قصور کی ننھی کلی زینب کو جس درندگی کا نشانہ بنایا گیا اس نے ہر دل کو افسردہ کر دیا۔ شاید ہی کوئی آنکھ ایسی ہو جو نم ناک نہ ہوئی ہو۔ اس سے پہلے بھی سات بچیاں اسی شہر میں اسی طرح کی دہشت کا شکار ہو چکی تھیں‘ لیکن پولیس کوئی سراغ لگانے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ دو، تین افراد کو مبینہ ملزم قرار دے کر پولیس مقابلے کی نذر کر ڈالا گیا‘ اور سلگتے جذبات پر گویا پانی ڈل گیا... زینب کے ساتھ ہونے والی واردات (محاورے کے مطابق) اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوئی اور شہر میں آگ سی لگ گئی اور پھر اس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ ہر زبان، زینب کے لئے انصاف طلب کر رہی تھی، سرکاری مشینری حرکت میں آئی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ قصور کی آٹھ بچیوں کا قاتل ایک ہی شخص ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ نے اس کا پردہ چاک کر دیا تھا۔ ایک درندہ ایسا تھا، جو معصوم بچیوں کو ورغلاتا، اٹھاتا ہوس کا نشانہ بناتا اور موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔
اس طرح کی وارداتوں سے ترقی یافتہ ممالک بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وہاں بھی درندگی کے ہولناک مظاہرے دیکھنے میں آتے ہیں اور بعض اوقات مجرم تک قانون کے ہاتھ پہنچنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ لیکن وہاں ہر ادارہ اپنے کام کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے، پولیس اور تفتیشی اداروں پر دبائو بھی ہوتا ہے‘ ان سے حساب بھی مانگا جاتا ہے لیکن ان کے معاملات میں نہ تو سیاست دخیل ہوتی ہے نہ ہی کاروبارِ زندگی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے... پاکستان میں انتظامیہ ہر شے کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی خواہش سے ابھی تک آزاد نہیں ہو پائی اس لئے یہاں ہر معاملے میں حکومت سے جواب طلب کیا جاتا ہے اور ہر وقوعے کا حساب وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ یا وزیروں کو دینا پڑتا ہے۔ اگر یہاں بھی پولیس، ایف آئی اے اور دوسرے تفتیشی ادارے خود مختار کر دیئے جائیں اور انہیں (کم و بیش) وہی اٹانومی حاصل ہو جائے جو افواج پاکستان کو حاصل ہے تو حکومتوں پر دبائو بھی ختم ہو گا اور ہر معاملے میں سیاست داخل کرنے کی روش بھی ختم ہو جائے گی۔ نہ سیاسی فائدہ اٹھانے والے میدان میں اتریں گے، نہ سیاسی نقصان کے خدشے سے دوچار حکمران کپکپایا کریں گے... خیبر پختونخوا میں قانونی طور پر پولیس کو ''آزاد‘‘ کر دیا گیا ہے۔ پوسٹنگ ٹرانسفر میں وزیر اعلیٰ یا کسی وزیر کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردان میں ایک بچی (اسما) کے ساتھ ہونے والی اسی نوعیت کی واردات کے حوالے سے میڈیا کا سامنا آئی جی پولیس یا ان کے متعلقین ہی کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ہے، نہ کسی نے ان کو نشانہ بنایا ہے۔
اس سب تفصیل سے قطع نظر پنجاب پولیس اور اس کی فرانزک لیبارٹری کے ذمہ داران کو شاباش نہ دینا غلط ہو گا کہ جن کی شبانہ روز کاوش سے مجرم تک قانون کا ہاتھ پہنچا، اور عمران علی نامی نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا... اس بات کی داد نہ دینا بھی غلط ہو گا کہ لاہور میں ایشیا کی بہترین فرانزک لیبارٹری قائم کی گئی ہے‘ جس کے ذریعے ایک ہزار سے زائد افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ چند روز کے اندر ممکن ہوا۔ اگر یہ اعلیٰ ترین لیبارٹری یہاں میسر نہ ہوتی تو ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کے لئے نمونے بیرون ملک بھجوائے جاتے اور دنوں کا کام مہینوں تک طویل ہو جاتا۔
قصوری درندے کی گرفتاری نے مضطرب لوگوں میں اطمینان کی ایک لہر پیدا کی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے اعلان کے مطابق اس مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی اور جلد از جلد اس عفریت کے وجود سے ہماری سر زمین پاک ہو جائے گی۔ اس واردات کے ساتھ ہی ایک اور واردات یہ ہوئی کہ ہمارے ایک میڈیائی دوست نے ملزم عمران علی کے بارے میں یہ ہولناک انکشاف کیا کہ اس کے تین درجن سے زیادہ کھاتے مختلف بینکوں میں موجود ہیں۔ اس میں سے کئی فارن کرنسی اکائونٹس بھی ہیں۔ ایک اکائونٹ میں 16 لاکھ یورو کی ٹرانزیکشن بھی ہوئی ہے۔ عمران علی مزدور یا محنت کش نہیں ایک عیار شخص ہے اور بیہودہ فلمیں یورپی ممالک کو فراہم کرنے کے دھندے میں ملوث ہے۔ اس کی پشت پناہی ایک منظم گروہ کر رہا ہے جس میں ایک وفاقی وزیر اور ایک انتہائی بااثر سیاستدان بھی شامل ہیں۔ اینکر صاحب نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو بھی آواز دی کہ وہ اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیں، اور با اثر ملزموں کی گردنیں ماپیں۔ خوش قسمتی سے جناب چیف جسٹس نے اس کا نوٹس لے کر مذکورہ اینکر کو طلب کر لیا۔ وہاں اس نے اپنے موقف کو دہرایا، اور ایک چٹ پر دو نام لکھ کر بھی چیف جسٹس کو دے دیئے کہ جو اس کے مطابق ملزمان میں شامل تھے۔ جناب چیف جسٹس نے اس پر تحقیقات کا حکم جاری کر دیا۔ پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کو بھی متحرک کیا۔ سٹیٹ بینک سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ عمران علی کا کوئی اکائونٹ کسی بینک میں موجود نہیں ہے۔ دوسری تفصیلات بھی درست ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا... الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی شکایات تو بہت سے لوگوں کو ہیں‘ لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے جس طرح یہ معاملہ پہنچا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
جناب چیف جسٹس نے میڈیا تنظیموں کے ذمہ داران اور متعدد سینئر میڈیا پرسنز کو طلب فرما لیا ہے۔ لاہور رجسٹری میں اس معاملے کی سماعت اتوار کو بھی ہو گی۔ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، مذکورہ افراد جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے، عدالت میں پیش ہو رہے ہوں گے۔ ظاہر ہے یہ سارا معاملہ وہاں زیر بحث آئے گا، اس معاملے میں اپنی رائے تو عدالت کے روبرو ہی پیش کی جا سکے گی، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ انصاف کو شدت کے ساتھ اپنا راستہ تلاش کرنا اور اپنے وجود کا احساس دلانا چاہئے۔ کوئی سیاسی کارکن ہو یا سماجی، یا صحافتی، قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہونا چاہئے، جو کوئی بھی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پائے، وہ اس کا نتیجہ بھگتے۔ آزادیٔ اظہار انسانوں کا ایک بنیادی حق ہے، جسے ہمارا دستور بھی تسلیم کرتا اور اس کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کا احترام لازم ہے لیکن آزادیٔ اظہار کے نام پر دوسروں کی آزادی اور عزت سے کھیلنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور ان کے رفقاء کو ایک تاریخی موقع ملا ہے کہ وہ کس سمت میں قدم بڑھائیں اور ایسے ٹھوس احکامات جاری کریں جن سے سیاست اور صحافت کو آلائشوں سے پاک کیا جا سکے۔ جھوٹ کو سچ بنانا بھی اتنا ہی خطرناک ہے، جتنا سچ کو جھوٹ ثابت کرنا۔ سیریل کلرز جہاں بھی ہوں، ان کا تعاقب ہونا چاہئے۔
پاکستان میں انتظامیہ ہر شے کو اپنی مٹھی میں بند کرنے کی خواہش سے ابھی تک آزاد نہیں ہو پائی اس لئے یہاں ہر معاملے میں حکومت سے جواب طلب کیا جاتا ہے اور ہر وقوعے کا حساب وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ یا وزیروں کو دینا پڑتا ہے۔ اگر یہاں بھی پولیس، ایف آئی اے اور دوسرے تفتیشی ادارے خود مختار کر دیئے جائیں اور انہیں (کم و بیش) وہی اٹانومی حاصل ہو جائے جو افواج پاکستان کو حاصل ہے تو حکومتوں پر دبائو بھی ختم ہو گا اور ہر معاملے میں سیاست داخل کرنے کی روش بھی ختم ہو جائے گی۔ نہ سیاسی فائدہ اٹھانے والے میدان میں اتریں گے، نہ سیاسی نقصان کے خدشے سے دوچار حکمران کپکپایا کریں گے