید پیچیدہ کر دیا۔ پیمرا حکام کو چاہیے تھا کہ فوری طور پر پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) سے رابطہ کر کے ہنگاموں کی لائیو کوریج کے حدود طے کرتے۔ انہیں یکسر بند کر دینا مسئلے کا حل نہیں تھا، البتہ کوریج کے حدود و قیود کا تعین کیا جا سکتا تھا، اور اب بھی کیا جانا چاہئے کہ فتنہ پھیلے نہیں، اس کی تباہ کاری عیاں ہو سکے۔
وقت آ گیا ہے کہ غیر قانونی اجتماعات کو روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ پاکستان میں جو شخص (یا گروہ) جب چاہے کہیں دھرنا دے سکتا ہے، جب چاہے جلوس نکال سکتا ہے، اور جب چاہے کسی بازار یا شاہراہ پر جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کر سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہمارے آئین نے اظہارِ رائے کی آزادی کو تسلیم کیا ہے، اور اجتماع کی آزادی بھی بنیادی حقوق میں شامل ہے، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاں اور جب کسی کا جی چاہے دھماچوکڑی مچا دے۔ آمد و رفت کا حق بھی ہر شخص کا بنیادی حق ہے، کسی کو اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ طالب علموں، دفتری اہلکاروں، کارخانوں میں کام کرنے والوں، دفتروں میں فرائض ادا کرنے والوں، گاڑیوں، بسوں اور ایمبولینسوں کو روکنے اور ان کی راہ مسدود کرنے کی کوئی کوشش کسی انسانی معاشرے میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ وقت آ گیا ہے کہ اس لاقانونیت کے متعلق باقاعدہ قانون سازی کر کے قید اور جرمانے کی بھاری سزائیں مقرر کی جائیں، کم از کم دس سال قید اور نقصان کے مطابق جرمانہ۔ دفعہ 144 کا ڈھیلا ڈھالا وجود کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکے گا۔
یہ معاملہ کسی ایک جماعت، مسلک، حکومت یا اپوزیشن کا نہیں ہے۔ اس پر ہر ایک کو اپنے اپنے مفادات سے اوپر اُٹھ کر دیکھنا چاہیے... قانون کے دائرے میں رہ کر اگر احتجاج نہیں کیا جائے گا، تو ہم اپنے آپ پر جہنم کے دروازے کھول رہے ہوں گے۔ لاقانونیت کی حوصلہ افزائی اپنے اوپر خود کش دھماکہ ہے۔ پاکستانی ریاست کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا جائے گا، تو کسی سیاست دان کے لیے بھی حکومت کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ اظہارِ مسرت کا نہیں، اظہارِ تاسّف کا موقع ہے؎
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ڈاکٹر راحت اندوری کی اسی غزل کے دو اور اشعار (بہ ادنیٰ تصرف) بھی سنتے جائیے؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سب کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ''پاکستان‘‘ تھوڑی ہے
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں