الجھتی‘ جھگڑتی اور بگڑتی پاکستانی سیاست نے اپنے ناظرین اور سامعین کی بڑی تعداد کو یوں حیران کر دیا کہ مرنے مارنے پر تُلے ہوئے اہل ِ سیاست آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے‘ اور ایک دوسرے کی بات سننے لگے۔ مذاکرات کا آغاز ہو گیا‘ تحریک انصاف کی سہ رکنی ٹیم کی قیادت شاہ محمود قریشی کر رہے تھے‘ تو حکومتی اتحادیوں کی وزیر خزانہ اسحاق ڈار۔ایک دور چلا‘ دوسرا چلا‘ تیسرا منگل کو ہو گا۔ فریقین اپنے اپنے قائدین سے بات کر کے‘ انہیں اعتماد میں لے کر‘ پھر پارلیمنٹ ہائوس آئیں گے۔ مذاکرات میں شریک کسی بھی شخص نے ناامیدی ظاہر نہیں کی‘مایوسی کا اظہار نہیں کیا‘ اندرونی کہانی سنانے اور اپنا آپ جتلانے کی کوشش نہیں کی۔اشاروں کنایوں میں جو کچھ کہا جا رہا ہے‘ وہ یہی ہے کہ بات چیت خوشگوار ماحول میں آگے بڑھی ہے۔ ایک دوسرے کا نقطہ نظر پوری سنجیدگی سے سنا گیا ہے‘ اور اس پر سنجیدگی ہی سے غور کیا گیا ہے۔ بات پھیلائی جائے تو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے‘ بہت سی شکایات ہو سکتی ہیں‘ ایک دوسرے کے لتّے لیے جا سکتے ہیں‘ اور ایک دوسرے پر آستینیں چڑھائی جا سکتی ہیں۔حکومتی اتحادی ہوں یا تحریک انصاف‘ کسی کی بھی ہر بات درست نہیں ہے‘ اور کسی کی بھی ہر بات غلط نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف طویل چارج شیٹ جاری کر سکتے ہیں۔حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں شکایات کا انبار لگا سکتی ہیں‘ عمران خان کے دورِ حکومت میں ان میں سے کئی ایک کے خلاف جو کچھ کیا گیا‘اس کی کسی طور تائید یا تعریف نہیں کی جا سکتی۔ نیب نے جو کارروائیاں کیں اور بے سروپا الزامات پر جس طرح بڑے بڑے سیاست دانوں اور افسروں کو مہینوں کیا برسوں قید رکھا‘ وہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے‘ لیکن عمران خان اور ان کی جماعت کے ساتھ جو کچھ گزشتہ ایک سال سے ہو رہا ہے‘ اُس پر بھی اطمینان کا اظہار نہیں کیا جا سکتا‘ جس طرح مقدمے درج ہو رہے ہیں۔اسیروں کو ملک بھر کی سیر کرائی جا رہی ہے‘ خود عمران خان اپنے خلاف درج سو سے زائد مقدمات کا تذکرہ کرتے ہیں تو سننے والوں کو تابِ شنیدن نہیں رہتی۔حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جسے تمغۂ حُسن ِ کارکردگی دیا جا سکے‘اور جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس سے بری الذمہ کیا جا سکے۔انتظامی یا انتقامی کارروائیوں کا معاملہ تو الگ ہے۔ ایک دوسرے کو جس طرح مخاطب کیا جاتا ہے‘ جو جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں‘ اور جو‘ جو کچوکے لگائے جاتے ہیں‘اس سب پر اُردو لغت بھی سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ جن الفاظ کی شرفا کو ہوا بھی نہیں لگنی چاہیے تھی‘ وہ انہی میں لتھڑے ہوئے ہیں اور اپنے مخالفین کو بھی لتھاڑ رہے ہیں۔
اگر بات سمیٹی جائے تو معاملہ بس اتنا ہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے ایک ہی تاریخ پر اتفاق ہونا ہے۔ عمران خان کے حکم پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑی جا چکی ہیں‘ آئین کہتا ہے کہ جب بھی کوئی اسمبلی قبل از وقت تحلیل ہو گی تو نوے روز میں الیکشن کرانا ہوں گے۔ خان صاحب کو توقع تھی کہ جونہی وہ اسمبلیاں توڑیں گے اتحادی حکومت قومی اسمبلی اور دوسری صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر مجبور ہو جائے گی‘ اور یوں وہ قبل ازوقت عام انتخابات کا مطالبہ تسلیم کرا لیں گے۔ مسلم لیگ(ن) کے بعض سرکردہ افراد کی طرف سے زور بھی دیا جا رہا تھا کہ اگر انتخابات چاہئیں تو دو صوبوں میں قائم اپنی حکومتیں ختم کر دو‘ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی تو ملک بھر میں انتخابات کرانا پڑ جائیں گے۔خان صاحب اس جال میں آ گئے‘ اور اپنی ہی دو حکومتوں سے ہاتھ دھو لیے۔ ملک بھر میں انتخابات تو کیا ہوتے‘ دو صوبوں میں بھی ان کی نوبت نہیں آ پائی۔وزارت خزانہ نے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز دینے سے انکار کر دیا‘ اور سکیورٹی اداروں نے الگ الگ انتخابات کی ذمہ داری اٹھانے کی حامی نہ بھری۔سپریم کورٹ نے مداخلت کی‘ حکم بھی جاری کیا لیکن نتیجہ نہیں نکل سکا۔ حکومتی اتحاد دلیل لایا کہ آئین کے تحت انتخابات کرانے کے لیے نگران حکومتوں کا قیام ضروری ہے‘ اگر دو صوبوں میں انتخابات کرا دیئے گئے تو چند ہی ماہ بعد منعقد ہونے والے قومی انتخابات کے موقع پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں نگران حکومتیں قائم نہیں ہو سکیں گی‘وہاں موجود سیاسی حکومتیں انتخابی عمل کو متاثر کر سکیں گی یوں انتخابی نتائج کے حوالے سے سوالات اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ پس خان صاحب انتظار کریں جب قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کر لے گی(جو چند ماہ ہی کی بات ہے) تو ملک بھر میں انتخابات کا انعقاد ہو جائے گا‘ اُس وقت تک پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران حکومتوں سے لطف اٹھایا جائے۔
اس ایک نکتے پر ہنگامہ برپا ہے‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بیچ بچائو کرانے کے لیے میدان میں آئے‘ سپریم کورٹ نے بھی مہلت دے دی کہ سیاسی جماعتیں عام انتخابات بیک وقت کرانے کے لیے تاریخ کا تعین کر لیں۔ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کے لیے دی جانے والی آئینی مدت تو پوری ہو ہی چکی‘ معاملہ نوے روز سے آگے بڑھ ہی چکا‘ حکمران اتحاد چند ہفتے پیچھے آ جائے‘اور عمران خان چند ہفتے آگے بڑھ جائیں تو ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانا ممکن ہو جائے گا۔نوے روز کے اندر اندر انتخابات ہو جانا چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہو سکا تو اس کا حل بھی آئین نے فراہم کر رکھا ہے۔ اس کے مطابق اگر کوئی عمل مقررہ مدت کے دوران نہ ہو پائے تو وہ بعدازاں بھی ہو سکتا ہے‘اسے آئینی اور قانونی ہی سمجھا جائے گا‘ گویا نوے روز کے اندر ہونے والے انتخابات اگر ایک سو نوے دن کے بعد بھی ہوں گے تو غیر آئینی یا غیر قانونی نہیں ہوں گے۔
1973ء کے دستور میں انتخابات کیلئے نگران حکومتوں کے قیام کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ دنیا بھر میں عام انتخابات کا انعقاد وہی حکومتیں کرتی ہیں جو گزشتہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی ہوتی ہیں۔برطانیہ سے لے کر بھارت تک یہی معمول ہے‘ نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریاں آزادانہ ادا کرتا‘ اور حکومتوں کو کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کرنے دیتا لیکن پاکستانی سیاست کا باوا آدم نرالا ہے‘ یہاں دھاندلی کے ایسے ایسے الزامات لگے ہیں کہ؎ کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری۔ دھاندلی کے خلاف ایسی تحریک چلی کہ ملک کو مارشل لاء بھگتنا پڑ گیا۔1977ء کے ملتوی انتخابات1985ء میں جا کر ہوئے اور وہ بھی غیر جماعتی بنیادوں پر۔اس کے بعد دستور میں یہ ترمیم داخل کی گئی کہ انتخابات کا انعقاد حکومت اور اپوزیشن کی رضامندی سے قائم نگران حکومتوں کی موجودگی میں ہو گا اس ترمیم نے وہ الجھائو پیدا کر دیا ہے‘ جس پر آج ہنگامہ اُٹھ رہا ہے۔حکومتی اتحاد اس ترمیم کو پکڑ کر بیٹھا ہوا ہے‘ اور تحریک انصاف نوے دن کی دہائی دے رہی ہے۔اس مخمصے کو دور کرنے کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے جو اس وقت ممکن نہیں کہ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف خود کو باہر لا چکی ہے‘ موجودہ حکومت سادہ اکثریت کے سہارے چل رہی ہے۔دوتہائی اکثریت کے حصول کا خواب ہی نہیں دیکھا جا سکتا۔اس مخمصے کا حل یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اتفاق ِرائے سے تاریخ طے کر لیں۔اس کے قانونی اور آئینی تقاضے بعدازاں پورے کر لیے جائیں گے کہ جہاں مامتا ہے وہاں ڈالڈا ہے۔مقامِ شکر ہے کہ بات چیت شروع ہوئی ہے‘ دعا کیجیے‘ اس کا نتیجہ وہ نکلے جو حالات کو سنبھالے۔دو تین ماہ کی تقدیم و تاخیر سے کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا‘لیکن اگر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ضد غالب آئی تو پھر کسی کا بھی سر اونچا نہیں رہے گا۔گرے ہوئے دودھ کو دوبارہ برتن میں ڈالا نہیں جا سکے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)