پاکستان میں ایک بارپھر گھمسان کا رَن پڑا ہوا ہے۔ تحریک انصاف اور اتحادی حکومت کے درمیان تو جنگ جاری ہی تھی‘ سپریم کورٹ کو بھی اب اس میں دھکیلا یا کھینچا جا رہا ہے۔پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے جو سووموٹو نوٹس لیا گیا‘اس کے لیے نو رکنی بینچ قائم ہوا تھا‘ جو ہوتے ہوتے تین ارکان تک محدود ہو کر رہ گیا۔دو جج صاحبان تو ابتدا ہی میں علیحدہ ہو گئے تھے‘ جو سات باقی رہ گئے‘ وہ تین کیسے ہوئے‘ یہ کہانی سمٹنے میں نہیں آ رہی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مندو خیل کا اصرار ہے کہ بینچ سات ارکان پر مشتمل تھا‘ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ایک طویل اختلافی نوٹ جاری کر کے اپنا وزن اس پلڑے میں ڈال دیا ہے‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بینچ کا حصہ تھے‘انہوں نے اس میں شرکت سے معذوری ظاہر نہیں کی تھی‘ ججوں کے '' ٹی روم‘‘ میں بھی طے پایا تھا کہ میں اس بینچ میں شامل ہوں گا‘ لیکن پھر بھی ان کا نام کاز لسٹ میں درج نہیں کیا گیا۔سات رکنی بینچ کے چار ارکان انتخابات کے حوالے سے سووموٹو کے خلاف تھے کہ معاملہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت تھا‘ لیکن بینچ کی تین رکنی تشکیل نے سوو موٹو نوٹس لیا اور فیصلہ بھی صادر کر دیا۔ جسٹس اطہر من اللہ اور ان کے تین برادر جج سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو اقلیتی قرار دے رہے ہیں‘ جبکہ تین رکنی بینچ کی طرف سے بتایا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے انتظامی اختیارات کے تحت یہ بینچ قائم کیا تھا‘ اس لیے اس کا فیصلہ ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔
اگر سپریم کورٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق معاملے کا جائزہ لیا جائے تو پھر تین رکنی بینچ کا فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قرار پاتا ہے لیکن اگر وسیع تر تناظر میں معاملے کو دیکھا جائے‘ تکنیکی بحث کو نظر انداز کر دیا جائے‘ تو پھر دیکھنے اور سننے والوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔یہ امر واقعہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چار فاضل جج سووموٹو نوٹس لینے کے حق میں نہیں تھے‘ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں لاہور اور پشاور کی اعلیٰ عدالتوں کو فیصلہ کرنے دیا جائے جب اپیل دائر ہو گی تو اُس وقت سپریم کورٹ اس کا جائزہ لے لے گا۔تین جج صاحبان نے اس سے اتفاق نہیں کیا‘انہوں نے معاملے کی اہمیت کے پیش نظر ازخود کارروائی کرتے ہو ئے انتخابات کی تاریخ دے ڈالی۔سووموٹو نوٹس کی حدود و قیود اور طریق کار پر یہ کھینچا تانی جس طرف سے توجہ ہٹا رہی ہے‘ وہ ہے تحلیل شدہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی فاضل جج نے کسی بھی مرحلے پر یہ رائے نہیں دی کہ انتخابات کو ملتوی کر دینا چاہیے یا یہ کہ لیکشن کمیشن کو انتخابات ملتوی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
قومی اسمبلی نے ججوں کے اختلافِ رائے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرارداد منظور کر لی ہے‘جس میں پنجاب اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس کے تحت کوئی اقدام نہ کرے‘اور تو اور محترمہ مریم اورنگزیب نے جو وزارتِ اطلاعات کی سربراہی فرما رہی ہیں‘ چیف جسٹس آف پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔قومی اسمبلی کسی بھی قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو مسترد کر سکتی ہے‘نہ ہی چیف جسٹس کسی وزیر کے مطالبے پر استعفیٰ دینے کے مجاز ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنی حکم عدولی پر سزا دینے کا اختیار آئین نے تفویض کر رکھا ہے لیکن مقننہ یا انتظامیہ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے۔سپریم کورٹ مقننہ کا منظور کردہ کوئی قانون اور انتظامیہ کی طرف سے کیا جانے والا کوئی اقدام اگر بنیادی حقوق کے خلاف سمجھے تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔اسے ''جوڈیشل ریویو‘‘ (عدالتی نظرثانی) کا اختیار کہتے ہیں‘ جو عدلیہ کے کردار کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔سپریم کورٹ کو یہ عدالتی حق اس قدر عزیز ہے کہ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے بعد بھی یہ برقرار رہا تھا۔ نصرت بھٹو کیس میں عدالت نے مارشل لاء کے نفاذکی توثیق کرنے کے باوجود قرار دیا تھا کہ مارشل لاء حکام کے فیصلوں اور اقدامات کا جائزہ لینے کا استحقاق عدلیہ کو حاصل رہے گا۔ جب مارشل لاء نے پائوں اچھی طرح جما لیے تو پھر پی سی او جاری کر کے عدلیہ کا یہ اختیار ختم کر ڈالا۔ یہ پی سی او نصرت بھٹو کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی تھا‘اس کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججوں کو اپنے مناصب سے ہاتھ دھونا پڑے‘ان میں چیف جسٹس انوارا لحق بھی شامل تھے۔طاقت کو قانون تسلیم کرنے کا یہ نتیجہ نکلا تھا کہ ان کو حاصل قانون کی طاقت سلب کر لی گئی تھی اور وہ ہاتھ ملتے رہ گئے تھے۔مارشل لاء کا اونٹ ان کے خیمے میں داخل ہی نہیں قابض ہو گیا تھا۔چیف جسٹس انوار الحق اور ان کے برادر ججوں نے اپنے فیصلے میں یہ استدلال قائم کیا تھا کہ مقننہ کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر تحریک چلائی گئی‘ پارلیمانی نظام میں انتظامیہ مقننہ کے بطن سے ظہور پذیر ہوئی ہے‘ سو جب مقننہ مشکوک ٹھہری تو انتظامیہ بھی شکوک و شبہات سے بالا تر نہ رہی۔ان دونوں کو مارشل لاء نے چلتا کر کے ان کی جگہ سنبھال لی‘ لیکن عدلیہ کے خلاف کوئی تحریک اُٹھی‘ نہ اس کے خلاف عوامی غیض و غصب کا اظہار ہوا‘ اس لیے وہ اپنا کردار ادا کرتی رہے گی‘اور اسے وہ سارے اختیارات حاصل رہیں گے جو 1973ء کے دستور کے تحت حاصل ہیں۔ مارشل لاء بہادر فوری طور پر تو کورنش بجا لایا کہ اُسے مقننہ اور انتظامیہ پر ہاتھ صاف کرنے کا جواز مہیا ہو گیا تھا‘ لیکن جونہی موقع ملا‘ عدالتی اختیار بھی حاصل کر لیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ سپریم کورٹ نے ملٹری کونسل کو دستور میں ترمیم کرنے کی جو اجازت مرحمت فرمائی تھی‘ اُسے استعمال کر کے یہ کارنامہ سرانجام دیا جا رہا ہے۔
اب جبکہ دستور کے تابع معاملات چلائے جا رہے ہیں۔موجودہ وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں سب کی طاقت کا سرچشمہ دستور پاکستان ہے‘اس کے دائرے کے اندر رہ کر ہی تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں۔سپریم کورٹ کا اندرونی اختلاف اضطراب انگیز ہے‘ اس نے ذہنوں کو الجھا کر رکھ دیا ہے‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مقننہ یا انتظامیہ اپنے دائرے سے باہر نکل کر چوکے‘ چھکے مارنے کے لیے آزاد ہو گئی ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان سے البتہ یہ توقع بے جا نہیں ہو گی کہ مختلف ججوں کی مختلف آراء سامنے آنے کی وجہ سے پیدا ہونے والا ابہام دور کرنے کے لیے فل کورٹ اجلاس بلائیں‘ تاکہ عدالت کا واضح اور دو ٹوک موقف سامنے آ سکے۔سپریم کورٹ کے تمام جج یکساں مقام و مرتبہ رکھتے ہیں‘چیف جسٹس انتظامی سربراہ ہیں‘کوئی بھی جج اپنے کسی فیصلے کے لیے نہ چیف جسٹس کو جوابدہ ہے‘ نہ ان سے رہنمائی کا طالب ہو سکتا ہے۔ ہر جج کو اپنی آزادانہ رائے رکھنے کا آئینی استحقاق حاصل ہے۔چیف جسٹس ہوں یا کوئی اور جج‘ دستور ان کا یکساں تحفظ کرتا ہے‘اس میں دیے گئے طریق کار کے مطابق‘ سپریم جوڈیشل کونسل ہی کسی جج کے خلاف اقدام کر سکتی ہے۔ فاضل چیف جسٹس اگر اپنے برادر ججوں کے دل پر ہاتھ رکھیں گے تو پوری قوم کا دل بڑا ہو گا‘وہ ان کے لیے دعا گو رہے گی۔ سب کی نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں۔ نظرِ بددور!
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان ‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)