وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں اخبار نویسوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو لیڈر حالات کے مطابق یو ٹرن نہ لے ‘وہ لیڈر ہی نہیں۔جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا‘ اس سے بڑا بیوقوف نہیں ہوتا۔یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہٹلر اور نپولین اگر یو ٹرن لے لیتے تو انہیں شکست نہ ہوتی۔مزید فرمایا کہ لیڈر حالات اور واقعات کو مدنظر رکھ کر سٹرٹیجی اور لائحہ عمل میں تبدیلی لاتا ہے۔ خان صاحب کے یہ ارشادات ملک بھر میں زیر بحث ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر بھی چھائے رہے‘ اورقومی اخبارات کی شہ سرخیوں کا موضوع بھی بنے۔ عمران خان صاحب کے سیاسی مخالفین ان کے لتیّ لے رہے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر مختلف امور اور شخصیات کے بارے میں ان کے پرانے اور تازہ خیالات سنائے گئے‘اور یوں ناظرین کی تفریح طبع کا سامان کیا گیا۔ لگتا یہ ہے کہ خان صاحب کے اس مصرع طرح پر گرہیں لگانے کا سلسلہ تادیر جاری رہے گا۔ اس پر اشعار ہی نہیں غزلیں کہی جاتی رہیں گی۔اس سے قطع نظر کہ ہٹلر اور نپولین کی شکست کے اسباب کیا تھے‘ اگر خان صاحب کے بیان کردہ فلسفے کا جائزہ لیا جائے‘ تو کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے الفاظ کے چنائو میں شدید غلطی کی ہے۔اس بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ ہر اُس شخص کو جو رہنمائی کا دعویٰ رکھتا ہے یا جس کی طرف لوگ رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں‘ منزل تک پہنچنے یا پہنچانے کے لئے حالات اور وسائل کے مطابق لائحہ عمل تشکیل دینا پڑتا ہے۔اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے ایک شخص لاہور سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہو تو راستے میں کسی رکاوٹ کی اطلاع ملنے پر وہ واپس آ جائے کہ جب راستہ صاف ہو گا تو پھر سفر کا آغاز کریںگے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ واپس پہنچ کر وہ ٹرین میں بیٹھ جائے یا جہاز کا انتخاب کر لے‘ تو اس کے اس ''یو ٹرن‘‘ پر اعتراض نہیں کیا جا سکے گا۔ استقامت کا یہ کوئی مظاہرہ نہیں ہے کہ اگر آپ راستہ بند پائیں تو وہیں پڑائو ڈال دیں‘ اور اعلان کریں کہ کچھ بھی ہو جائے مَیں واپس نہیں جائوں گا۔ اپنے آپ کو اور اپنے ہمراہیوں کو اس صعوبت میں مبتلا کرنے کا نام ثابت قدمی نہیں ہے‘الا ّ یہ کہ پیچھے جانے کا راستہ بھی کھلا نہ رہے۔تاریخ پر اپنے نقوش چھوڑنے والے رہنمائوں میں سے شاید کسی ایک کی مثال بھی نہ ڈھونڈی جا سکے‘ جس نے حالات اور واقعات کے مطابق اپنی حکمت عملی ترتیب نہ دی ہو۔انبیا کرام(علیہم السلام) جو وحی کے زیر ہدایت زندگی گزارتے ہیں‘ انہوں نے بھی حکمت اور دانائی کا درس دیا ہے‘ حالات اور واقعات کے مطابق لائحہ عمل بنانے کی تلقین کی ہے‘لیکن یاد رہنا چاہیے کہ یہ تدبیر کا معاملہ ہے‘ اصول کا نہیں۔حکمت عملی کو بنیاد بنا کر اصول تبدیل نہیں کئے جا سکتے‘ جو شخص اپنے اصول تبدیل کرتا ہے‘ اُسے حکیم نہیں گرگٹ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ ارشاد فرمایا کہ تم میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند بھی لا کر رکھ دو تو مجھے توحید کی دعوت دینے سے نہیں روک سکتے‘ تو واضح کر دیا کہ منزل کی تبدیلی کا تصور کسی طور ممکن نہیں ہے۔
خان صاحب کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے کئی معاملات اور شخصیات کے بارے میں اپنی آرا تبدیل کی ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے مخالفین کو زچ کرنے کے لیے انہوں نے جو باتیں اصول کے طور پر بیان کیں‘ اقتدار میں آ کر انہیں پس ِ پشت ڈالنا پڑا ہے۔اگر وہ اصول اور حکمت کو الگ الگ رکھتے‘ اپنے مخالفین کی حکمت عملی کو نشانہ بناتے تو آج انہیں اس مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘ جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر معیشت کو قرض لے کر چلانا کوئی پسندیدہ فعل نہیں ہے‘ لیکن اگر حالات کا تقاضا ہو تو پھر قرض لینا کوئی جرم بھی نہیں ہے۔ دُنیا کے اکثر ممالک نے قرض ہی کے ذریعے پیداواری وسائل بڑھائے ہیں۔داخلی طور پر دیکھیں تو کسی بھی مُلک کی ترقی میں اس کے بینکاری نظام کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔اگر صنعت کاروں کو قرض دینے کے لیے بینک موجود نہ ہوں تو پھر صنعتوں کا جال نہیں بچھایا جا سکتا۔ قرض داخلی اور خارجی طور پر ترقی کی کنجی ہے‘ ہاں اس کا استعمال غلط نہیں ہونا چاہیے۔پیداواری مقاصد کے لیے قرض لے کر غیر پیداواری مقاصد پر نہیں لگانا چاہیے۔عمران خان صاحب نے پاکستانی معیشت کے خدوخال پر غور کیے‘ بغیر جو بے سروپا اعلانات کر کے داد وصول کی‘ اور ووٹ سمیٹے تھے‘ اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ پائوں کی زنجیر بن گئے ہیں۔ اگر وہ تدبیر کو تدبیر کے درجے میں رکھتے اور شخصیات کو نشانہ بنانے سے گریزاں رہتے تو آج ان کو '' یو ٹرن‘‘ کی افادیت واضح نہ کرنا پڑتی۔وہ سب خواتین و حضرات جو قوم کی کشتی کے ملاح بننا چاہتے ہیں‘ انہیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ آج ایسے نوالے نہ نگلیں جنہیں کل اُگلنا پڑے۔ وگرنہ لوگ انہیں قلا بازی کھانے والا بازی گر تو مان لیں گے‘ لیڈر نہیں۔
ڈاکٹر مجاہد کامران کے انکشافات
پنجاب یونیورسٹی کے سابق اور لاہور یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور ان کے چند رفیق اساتذہ کو گزشتہ دِنوں نیب نے اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں انہوں نے بعض بے قاعدہ تقرریاں کی ہیں۔انہیں احتساب عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا تو مُلک بھر میں احتجاج کا طوفان آ گیا۔وہ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنس دان اور انتہائی قابل ِ عزت استاد سمجھے جاتے ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس توہین کا نوٹس لیا‘اور نیب کے چیئرمین بھی اس بدتہذیبی کا مواخذہ کرنے پرمجبور ہو گئے۔بعدازاں انہیں لاہور ہائی کوٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے نیب حکام پر تشدد کو ہتھیار بنانے اور اپنے ملزموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے کے الزامات عائد کیے۔حراست کے دوران انہیں مختلف قیدیوں سے جو معلومات حاصل ہوئیں‘ انہوں نے قوم کے سامنے رکھ دیں۔ان کا کہنا ہے کہ نیب کی حوالات کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں کیمرے لگے ہیں۔باہر سے ان پر کنڈی لگی رہتی ہے۔جہاں نہانے کے لئے شاور لگے ہیں‘ وہاں بھی کیمرے نصب ہیں۔ کئی ملزموں کی ان کے اہل خانہ کے سامنے توہین کی جاتی ہے۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ تاکہ ان کو ''اقراری‘‘ بنایا جا سکے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ‘چونکہ سو موٹو نوٹس لینے کے حوالے سے شہرت پا چکے ہیں‘ اس لیے ان سے یہ توقع بے جا نہیں ہو گی کہ وہ اس صورتِ حال کا نوٹس لیں۔ ایک خصوصی کمیشن قائم کر کے الزامات کی تہہ تک پہنچنا چاہئے‘ تاکہ پاکستانی معاشرے کی انسانی ہیئت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا سکیں۔
طاہر داوڑ شہید
خیبرپختونخوا پولیس کے ایک اعلیٰ افسر طاہر داوڑ کو اسلام آباد سے اغوا کر کے افغانستان لے جایا گیا‘ جہاں سے اُن کی لاش برآمد ہوئی۔اس المیے نے پوری قوم کا دِل غم و غصے سے بھر دیا ہے۔اس واردات کی تفتیش کے لیے جے آئی ٹی قائم کر دی گئی ہے‘ضرورت ہے کہ اغوا کرنے والوں اور ان کے معاونین تک قانون کا ہاتھ پہنچے‘ اور ایک ایک کو عبرت ناک سزا دی جائے۔یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وزارتِ داخلہ کئی دن تک کیوں سوئی رہی‘اور طاہر داوڑ کی گمشدگی کی اطلاع ملتے ہی پوری حکومتی مشینری کیوں حرکت میں نہ آئی؟ وزیراعظم کے ترجمان نے ان کی خیرو عافیت اور پشاور میں موجودگی کے حوالے سے گمراہ کن انٹرویو کیوں دیا؟ بے حسی کا مظاہرہ کرنے والوں کی گردن ماپنا بھی اسی قدر ضروری ہے‘جس طرح مجرموں اور ان کے سہولت کاروں کی۔کسی قسم کی رو رعایت کو قومی جرم سمجھا جائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ '' دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)