"MSC" (space) message & send to 7575

رؤف طاہر، خدا حافظ

اس وقت صبح کے ساڑھے دس یا گیارہ بجے ہوں گے۔ نماز فجر کے بعد میں اکثر سو جاتا ہوں، دس بجے کے لگ بھگ دن کا آغاز ہوتا ہے۔ غسل خانے سے باہر نکلا تو میری اہلیہ طاہرہ نے بتایا کہ فون آیا تھا، رئوف طاہر گھر میں بے ہوش ہوکر گر پڑے ہیں، انہیں یونیورسٹی ہسپتال لے جایا جا رہا ہے۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ یا الٰہی خیر، پھر اس خیال نے سنبھالا دیا کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں، شوگر لیول کم ہو گیا ہوگا کہ اس سے بھی بعض اوقات غنودگی طاری ہو جاتی ہے۔ فوراً پوچھا، ان کے منہ میں فوری طور پر شکر ڈال دی گئی ہو گی؟ یہ سوال کیا بڑبڑاہٹ سی تھی کہ اس کا جواب دینے کے لئے کوئی موجود نہیں تھا۔ یونیورسٹی کا لفظ سنتے ہی ذہن پنجاب یونیورسٹی کی طرف گیا کہ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر، پرووائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر اور کلیہء قانون کے ڈاکٹر امان اللہ سے ان کے قریبی مراسم تھے ۔ ڈاکٹر امان اللہ کے ساتھ تو گویا دانت کاٹی دوستی تھی۔ سوچا ان ہی کی وجہ سے یونیورسٹی کا رخ کیا گیا ہو گا لیکن وہاں توایک عام سا کلینک ہے۔ کوئی خصوصی انتظام نہیں، پھر وہاں جانے کی حماقت کیوں کر لی گئی؟ ان کی رہائش گاہ لیک سٹی میں ہے، وہاں سے یونیورسٹی کا فاصلہ بھی خاصا ہے، یہ تو کوئی اچھا فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ ایک ہی لمحے میں ذہن میں آیا لیکن دوسرے لمحے نے اسے خود ہی جھٹک دیا۔ بھائی، یہ لاہور یونیورسٹی ہسپتال ہو گا جو ڈیفنس روڈ پر ہے اور انتہائی اعلیٰ معیار کا ہے، یہ ان کے گھرسے بھی قریب پڑتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد پرویز وہاں کے ایم ایس ہیں۔ ان سے بات کرنے کے لئے ٹیلی فون ہاتھ میں لیا، لیکن فوراً ہی یہ خیال غالب آ گیا کہ پہلے ان کے بیٹے آصف سے بات کر لی جائے۔ رئوف صاحب کا فون تو بند تھا، آصف کا نمبر ملایا تو انہوں نے اٹھا لیا اور تشویش کی تصدیق کر دی ،مزید بتایا کہ ہم لاہور یونیورسٹی ہسپتال پہنچنے ہی والے ہیں۔ دل ہسپتال کی طرف دوڑ پڑنے کے لئے مجبور کر رہا تھا، لیکن دماغ آڑے آیا، ڈاکٹر زاہد پرویز سے تو رابطہ کر لو، وہ تیزی سے اپنا کام شروع کر دیں گے۔ پھر ہسپتال کی طرف بھی چلے جانا۔ فوراً ان کا نمبر ملایا اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر زاہد فوراً ایمرجنسی کی طرف بھاگے اور تھوڑا سا اطمینان ہوا کہ معاملہ سنبھل گیا ہے‘ ضروری طبی امداد ان کو فراہم کی جا چکی ہو گی، اس لئے تیار ہو کر گھر سے باہر نکلتے ہیں۔ پانچ، یا سات منٹ ہی گزرے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی، دوسری طرف آصف میاں تھے، سسکیوں اور چیخوں کی آواز تھی، کوئی لفظ ان کی زبان پر آ رہا تھا، نہ کانوں کو سننے کی تاب رہی تھی۔ وہ ہو چکا تھا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا، جس کا کبھی تصور نہ کیا تھا، جس کے بارے میں کبھی سوچا نہ گیا تھا... جسے سننے کی تاب تھی، نہ دیکھنے کی... آنسوئوں کا دریا اُمڈ آیا ، بات کرنا تو کیا سننا بھی دشوار تھا۔ آصف کا فون بند ہوتے ہی ڈاکٹر زاہد پرویز لائن پر آ گئے۔رندھی ہوئی آواز میں وہ بتا رہے تھے، رئوف طاہر ہمارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔معلوم ہو رہا ہے کہ انہوں نے گھر ہی پر دم توڑ دیا تھا، ہسپتال تو ان کا جسدخاکی پہنچا، وہ خود نہیں پہنچ پائے۔ عزیزان عمر اور عثمان کو آواز دی، وہ بھی حیرت کی تصویر تھے۔ مجھے سنبھالتے اور خود سنبھلتے رئوف صاحب کی رہائش گاہ کا رخ کیا۔ 
وہ ایک سرگرم اخبار نویس تھے، رپورٹر کے طور پر کیرئیر کا آغاز کیا، مختلف رسالوں کے شعبہ ادارت سے وابستہ رہے۔ لاہور میں روزنامہ ''جسارت‘‘ کے بیورو چیف رہے۔ جدہ سے اردو میگزین کا اجرا ہوا تو اس کی ادارت کے لئے نگاہ انتخاب ان پر پڑی، وہاں دس، گیارہ سال اپنا لوہا منوایا۔ واپس آئے تو پاکستان ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ مقرر ہوگئے، وہاں کنٹریکٹ ختم ہوا، تو پھر صحافت کے لئے خاص ہو گئے، کالم نگاری کی دھوم مچ گئی۔ یونیورسٹی میں پڑھانے بھی لگے۔ ظفر علی خان ٹرسٹ کو سیکرٹری کی ضرورت پڑی تو بخوشی رضا مند ہو گئے۔ ایک زمانے میں میرے باقاعدہ رفیق کار تھے۔یہ تعلق ختم ہو گیا لیکن ان کی رفاقت ختم نہیں ہوئی۔ حلقہ ء احباب کی جان تھے کہ دوستوں پر جان چھڑکتے تھے۔ کام، کام اور کام، انہیں کسی پل آرام نہیں تھا۔ پیشہ ورانہ فرائض سے فرصت ملتی تو محفلوں کی رونق ہوتے، خوش خوراک بھی تھے اور خوش اطوار بھی۔ لڑنا جھگڑنا تو سیکھے ہی نہ تھے۔ ناک کی سیدھ چلتے اور کسی معاملے کو ناک کا مسئلہ نہ بناتے۔ اپنی بات کے پکے تھے، اپنے نظریات کا پہرا دیتے ، پسند ناپسند پر ڈٹ جاتے ، لیکن ذاتی تعلق کو مجروح نہ ہونے دیتے۔ ایک عرصہ تک ''جسارت‘‘ اور ''نوائے وقت‘‘ میں رپورٹنگ کی تھی،اس لئے حلقہ تعارف وسیع تھا۔ جنرل ضیاء الحق سے لے کر نوابزادہ نصراللہ خان تک ان کی دسترس میں تھے۔ نوابزادہ صاحب سے گہری دوستی رہی، لیکن پیپلزپارٹی ، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کے بارے میں ان کے ہم نوا نہ ہو پائے۔
رئوف طاہر زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے، کئی بار جیل یاترا نصیب ہوئی، ڈاکٹر بننے کا ارادہ کیا، پھر استاد بننے کی ٹھانی، بعدازاں لاہور پہنچ کر لا کالج میں داخلہ لے لیا۔ ہارون آباد ان کا شہر تھا، طلبہ سیاست میں نام پیدا کر لیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ تعلق انہیں قومی معاملات سے جوڑتا چلا گیا۔ جاٹ برادری کی گل گوت سے تعلق رکھتے تھے، اپنے خاندان میں پہلے گریجوایٹ تھے، اس سے پہلے یہ اعزاز ان کا کوئی اور عزیز حاصل نہ کر سکا تھا۔ لاہور میں قانون کی تعلیم حاصل کی، تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے اور انعامات جیتتے رہے، سیاسی اجتماعات سے بھی خطاب کرتے اور ممتاز ہوتے چلے گئے۔1973ء میں لاہور آئے تھے، پیپلزپارٹی سے نظریاتی بعد تو پہلے ہی تھا، اس کے دور حکومت نے فاصلہ مزید بڑھا دیا، بھٹو صاحب کی سیاست اور اقتدار کے منفی اثرات کو وہ کبھی بھلا نہ پائے، 1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا تو اس کے پُرجوش حامی تھے، نوازشریف من کو بھا گئے، سعودی عرب میں تعلقات مزید گہرے ہوئے۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ (ن)کے درمیان اتحاد کا خاتمہ ان کو قبول نہیں تھا، ان کا خیال تھا جماعت کو خسارہ ہوگا۔ اپنی رائے کے حق میں دلائل کا انبار لگا کر بحث کرنے والوں کو لاجواب کر دیتے۔ جدہ میں قیام کے دوران نوازشریف صاحب کی یادداشتیں بھی ریکارڈ کیں، لیکن یہ کام مکمل نہ ہو سکا۔
حافظہ بلا کا پایا تھا، گزشتہ پینتالیس سال کی تاریخ ہوش کی آنکھوں سے دیکھ کر زبانی یاد کر رکھی تھی۔ انہیں پاکستانی سیاست کا انسائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا تھا۔ تفصیل یاد رکھنا ان پر ختم تھا، ایک ایک بات کرید پڑتال کرکے لکھتے، بے پَر کی اڑاتے، نہ کسی کو اُڑانے دیتے۔ باوضو رہتے، نماز کا وقت آتے ہی بے چین ہو جاتے، آخر دم تک رزق حلال کمایا اور کھایا۔ دست سوال کسی کے سامنے دراز کیا نہ کسی سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ مسلم لیگ (ن) سے روٹھنے کے کئی مواقع پیدا ہوئے، توقعات کو ٹھیس بھی پہنچی، لیکن انہوں نے بدلہ نہیں چکایا... جو سوچا وہی لکھا، جو لکھا وہی سوچا، جو کہا وہی کیا... جو کیا وہی کہا، ایسے کھرے، سچے اور بے لوث اخبار نویس تو انگلیوں ہی پر گنے جا سکتے ہوں گے۔ رئوف طاہر اڑسٹھ برس اس دنیائے رنگ و بُو میں گزار کر اٹھے ہیں تو انہیں کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔ ان کے کاندھوں پر کوئی بوجھ نہیں تھا، ہلکے پھلکے تھے اس لئے تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ اس تیز قدم کو ، اس طاہر کو، رئوف طاہر کو، خدا حافظ
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں