"MSC" (space) message & send to 7575

’’پوزیشن‘‘ اور ’’اپوزیشن‘‘

یہ ایک ''اوپن سیکرٹ‘‘ تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ آئندہ تین سال بھی پاک فوج کی سربراہی کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔ کئی با خبر مبصرین اور تجزیہ نگار کھلم کھلا یہ دعویٰ کر رہے تھے، اور جن کی زبانوں کو تالے لگے تھے وہ بھی اِس حقیقت سے بے خبر نہیں تھے۔ جنرل باجوہ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد جو کردار ادا کیا، اور جس طرح پاکستان ہی نے پورے خطے کو متاثر کیا، اس نے یہ بات تو واضح کر دی تھی کہ وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں ہیں۔ ان کا شمار ان لوگوں میں کیا جا سکتا تھا، جن کے بارے میں میر تقی میر نے کہہ رکھا ہے؎
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
ان کا اعتراف بین الاقوامی طور پر بھی کیا جا رہا تھا، انہوں نے عرب ممالک اور ایران کے ساتھ بیک وقت اعتماد کا رشتہ قائم کیا، چین کی اعلیٰ ترین قیادت کی نگاہ میں پسندیدہ ٹھہرے اور افغانستان سے رخصت ہونے کے لیے بے تاب امریکی صدر کی اسٹیبلشمنٹ کی نگاہوں میں کھب گئے۔ پاکستان کے داخلی معاملات میں بھی ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتے رہے، اور اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے اقدامات کرتے چلے گئے۔ اس سب نے وزیر اعظم عمران خان سے ان کے تعلقات کو بھی گہرائی اور گیرائی بخش دی۔ پاکستان کے حالات اور واقعات پر نظر رکھنے والے اس نتیجے پر پہنچتے چلے گئے کہ وزیر اعظم عمران خان اور جنرل باجوہ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں، ایک کے بغیر دوسرا ادھورا دکھائی دیتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا تقرر تو وزیر اعظم نواز شریف کے دستخطوں سے ممکن ہوا تھا۔ وہ سینئر ترین جرنیل بھی نہیں تھے، غالباً ان کا نمبر چوتھا تھا لیکن جب نگاہِ انتخاب ان پر ٹھہری تو جناب نواز شریف نے دور و نزدیک سے داد وصول کی۔ ان کی شہرت ایک ایسے جنرل کی تھی جو دستور کے تحت قائم حکومت کو مشکلات میں مبتلا کرنے میں لذت محسوس نہیں کرتا۔ بند دروازوں سے چھن چھن کر جو معلومات آ رہی تھیں، وہ یہی تھیں کہ وہ دستور کی پاسداری کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ تاریخ کی عجب ستم ظریفی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف سے ان کے تعلقات پہلے ہی روز گدلا گئے۔ جب وہ رسمی آداب بجا لانے وزیر اعظم ہائوس پہنچے تو نشست و برخاست کا اہتمام معمول سے ہٹ کر تھا۔ سادہ سی میز کے ایک طرف وزیر اعظم بیٹھے تھے تو دوسری طرف جنرل صاحب۔ بظاہر اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں تھی، لیکن اِس سے پہلے وزیر اعظم، چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ جس اہتمام سے گدّے دار کرسیوں پر بیٹھے پائے جاتے تھے، وہ منظر غائب تھا۔ اس سے وزیر اعظم کی تاک میں بیٹھے ہوئے عناصر کو حملہ آور ہونے کا موقع مل گیا، اور انہوں نے اس تاثر کو ہوا دی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو پروٹوکول نہیں دیا گیا... معاملات آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹتے رہے۔ پانامہ کیس نے جو ہنگامہ کھڑا کر رکھا تھا، اس میں سنبھلنا اور سنبھالنا آسان نہیں تھا۔ ''ڈان لیکس‘‘ کے تابکاری اثرات بھی پھیل پھیل جاتے تھے۔ تحقیقات کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کی رپورٹ پر رد عمل ایک بار پھر غلط فہمیوں کو بڑھاوا دے گیا۔ ایک عسکری ٹویٹ اور پھر اس کی واپسی کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ کشتی ہموار نہیں رہ پا رہی تھی۔ مشکلات بڑھتی جا رہی تھیں۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کا محل نہیں ہے۔ نئے انتخابات نے عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا۔ اِس وقت نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز، ان کے عارضی جانشین شاہد خاقان عباسی سب جیل میں ہیں۔ سمدھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار خرابیٔ صحت کی آڑ میں لندن میں فروکش ہیں، نیب اُن کی تلاش میں ہے۔ نواز شریف کے ایک زمانے کے حریفِ اوّل آصف علی زرداری، اپنی ہمشیرہ محترمہ کے ساتھ اڈیالہ جیل کو شرفِ قیام بخشے ہوئے ہیں، گویا وزیر اعظم عمران خان کا ہر قابلِ ذکر حریف مشکلات میں گِھر چکا ہے، جیل یاترا کر چکا ہے، یا اس خطرے سے دوچار ہے۔ پاکستانی سیاست کے ساتھ ساتھ معیشت بھی ہچکولے کھا رہی ہے لیکن یہ بات اندرون اور بیرون ملک واضح ہے کہ پاکستانی فوج اور سیاسی قیادت قدم سے قدم ملا کر محوِ سفر ہیں۔ ان کی یک جانی نے ایسا ماحول پیدا کیا ہے، جو خارجی اور داخلی محاذوں پر پیش قدمی کی ضمانت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی خبر آتے ہی نیچے کی طرف لڑھکتی سٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی اور بے یقینی کے سائے سمٹے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں (مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی) بھی نا خوشی کا اظہار کر نہیں پائیں۔ وہ اس امید پر قائم ہیں کہ کروٹ لینا انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔
پاکستان (ایک بار پھر) اپنی تاریخ کے نازک لمحات سے گزر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اس پر براہِ راست نئی دہلی کی حکومت قائم کرنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اقدام کر گزرے ہیں۔ تین ہفتے گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ اس کا رابطہ پوری دُنیا سے منقطع کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارے اور تنظیمیں اس انسانیت سوزی پر سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر میں جذبات اُبل رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا پر صدر ٹرمپ بضد ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کی بساط بچھی ہے۔ پاکستان امریکی توقعات کا مرکز ہے۔ گویا، ہمارا خطہ انتہائی دور رس تبدیلیوںکی زد میں ہے۔ ایسے میں مضبوط و مستحکم پاکستان ہی اپنا راستہ بنا سکتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی عسکری سیادت کے اعلان نے حالات کو سنبھالا دیا ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی ضرورت یوں ہے کہ ریاست، محض حکومت سے عبارت نہیں ہوتی۔ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے والے بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ چند ہزار ووٹوں کی اکثریت سے بننے والی حکومت (عملی طور پر) سو فیصد رائے دہندگان کا اعتماد نہیں رکھتی۔ ریاست کے معاملات میں حکومت اور اپوزیشن یک جا نہیں ہوں گے تو کہا جائے گا کہ قوم یک جا نہیں ہے۔ قوم یک جا نہیں ہو گی تو فوجی قیادت اپنے جوہر یکسوئی کے ساتھ آزما نہیں سکے گی، بھارت اور افغانستان سے پہلے پاکستان کو اپنا داخلی محاذ سنبھالنا ہے۔ ایک دوسرے سے الجھنے کے بجائے ایک دوسرے کی طاقت بننا ہے۔ وزیر اعظم کو وزیر اعظم کے طور پر اور چیف آف آرمی سٹاف کو چیف آف آرمی سٹاف کے طور پر پوری طاقت اور حکمت کے ساتھ اپنا اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ جمہوری ریاستوں میں اپوزیشن کی اہمیت اور اس کے اثر و رسوخ سے انکار ممکن نہیں ہوتا۔ ہماری تاریخ کشادہ دِلی اور کشادہ ظرفی سے بھری پڑی ہے۔ جنگِ صفین کے بعد جب قیصر روم کی طرف سے امیر معاویہ کو امیر المومنین علیؓ مرتضیٰ کے خلاف تعاون کا اشارہ دیا گیا تو انہوں نے انتہائی سختی کے ساتھ اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ قیصر کے نام فوری خط بھیجا۔ اس میں اسے ''روم کے کتے‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، اور لکھا کہ مَیں (حضرت) علی ؓ کا ایک ادنیٰ سپاہی بن کر تمہارے خلاف لڑوں گا۔ حالیہ سیاسی تاریخ بھی اس کشادگی سے بھری ہوئی ہے۔ 1965ء کی جنگ میں فیلڈ مارشل ایوب خان اور ان کی اپوزیشن کی یک جائی تاریخ کا حصہ ہے، معاہدہ شملہ سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ان کے ''جانی دشمنوں‘‘ کا تعاون بھی دیدنی تھا۔ آج بھی فیلڈ مارشل ایوب خان اور بھٹو مرحوم کی طرح اپنے مخالفین کے لیے بانہیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن اور پوزیشن میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا... ''پوزیشن ہولڈرز‘‘ یاد رکھیں کہ ایک ''الف‘‘ اِدھر سے اُدھر ہو جائے تو سب کچھ بدل جاتا ہے ؎
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں