لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ نے اپنے خلاف سوشل میڈیا کا ایک بڑا حملہ (تادم تحریر) ناکام بنا دیا ہے۔ انہوں نے معاون خصوصی کے طور پر کام کرنے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کی خدمت میں پیش کردیا تھا۔ ارادہ ظاہر کیا گیا تھاکہ صرف سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین کے طور پر خدمات جاری رکھی جائیں گی، اور سیاسی معاملات سے دوری اختیار کر لی جائے گی‘ ہر چند کہ اُنہیں کسی سیاسی موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے نہ پایا گیا، نہ دیکھا گیا۔ انہوں نے اپنا دامن سمیٹ رکھا تھا، اور وزارتِ اطلاعات کے تکنیکی امور ہی پر توجہ مرکوز کرنے میں مصروف دکھائی دیتے تھے، لیکن پھر بھی وہ نشانے پر تھے۔ انہوں نے اپنے خلاف لگائے جانے والے ''نورانی الزامات‘‘ کا نکتہ وار جواب دینے کے بعد وزیراعظم کی معاونت سے دستبرداری کا اعلان کیا، تو عزیزم بلاول بھٹو زرداری نے ڈنکے کی چوٹ دال میں کالا تلاش کر لیا۔ ان کا کہنا تھاکہ جواب دینے کے بعد بھی اگر استعفیٰ دیا جا رہا ہے تو پھر کچھ نہ کچھ کالا تو ہو گا ہی۔ جنرل باجوہ نے یہ فیصلہ شاید جلد بازی میں کر لیا تھا یا پھر ان کے حلقۂ مشاورت میں جلد باز موجود تھے، وجہ جو بھی ہو، وزیراعظم نے (شاید پہلی بار) جلد بازی کے مظاہرے میں شریک ہونے سے انکار کردیا، جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، استعفیٰ واپس جنرل صاحب کی جیب میں ڈال (یا ٹھونس) دیا۔ باجوہ صاحب پر حملہ اتنا شدید تھا، اور گولہ باری اس شدت اور تسلسل سے کی جارہی تھی کہ صحافیوں کا جینا دوبھر ہوگیا تھا۔ جگہ جگہ لوگ گھیر لیتے تھے، یا یہ کہیے کہ گریبان پکڑنے پر تیار نظر آتے تھے کہ آپ نے منہ میں گھنگھنیاں کیوں ڈال رکھی ہیں؟ سچ سچ بتائیے، زبان پر تالہ کس نے لگایا ہے؟ طعنے دینے والے اس ''خاموشی‘‘ کی پاداش میں ہمارا سارا ماضی چھین لینے کے در پے تھے۔ زبان یہ جواب دے دے کر تنگ آ گئی تھی کہ بھائی، اگر کوئی ایک شخص کسی ایک شخص پر الزام لگاتا ہے یا اس کی مبینہ تحقیق اسے کسی نتیجے تک پہنچاتی ہے، تو تمام صحافیوں پر لازم نہیں ہو جاتاکہ وہ قومی فریضہ سمجھ کر اُس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیں۔ ان کو اپنی جستجو کے نتیجے میں کوئی رائے قائم کرنے کا حق حاصل رہتا ہے، لیکن اس توجیہہ کو بزدلی قرار دے کر حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والے ''جوق در جوق‘‘ موجود تھے، ان سے اپنی عزت بچانا ہمالہ سر کرنے کے مترادف تھا۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارا معاشرہ الزامات کی تجارت میں مصروف ہے۔ ہر سیاستدان اپنے مخالف پر ہر حملہ کرنا روا سمجھتا ہے، اسے چور اچکا نہیں، ڈاکو، لٹیرا، دہشتگرد اور جانے کیا کیا قرار دینے پر مصر رہتا ہے۔ کئی اہلِ صحافت بھی کبھی دائیں اور کبھی بائیں آنکھ کے اشارے پر ٹوٹ کر حملہ آور ہونے کو جہاد قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس کارِ خیر میں بہت سوں کو کئی بار آسمانی اشیرباد بھی حاصل رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب شہباز شریف آصف علی زرداری سے ملنے جاتے ہیں تو دیکھنے والے دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود جیسے ثقہ لکھاری بھی ردعمل روک نہیں پاتے، اور زرداری کے گلے میں صافہ ڈال کر انہیں گھسیٹنے کے شہبازی اعلانات یاد دِلا گزرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی انیس، بیس سالہ جدوجہد کے دوران ہر موضوع پر، ہر حلیف اور ہر حریف کے بارے میں ہر طرح کا تبصرہ کیا ہوا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی الماریاں ان کی ٹیپوں (TAPES) سے بھری پڑی ہیں۔ وہ جب بھی زبان کھولتے ہیں، ان کے پرانے اور نئے فدائی ان کا کوئی نہ کوئی ارشاد ڈھونڈ لاتے، اور سننے والوں کی تفنن طبع کا سامان کر ڈالتے ہیں۔
پاکستانی صحافت اور سیاست کاروباری اداروں کے کپڑے اتارنے میں بھی پیچھے نہیں ہے، ہر کاروبار یہاں ''مافیا‘‘ ہے۔ شوگر ہو یا سیمنٹ، یا گندم، ہر طرح کے کاروباریوں کو ''مافیا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ بڑے بڑے جغادری میڈیا پرسنز بھی صنعتی اور کاروباری حلقوں کو ''مافیا‘‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں اور انکے خلاف عوامی غیظ و غصب کو ابھارتے ہیں۔ پاکستان کی صنعتی ترقی قابلِ رشک نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے سے سرمایہ کاروں کو تختۂ مشق بنانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، آج بھی جاری ہے۔ صنعتوں کو سرکاری قبضے (نام نہاد نیشنلائزیشن) میں لینے کی جو وبا بھٹو دور میں شروع ہوئی تھی، اس کورونا وائرس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ صنعت کاروں اور تاجروں کی توہین و تذلیل کا عمل آج بھی جاری ہے۔ پاکستان کی برآمدات اس کی درآمدات کے مقابلے میں کم ہیں۔ اس کے محصولات چار ہزار ارب کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اس کے ذہین افراد بیرون مُلک جاتے چلے جا رہے ہیں، 22 کروڑ افراد کا ملک صنعتی میدان میں کسمپرسی کا شکار ہے۔ سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی نہیں کر پا رہا۔ ان کیلئے بزنس کرنا آسان نہیں کر پا رہا۔ ہر سرکاری محکمہ ان کی راہ میں روڑے اٹکاتا اور قبل از وقت ہی اپنی جیبیں بھرنا چاہتا ہے۔ کاروباری اداروں کے معاملات کبھی نیب کے سپرد کیے جاتے ہیں، کبھی ایف آئی اے کے۔ اور تو اور شوگر انڈسٹری کی مشکیں کسنے کیلئے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کی بدولت مل مالکان کو جیلوں میں ڈالا جا سکے گا یا بھاری جرمانے کئے جا سکیں گے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر جگہ سب اچھا ہے‘ یقینا بہت کچھ اصلاح طلب ہے۔ بہت کچھ غلط ہو رہا ہے، لیکن اسے درست کرنے کیلئے وہی اقدامات کرنا ہوں گے، جن کے ذریعے ترقی یافتہ قومیں آگے بڑھی ہیں۔ دور نہ جائیے، بھارت (بلکہ بنگلہ دیش) ہی کی مثال لے لیجیے، انہوں نے کس طرح سرمایہ کاروں کے سر پر ہاتھ رکھا ہے۔ یہ مان لینا چاہیے کہ صنعت کاروں اور کاروباریوں کی مشاورت کے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں ہوگی۔ صنعتی شعبے کی نگرانی اور احتساب کیلئے قائم اداروں (ایف بی آر، سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، مسابقتی کمیشن) کو مؤثر اور مضبوط بناکر ان پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ عدلیہ سمیت تمام اداروں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ صنعتی شعبے کی حوصلہ افزائی اور مشکلات میں کمی کیلئے ہر ممکن اقدام کو اولین ترجیح دی جائے گی۔ سرکاری و غیرسرکاری شعبے میں جو تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، بڑے بڑے منصب داروں کو جو سہولتیں اور آسائشیں فراہم ہورہی ہیں، یہ سب صنعتی گاڑی چلنے ہی کا نتیجہ ہے، یہ گاڑی تیزتر نہ چلی (بلکہ رُک گئی) تو سب بیٹھے کے بیٹھے رہ جائیں گے۔ حرکت قلب بندہو جائے تو ہاتھ اور پائوں، آنکھیں اور کان اپنی اپنی جگہ پڑے رہ جاتے ہیں۔ ان کی چلنے پھرنے، دیکھنے اور سننے کی صلاحیتیں خود بخود سلب ہوجاتی ہیں۔ کوئی ملک اگر اپنے اخراجات اپنی آمدنی سے پورے نہیں کرسکتا اور کشکول اٹھاکر اس کے سربراہان دربدر پھرتے ہیں تو پھراسکے مستقبل کے بارے میں کسی جوتشی سے زائچہ بنوانے کی ضرورت نہیں۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو طرح طرح کی مراعات پیش کرنا، اور اپنے باوسیلہ افراد کو مرغا بنائے رکھنا، ترقی کی علامت ہے نہ ضمانت۔ جان اور مال کے ساتھ ساتھ عزت کی حفاظت بھی لازم ہے۔ اہلِ سیاست ہوں، اہلِ صحافت ہوں یا اہلِ معیشت، انہیں ایک دوسرے یا تیسرے کے ہاتھوں نازل ہونے والی الزام و دشنام کی بارش سے بچانا لازم ہے۔ اس کیلئے ہتک عزت کے قوانین کو موثر بنانا ہوگا۔ جہاں معمولی سیاسی ہنگامہ آرائی پرتو انسداد دہشت گردی ایکٹ کا اطلاق کرکے اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کرنے کو قومی فریضہ سمجھا جائے، وہاں عام شہریوں بلکہ کمائو پوتوں کی عزت سے کھیلنے کی عام اجازت ہو تو وہاں کون انویسٹ کرے گا، اور کون اپنا آپ دائو پر لگائے گا۔ ہر بازار پر ''اُس بازار‘‘ کا لیبل لگانے سے ہر بازار کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا؎
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی‘ منصف بھی / کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)