"MSC" (space) message & send to 7575

عدل کے ایوانوں میں خوف

پاکستان کے ایک انتہائی باوقار اور بااعتبار قانون دان حامد خان نے پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کئی برس پہلے مرتب کر ڈالی تھی۔ سات سال پہلے (2016ء میں) یہ کتابی صورت میں شائع ہوئی تو چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی عدلیہ تحریک کی کامیابی تک کے واقعات اس میں درج تھے۔ گزشتہ دنوں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو چیف جسٹس گلزار احمد تک کے دور کا احاطہ کیے ہوئے تھا‘تیسرا ایڈیشن شائع ہو گا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا دور بھی اس میں سمٹ آئے گا کہ اس وقت تک وہ ریٹائر ہو چکے ہوں گے‘ عین ممکن ہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی اپنے منصب کو بھگتا چکے ہوں۔لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال آڈیٹوریم میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے زیر صدارت تازہ ایڈیشن کی تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی تو مقررین نے تیسرے ایڈیشن کی اشاعت کا انتظار کیے بغیر جسٹس عمر عطا بندیال کے عہد سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی۔صاحبِ کتاب کے علاوہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور ہائی کورٹ بار کے صدر اشتیاق احمد خان مضطرب تو دکھائی دیئے لیکن یکسر مایوس نہیں تھے۔اُمید بھری نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے‘اُنہیں توقع تھی کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے ایسا فیصلہ صادر ہو گا جس سے اُن کی روح آسودہ ہو گی۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے آپ کو ریٹائرڈ نہیں معزول جج قرار دیتے ہیں۔ اُنہوں نے عدالتی معاملات میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی مداخلت کے واقعات بیان کر کے داد سمیٹی‘ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار کی کپکپاتی ٹانگوں کا ذکر بھی کیا اور بتایا کہ جب اُنہوں نے پرویز مشرف کی درخواست ضمانت مسترد کی اور اس بنیاد پر اُنہیں حوالۂ پولیس کیا کہ وہ اشتہاری تھے اور انہیں آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا تھا تو پھر انہیں گرفتار کرنے والے پولیس افسر کے ساتھ کیا ہوا اور چیف جسٹس کھوسہ نے اُنہیں طلب کر کے کس طرح برہمی کا اظہار کیا۔حامد خان جو سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل تھے‘ نے برملا کہا کہ اُن کے موکل کو انکوائری کے بغیر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انکوائری اس لیے نہیں کرائی گئی کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو طلب کر کے بیان قلم بند کرنا پڑے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے جن کی بیان کردہ عدالتی کہانی ''چاقو کے بغیر قتل‘‘ چند ہی روز قبل شائع ہوئی ہے‘ اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ عدلیہ کو عوام کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے‘جب جج اپنے مقدس منصب کا حلف اٹھاتے ہیں تو یہ قسم بھی اُٹھاتے ہیں کہ ہم اپنے فیصلوں پر کسی خارجی محرک کو اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ نہ کسی لالچ کو اور نہ کسی خوف کو مگر میں بڑے احترام کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے عدل کے ایوانوں میں خوف کے کئی روپ دیکھے ہیں۔اس خوف کا سبب کہیں دھونس اور کہیں دبائو تو کہیں پیسے یا اثر و رسوخ والوں کی ناراضی کا ڈر ہے۔یہ عوامل ماضی ٔ قریب کی تاریخ میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ کے ایوانوں میں بے باکی اور بے خوفی کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی علم و فضل اور پارسائی کی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ زور دے رہے تھے: ایوانِ عدل کی رونق بے خوف‘ دلیر اور جرأت مند چہروں ہی سے ہوتی ہے۔ ہماری عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ عدل و ظلم کی اس لڑائی میں کلمہ ٔ حق بلند کرنے والے جج صاحبان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے یاد رکھا گیا ہے۔ ایسے نڈر جج صاحبان نے اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہمیشہ حق کا علم بلند رکھا۔ مثال کے طور پر جنرل ضیا الحق کے دور میں وفاقی سیکرٹریوں کی ایک میٹنگ منعقد ہوئی تو جنرل موصوف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا: '' اگر کوئی سیکرٹری حالات بہتر کرنے میں ناکام رہا تو میں اُسے سولی پر لٹکا دوں گا‘‘۔جسٹس صمدانی نے جو اُس وقت سیکرٹری قانون تھے جنرل صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا‘ اس پر محفل کچھ دیر کے لیے برخاست کرنا پڑی‘ صمدانی صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک سیکرٹری صاحب اُن کے پاس آئے اور اُنہیں جنرل ضیا سے معافی مانگنے کا مشورہ دیا جس پر صمدانی صاحب نے کہا کہ پہلے جنرل صاحب اپنے کہے پر نادم ہوں اور معافی مانگیں‘اُس کے بعد ہی وہ اپنے الفاظ واپس لے سکتے ہیں۔جسٹس جواد خواجہ نے یہ تاریخی واقعہ سنانے کے بعد کہا: ''مارشل لاء کے بامِ عروج پر ایک ملٹری ڈکٹیٹر کے سامنے اپنی‘ اپنے ساتھیوں اور اپنے ادارے و منصب کی ناموس کی پاسداری کی ایسی مثالیں ہماری قومی تاریخ میں کم ہی ملتی ہیں لیکن جج کے منصب کا تقاضا یہی ہے۔میری خواہش ہے کہ خدا ہماری عدلیہ کو حوصلہ‘ ہمت ‘ استقلال اور اپنے حلف سے وفاداری کا جذبہ عنایت کرے تاکہ وہ بلاخوف و خطر عوام کے حقوق کی پاسداری کا فریضہ سرانجام دے سکے‘‘۔اس کے ساتھ ہی اُن کے آخری الفاظ بلند ہوئے: ''اللہ تعالیٰ ہم سب کو جرأت اور ایمان دے‘‘۔ہال میں موجود ہر شخص کی زبان سے آمین نکلا۔ میرے ساتھ تشریف فرما ضیا الحق نقشبندی بھی اِس میں شریک تھے۔اس وقت آرمی ایکٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو درخواستیں زیر سماعت ہیں اُن میں ایک جسٹس خواجہ کی بھی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک سابق چیف جسٹس درخواست گزار بن کر اُس ایوان میں پہنچا ہے جس کی تیئس روز تک اُس نے سربراہی کی۔ جسٹس خواجہ کا دور مختصر ترین تھا لیکن اُنہوں نے اسے مثال بنا دیا۔اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کے حق میں اُن کا فیصلہ جگمگاتا رہے گا۔اُنہوں نے دستور کا تقاضا تو پورا کر دیا لیکن اُن کے بعد آنے والوں نے اِس کا پہرہ نہیں دیا۔وہ حکم ابھی تک ہوا میں معلق ہے۔جسٹس خواجہ کا کہنا تھا کہ اُن کا کوئی فیصلہ ایسا نہیں تھا جس پر عمل نہ کیا گیا ہو(اُن کا عرصہ ٔاختیار مختصر نہ ہوتا تو اردو زبان کا تحکم بھی قائم ہو چکا ہوتا)۔
خواجہ صاحب کے وکیل نے عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے جانے چاہئیں جبکہ پارلیمنٹ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف سے لے کر وزیر خارجہ بلاول بھٹو تک اس کے حق میں پُر زور دلائل دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ فوجی اداروں اور تنصیبات پر حملہ کرنے والے کتابِ قانون میں برسوں سے درج آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے مستحق ہیں‘اگر اُنہیں ڈھیل دی گئی تو پھر ہنگامہ پروروں کو کھلی چھوٹ مل جائے گی۔دستور میں دیا گیا کوئی بھی بنیادی حق کسی بھی شہری کو اجازت نہیں دیتا کہ قومی تنصیبات پر حملہ آور ہو۔ آزادی اور ذمہ داری کے درمیان توازن قائم رکھنا عدالت کے ساتھ ساتھ سیاست پر بھی لازم ہے۔ عدل کے ایوانوں کو ہر طرح کے خوف سے آزاد ہونا چاہیے۔اِس میں مقبولیت کم ہونے یا کھو دینے کا خوف بھی شامل کر لیجیے۔
بابا جاوید اقبال مرحوم
عارف والا میں روزنامہ ''پاکستان‘‘ کے نمائندے بابا شیخ جاوید اقبال اللہ کو پیارے ہو گئے۔وہ گزشتہ کئی دنوں سے بسترِ علالت پر تھے لیکن اُن کی محنت اور کمٹمنٹ میں کمی نہیں آئی تھی۔برسوں اُنہوں نے رفاقت کا حق ادا کیااور اُن سے تعلق محبت میں ڈھلتا چلا گیا۔ وہ ایک کاروباری شخصیت بھی تھے لیکن اپنے پیشہ ورانہ فرائض پوری جرأت اور وقار کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ کسی کو ڈراتے نہ کسی سے ڈرتے‘اُن کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے پہنچا تو سینکڑوں افراد ٹائون ہال میں جمع تھے۔اللہ پسماندگان کو صبر جمیل دے اور جنت میں اُن کے درجات بلند کرے۔ ایسے پُرخلوص کارکن ہی کاروانِ ِصحافت کو متحرک اور توانا رکھے ہوئے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں