محترمہ مریم نواز شریف پورے جوش و خروش سے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ایک سے دوسرے شہر جا رہی ہیں‘ بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کر رہی ہیں‘ اُن کی پوری کوشش ہے کہ اتحادی حکومت کے مشکل فیصلوں سے جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ اُن کا ازالہ ہو جائے۔ مسلم لیگی زعما اور اُن کے اتحادی بار بار اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاست کو دائو پر لگا کر ریاست کو بچا لیا ہے۔ اگر عمران حکومت کا خاتمہ نہ ہوتا تو ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا ہوتا۔ آئی ایم ایف سے کئے جانے والے معاہدے کو توڑنے کے بعد ہم تیزی سے دیوالگی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ عمران خان اپنی دھن میں مگن تھے اور ملکی معیشت لڑھکتی جا رہی تھی ایسے میں مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں نے آگے بڑھ کر ضرب کاری لگائی اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں ایوان اقتدار سے نکال باہر کیا‘ زمامِ اقتدار سنبھالی تو حالات کا رُخ بدلنا شروع ہوا۔ یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ اولین وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کا اعتماد بحال کرنے کے لیے جو اقدامات شروع کئے تھے‘ ان کی تبدیلی نے ان میں رخنہ ڈال دیا۔اسحاق ڈار نے وزارت سنبھالی‘ لوگوں کو حوصلہ دیا لیکن آئی ایم ایف کو آنکھیں بھی دکھا ڈالیں۔ نتیجتاً معاہدہ ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔ بے یقینی کے سمندر میں کشتی اب بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔ ہر روز تسلی دی جاتی ہے کہ معاملہ طے پا گیا لیکن ابھی تک دستخطوں کی نوبت نہیں آئی ۔ڈالر کی اڑان جاری ہے‘ ٹیکس پہ ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ‘ مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔کوئی سر پکڑے بیٹھا ہوا ہے تو کوئی دل تھام کر گرا ہوا ہے۔ صنعت کاروں اور تاجروں کے 10 رکنی وفد نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا دروازہ بھی کھٹکھٹا لیا‘ انہوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے انہیں تسلیاں بھی دِلا ڈالیں لیکن ہنوز پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ عمران خان جس مہنگائی کے ہاتھوں انتخابی محاورے کے مطابق ''نکو نک‘‘ تھے اور وہ اُن کی مقبولیت کو چٹ کرتی جا رہی تھی‘ وہی مہنگائی اب مسلم لیگ (ن) کے درپے ہے۔ اُس کے ساتھ وہی کر رہی ہے‘ جو اس سے پہلے عمران خان کے ساتھ کیا تھا۔ ایوانِ اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان اونچی اڑان بھر رہے ہیں۔ ڈالر سنبھالا جا رہا ہے‘ نہ خان صاحب سنبھالے جا رہے ہیں۔ دونوں نے اہل ِ اقتدار کو پریشان کر رکھا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ڈالر اور خان صاحب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘ ایک اونچا جائے گا تو دوسرے کو بھی نیچا دکھانا ممکن نہیں ہو گا۔ خان صاحب کو نیچا دکھا کر ڈالر کی مشکیں نہیں کسی جا سکتیں‘ ہاں ڈالر کی مشکیں کس دی جائیں تو شاید خان صاحب کی پرواز رن وے کا راستہ دیکھ لے۔
عمران خان فوری انتخابات چاہتے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن) اور اُس کے اتحادی ابھی تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق الیکشن کمیشن انتظامات میں مصروف ہے‘پنجاب میں الیکشن شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔خیبرپختونخوا کے گورنر البتہ ابھی تک اگر‘ مگر میں لگے ہوئے ہیں۔پنجاب میں بھی انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔روزانہ کوئی نہ کوئی محکمہ کوئی نہ کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔پلیٹیں کھنک رہی ہیں لیکن کھانا نہیں آ پا رہا۔عمران خان کے خلاف مقدموں پر مقدمے بن رہے ہیں‘ان کی ضمانت کی درخواستیں بھی منظور ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی تک جیل اورخان کے درمیان عدالتیں دیوار بنی ہوئی ہیں۔ ان کے حامی سڑکوں پر جلوہ آرا ہیں۔ خان صاحب جب کال دیتے ہیں وہ دیوانہ وار اُن کی طرف لپکتے ہیں۔ کبھی اسلام آباد پولیس آن دھمکتی ہے تو کبھی بلوچستان سے کوئی دستہ لاہور پہنچ جاتا ہے لیکن عمران خان کو گرفتار کرنے کا ارادہ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ پا رہا۔کوئٹہ سے وارنٹ جاری ہوئے تھے لیکن لاہور پہنچے تو عدالت عالیہ نے انہیں معطل کر دیا۔ پولیس والوں کی ہتھکڑی اُن ہی کے ہاتھ کی کڑی بن گئی۔
بی بی مریم پانامہ کیس کا فیصلہ کرنے والے ججوں پر برس رہی ہیں‘ جنرل(ر) فیض حمید کے لتے لے رہی ہیں۔ جسٹس(ر) ثاقب نثار کو لتاڑ رہی ہیں۔ نوازشریف کے ساتھ کی جانے والی (مبینہ) ناانصافیوں کا تذکرہ اس انداز میں کرتی ہیں کہ سننے والوں کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔ان کا نعرہ ہے کہ پہلے احتساب ہوگا‘ پھر انتخاب ہو گا۔ گویا پہلے عمران خان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ ہو‘ پھر انتخابات کا انعقاد ہو۔ عمران خان کا نواز شریف بنائے بغیر معاملہ آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔اُن کے حامی انہیں سن رہے ہیں‘ بہت سے مہنگائی کو بھول کر جھومنے بھی لگے ہیں لیکن آئین کا تقاضا ہے کہ90روز کے اندر انتخابات ہوں‘ سپریم کورٹ کا حکم تسلیم کیا جائے‘ غیر معینہ التوا ممکن نظر نہیں آ رہا اور انتخابات کا انعقاد بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا‘ بقول شعیب بن عزیز ؎
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
ہمارا نظامِ قانون کسی شخص کو اُس وقت تک مجرم قرار نہیں دیتا جب تک اُس پر باقاعدہ مقدمہ چلا کر جرم ثابت نہ ہو جائے۔ہر مہذب معاشرے کا معمول یہی ہے اور یہی ہونا چاہیے کہ محض الزام لگا کر کسی کو مجرموں کی کال کوٹھڑی میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ مریم نواز شریف کا غم و غصہ بجا ہو سکتا ہے لیکن انتخاب سے پہلے احتساب کیسے ممکن ہو گا اور اس طرح کا احتساب کیسے ممکن ہو گا جو عمران خان کے مخالفوں کا کلیجہ ٹھنڈا کر سکے‘ یہ کسی بھی ایسے شخص کی سمجھ میں نہیں آ رہا جو قانون کی سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہو۔احتساب اور انتخاب کو ساتھ ساتھ چلنا ہو گا‘ ایک کے لیے کسی دوسرے کی قربانی نہیں دی جا سکتی۔نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم تو انتخاب ہی کو سب سے بڑا احتساب قرار دیتے تھے۔ قانون کی عدالت جو بھی کہے اور جو بھی کرے جب تک عوام کی عدالت مہر ِتوثیق ثبت نہیں کرے گی‘ سیاست اور اہل ِ سیاست کا چہرہ گدلا نہیں ہو گا۔
''عام آدمی سے عام آدمی تک‘‘
''پروازِ خاک‘‘ ایک ایسے پاکستانی کی آب بیتی ہے‘ جو ایک عام سے گھر میں‘ ایک عام آدمی کے ہاں‘ ایک عام آدمی کے طور پر پیدا ہوا۔سرکاری سکول میں ایک عام سے طالب علم کے طور پر پڑھا‘ فوج میں بھرتی ہوا‘اور آگے بڑھتا گیا یہاں تک کہ میجر جنرل کے منصب پر فائز ہوا۔اپنی محنت‘ لگن اور اہلیت کی بنیاد پر اُس نے اپنی زمین کو آسمان بنایا‘ اور اس پر ایک درخشندہ ستارے کی صورت چمکنے لگا۔پاک فوج میں میرٹ کا جس طرح پاس کیا جاتا ہے‘ وہ اُس کی عملی تصویر ہے۔ میجر جنرل سعد خٹک کی زندگی کی کہانی خاص طور پر اُن نوجوانوں کو پڑھنے کی ضرورت ہے جو اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں‘جو ستاروں پر کمندیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہیں یقین رکھنا چاہیے کہ رشوت اور سفارش کے بغیر بھی ترقی کی جا سکتی ہے‘ اور پاکستانی معاشرے میں نام اور مقام پیدا کیا جا سکتا ہے۔میجر جنرل سعد خٹک کا کمال یہ ہے کہ وہ ''خاص آدمی‘‘ بن کر بھی عام آدمی رہے‘ عام آدمی کے لیے سوچتے اور'' عام آدمی‘‘ کے لیے کچھ کر گزرنے کے ارادے باندھتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس خاص آدمی نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی ہے‘اس اُمید پر کہ عام آدمی ان کی آواز پر لبیک کہے گا‘اب دیکھتے ہیں عام آدمی ان کی توقعات پر پورا اترتا ہے یا خاص آدمیوں سے اُمیدیں لگانے ہی میں مصروف رہتا ہے اور خٹک کو اسے نبھانے کے لیے ''خاص آدمی‘‘ کا سوانگ رچانا پڑتا ہے ؛
تیرے عشق نچایا کر تھیا تھیا
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)