پاکستان کے28ویں چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو چکے ہیں۔ وہ بیس ماہ اس منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اس سے پیشتر 27حضرات یہ عہدہ سنبھال چکے تھے‘ ہر ایک کی اپنی کہانی اور اپنی وراثت ہے۔ ایسے چیف جسٹس بھی گزرے ہیں کہ جن کا نام آتے ہی آج بھی سر ادب سے جھک جاتے ہیں اور ایسے بھی دیکھنے کو ملے جن کے بارے میں سنتے ہی آئین اور قانون کی کچھ بھی سدھ بدھ رکھنے والے سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے پہلے سربراہ جسٹس میاں عبدالرشید تھے۔ لاہور عدلیہ کا صدر دفتر تھا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان یہاں آئے تو چیف جسٹس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ جب رابطہ کیا گیا تو چیف صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ میرے سامنے ایک ایسا مقدمہ زیر سماعت ہے جس میں مرکزی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ میں حکومت کے سربراہ سے ملاقات کروں‘ اس سے فریقِ مخالف کے دِل میں شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کو بتایا گیا تو انہوں نے ارادہ بدل لیا۔ وہ کوئی معمولی شخص نہیں تھے‘ آل انڈیا مسلم لیگ کے برسوں سیکرٹری جنرل رہے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین میں قائداعظمؒ کے بعد اُن ہی کا نام سب سے معتبر تھا۔ اتنے جلیل القدر وزیراعظم سے ملاقات کو بھی فاضل چیف جسٹس نے انصاف کے تقاضوں کے خلاف جانا اور یوں ایک ایسی مثال قائم کر دی کہ جس کا آج بھی حوالہ دیا جاتا ہے تو سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ایسے ایسے چیف جسٹس بنے جو حکمرانوں سے ملنا باعثِ عزت گردانتے تھے۔ چیف جسٹس محمد منیر نے خود لکھا ہے کہ وہ جب بھی کراچی جاتے‘ گورنر جنرل ہاؤس جا کر مہمانوں کی کتاب میں اپنا نام لکھ آتے۔ گورنر جنرل کو فرصت ہوتی تو وہ یاد فرما لیتے۔ یاد رہے کہ اُن دنوں گورنر جنرل (اور وزیراعظم) ہاؤس کے بیرونی دروازے پر وزیٹر بُک رکھی ہوتی تھی‘ ملاقات کے خواہاں اپنا نام اور پتہ وہاں درج کر دیتے‘ صاحبِ خانہ مناسب سمجھتے تو شرفِ ملاقات بخش دیتے۔ یہ معمول جنرل ضیاء الحق کے دور تک برقرار تھا لیکن اب اس طرح کی کوئی کتاب کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ بہرحال عرض یہ کیا جا رہا تھا کہ پاکستان کو انواع و اقسام کے چیف جسٹس اور جسٹس صاحبان نصیب ہوتے رہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال سے پہلے27اصحاب اس منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ بندیال صاحب ایک نرم خو‘ متواضع اور منکسر المزاج شخص تھے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ وکیل کے طور پر بھی نام کمایا اور جج کے طور پر بھی نقش جمایا۔ وہ پنجاب کے ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں‘ اُن کا گاؤں بندیال سرگودھا کے قریب واقع ہے اور نسل در نسل اُن کا خاندان اس کا مالک و مختار رہا ہے۔ بندیال صاحب نے منصب سنبھالا تو عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کا مزہ چکھا جا رہا تھا‘ مخالف جماعتیں ان کے خلاف سرگرم عمل تھیں‘ یہاں تک کہ اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی گئی۔ قومی اسمبلی میں عمران خان اکثریت کھو چکے تھے لیکن ان کے نامزد کردہ ڈپٹی سپیکر نے یہ تحریک ایوان کے سامنے ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کے بجائے اس بنیاد پر مسترد کر دی کہ اُس کے پیچھے غیر ملکی سازش کار فرما ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا گلا گھونٹنے کے فوراً بعد وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس صدرِ پاکستان کو بھجوا دی۔ اُنہوں نے فوراً اسے منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو چلتا کر دیا۔ اس سے پہلے کہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جاتا اور اس مقصد کے لیے نگران حکومت قائم کرنے کی طرف پیش رفت ہوتی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش کرنا پڑی اور عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف کے لیے راستہ چھوڑ دیا۔ قومی اسمبلی تحلیل نہ کی جا سکی‘ البتہ خان صاحب نے اس میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف کے تمام اراکینِ قومی اسمبلی کو مستعفی ہونے کا حکم جاری ہوا‘ بھاری اکثریت نے جس کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دیا۔ راجہ ریاض کے زیر قیادت مٹھی بھر افراد نے بغاوت کا اعلان کیا اور آخر وقت تک اپنی نشستوں پر براجمان رہے۔ راجہ ریاض کو ننھی منی حزبِ اختلاف نے اپنا قائد چن لیا۔ عمران خان نے سڑکوں کا رُخ کیا‘ اُس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب بن چکا ہے۔ افواجِ پاکستان کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا‘ فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے نتیجتاً تحریکِ انصاف میں پھوٹ پڑی۔ عمران خان اور اُن کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد جیل میں ہے اور اُن کے متعدد ساتھی اپنی جماعتیں بنا چکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک کے زیر قیادت تحریک انصاف پارلیمنٹرین جنم لے چکی ہے جبکہ پنجاب میں جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی رہنمائی میں تحریک استحکام پاکستان نے اپنا پرچم لہرا دیا ہے۔ عمران خان کیساتھ کیا ہوا اور انہوں نے کس کیساتھ کیا کیا‘ یہ ایک الگ داستان ہے جس کے بیان کا یہ محل نہیں۔
ملک میں برپا سیاسی کشمکش کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو متعدد سیاسی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا‘ سو موٹو نوٹس بھی آزمائش بنے۔ سپریم کورٹ کے ججوں میں اختلافِ رائے پیدا ہوا‘ زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے اُن کی متضاد آرا سامنے آتی رہیں۔ جسٹس بندیال نے اپنے ہم خیال ججوں پر مشتمل بنچ بنا کر اہم معاملات سے نپٹنے کا عمل جاری رکھا۔ اُن کے سینئر ساتھی کھڈے لائن لگا دیے گئے‘ مطالبہ ہونے لگا کہ دو یا تین ججوں کے بجائے معاملات فل کورٹ کے سامنے رکھے جائیں لیکن فاضل چیف جسٹس مان کر نہیں دیے۔ انہوں نے تکنیکی عینک سے معاملات کو دیکھا اور سپریم کورٹ کا رعب کم ہوتا چلا گیا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز کے اندر الیکشن نہ کرائے جا سکے وہاں ابھی تک نگران حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کا حکم ہوا میں اُڑ گیا کہ اس کے اندر کی تقسیم نے ماحول کو آلودہ کر دیا تھا۔ تین‘ چار ہم خیال ججوں نے اپنا فیصلہ نافذ کرانے کے لیے کوئی اقدام نہ کیا اور یوں سپریم کورٹ کسی دینی مدرسے کا دارالافتا بنتی نظر آئی۔ جاتے جاتے جناب چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نیب کے قانون میں پی ڈی ایم حکومت کے دوران پارلیمنٹ سے منظور کی جانے والی ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ بنچ کے ایک فاضل رکن‘ جسٹس منصور علی شاہ نے اس سے شدید اختلاف کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ ترامیم کے خلاف دائر کردہ درخواست قابلِ سماعت ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس انصاف کے ایوانوں سے رخصت ہو چکے ہیں‘ اُن کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر ہو گی تو نیا بنچ تشکیل دیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کے لیے لارجر بنچ بنا دیں یا فل کورٹ تشکیل دے دیں‘ اس کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ پاکستان میں احتساب کے نام پر رچایا جانے والا تماشہ کب تک اور کس انداز میں جاری رہے گا۔
سب کی دُعا ہے کہ نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو ایک ادارے کے طور پر قائم کرنے کا موقع دیں‘ ماضی میں ''فردِ واحد‘‘ جس طرح اسے گرفت میں لیتے رہے ہیں‘ وہ قصۂ ماضی بن کر رہ جائے۔ آئین نے سپریم کورٹ کو جو اختیارات دیے ہیں‘ انہیں چیف جسٹس سلب نہیں کر سکتا کہ سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس کا نام نہیں۔ چیف جسٹس اور تمام جج صاحبان مل کر عدالت کی تشکیل کرتے ہیں اور جج کے طور پر سب برابر ہیں۔ فردِ واحد کی عدالت کا خاتمہ اہلِ پاکستان کی آرزو ہے اور یہ نئے چیف جسٹس کی ترجیح بھی ہونی چاہیے‘ تاریخ اُن کا منہ دیکھ رہی ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)