پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ نے پینتالیس سال پہلے ایک مقدمۂ قتل میں پھانسی کی سزا سنائی تھی یا یہ کہیے کہ لاہور ہائیکورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ بینچ کی سربراہی اس کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کر رہے تھے جبکہ سپریم کورٹ کے سات رُکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس انوار الحق تھے۔ اُن دنوں سپریم کورٹ سات ججوں پر مشتمل تھی‘ گویا فل کورٹ نے ان کی اپیل سنی تھی‘ فاضل چیف جسٹس کو اپنی مرضی کا بینچ بنانے کی ''توفیق‘‘ نہیں ہوئی تھی‘ اگر وہ چاہتے تو اپنی صوابدید کے مطابق تین ججوں کا بینچ بنا کر معاملہ ان کے سپرد کر دیتے‘ لیکن انہوں نے ''پک اینڈ چوز‘‘ کا الزام اپنے سر نہیں لیا۔ مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے ایک دبنگ جج سمجھے جاتے تھے‘ان کے سامنے پیش ہونے والے ملزموں پر کپکپی طاری رہتی تھی‘ ان کی عدالت کے سامنے سے گزرنے والے بھی اپنی زبانیں دانتوں میں دبا لیتے تھے‘ اور یوں قدم اُٹھاتے تھے کہ آواز پیدا نہ ہو پائے۔انہی مولوی صاحب نے ایوب دور میں قید ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت کی درخواست منظور کی تھی‘ اور ان کے خلاف سرگرم نواب کالا باغ (+ایوب خان) بھونچکے رہ گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار لاہور آئے تو پنجاب یونیورسٹی کے وسیع و عریض فیصل آڈیٹوریم میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا‘اس میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان بھی مدعو تھے۔ مولوی صاحب اپنے رفقا کے ساتھ پہلی صف میں براجمان تھے‘ وزیراعظم بھٹو ہال میں داخل ہو کر تیزی سے سٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ان کی نظر مولوی صاحب پر پڑی‘انہوں نے راستہ تھوڑا سا بدلا‘ اور ان کے پاس جا کر کورنش بجا لائے‘یہ منظر میری آنکھوں نے بھی محفوظ کر لیا۔ سمجھا یہی جا رہا تھا کہ مولوی صاحب اپنی سنیارٹی کے مطابق چیف جسٹس کا منصب بآسانی حاصل کر لیں گے‘ لیکن جب یہ موقع پیدا ہوا تو بھٹو صاحب نے (شاید) آٹھویں یا نویں نمبر کے جج جسٹس اسلم ریاض حسین کو چیف جسٹس مقرر کر دیا۔مولوی صاحب اس پر تلملا کر رہ گئے کہ اُن کی شہرت ایک ایسے سخت گیر منصف کی تھی‘جو اپنے ساتھ بھی ''ناانصافی‘‘ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ مولوی صاحب کے سامنے ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں‘ لیکن انہوں نے حکومت کے لیے یہ آسانی پیدا نہیں کی۔نئے چیف جسٹس کے ماتحت کام کرنا بھی گوارا نہیں تھا‘ سو طویل رخصت پر چلے گئے۔جب تک اسلم ریاض حسین چیف جسٹس رہے‘ مولوی صاحب کورٹ میں نہیں آئے‘ یہاں تک کہ مارشل لاء نے بھٹو اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
مارشل لاء نے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کو گورنر کا منصب سنبھالنے کے لیے کہا‘یوں وہ قائم مقام گورنر کے طور پر فرائض ادا کرنے لگے‘ جہاں تک مجھے یاد ہے چیف جسٹس کا منصب(عارضی طور پر ہی سہی) خالی ہوا تو مولوی مشتاق حسین قائم مقام چیف جسٹس بنا دیے گئے۔ مولوی صاحب کی ''عزتِ نفس‘‘ بحال ہو گئی۔ یوں مارشل لاء ان کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
جسٹس انوار الحق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک آئینی ترمیم کر کے چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد چار سال مقرر کر دی‘ چیف جسٹس کی بطور جج ریٹائرمنٹ کی تاریخ آ جاتی تو بھی انہیں چار سالہ مدت (Tenure) پوری کرنا پڑتی۔ چیف جسٹس یعقوب علی خان کو اس کا فائدہ یوں پہنچا کہ وہ ریٹائر ہونے کے باوجود چیف جسٹس برقرار رہے‘ ان کی جگہ انوار الحق منصب نہ سنبھال سکے‘جب بھٹو صاحب کی اپیل ان کے سامنے زیر سماعت آئی تو یہ معاملہ وہاں اُٹھایا گیا کہ ان کے دل میں اس کی وجہ سے آنے والا بال بھٹو صاحب کے خلاف منفی جذبات پیدا کرنے کا موجب بن سکتا تھا لیکن جسٹس انوار الحق نے اس اعتراض کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ وہ اس آئینی ترمیم سے منفی طور پر متاثر نہیں ہوئے‘اس لیے ان کے دل میں کوئی رنجش نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کی آئینی مدت چار سال مقرر ہونے کی وجہ سے‘ان کی کوئی حق تلفی نہیں ہوئی‘ چیف جسٹس یعقوب علی کے ریٹائر ہونے کے بعد اُنہیں بھی چار سال چیف رہنے کا موقع مل جانا تھا‘وہ ریٹائرمنٹ کی عمر پر پہنچنے کے باوجود ریٹائر نہ ہوتے‘ چار سال پورے کر کے رخصت ہوتے۔یوں بھٹو صاحب کی آئینی ترمیم نے ان کو منفی طور پر متاثر نہیں کیا‘ان کی مدتِ ملازمت میں کمی نہیں کی‘ اور ان کا راستہ بھی نہیں روکا۔
دونوں چیف جسٹس صاحبان نے اپنے اپنے ضمیر کے اطمینان کے مطابق مقدمے کی سماعت کی‘لاہور ہائی کورٹ کے برعکس سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ماحول خوشگوار رہا‘ یہاں تک کہ فیصلہ سنا دیا گیا۔سات رکنی فل کورٹ کے چار ججوں نے انہیں پھانسی کا مستحق گردانا جبکہ تین ججوں نے انہیں (شک کا فائدہ دے کر) بری کر دیا۔چار تین کے اس فیصلے کے بعد سمجھا جا رہا تھا کہ حکومت کے لیے اُنہیں پھانسی پر لٹکانا مشکل ہو گا۔صدرِ پاکستان سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بھٹو مرحوم نے جب نظرثانی کی اپیل دائر کی تو اسے سات ججوں نے اتفاقِ رائے سے مسترد کر دیا‘انہیں بری کرنے والوں نے بھی(بالواسطہ طور پر) ان کی پھانسی پر توثیق کی مہر ثبت کر دی۔
نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار نے جو بھٹو دور میں اٹارنی جنرل مقرر کیے گئے تھے‘اور جسٹس اسلم ریاض حسین کے ذاتی دوست بھی تھے‘یہ نکتہ اٹھایا کہ اگر بھٹو صاحب ارادۂ قتل کے مرتکب پائے گئے ہیں تو بھی انہیں موت کی سزا نہیں سنائی جا سکتی۔عدالت نے ان کی دلیل یہ کہہ کر رد کر دی کہ انہوں نے اپیل کی سماعت کے دوران اِس نکتے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا۔اسی بات پر زور دیتے رہے تھے کہ بھٹو صاحب بے گناہ ہیں‘انہوں نے احمد رضا قصوری کے قتل کا کوئی حکم جاری کیا‘ نہ خواہش ظاہر کی۔اس لیے انہیں بری کر دیا جائے۔جب چار جج صاحبان نے ان کا مؤقف مسترد کر دیا‘اور بھٹو صاحب کو نہ صرف ارادۂ قتل کا مرتکب قرار دیا بلکہ ان کی مرکزی ملزم کی حیثیت بھی برقرار رکھی تو نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران انہوں نے اپنے دلائل میں تبدیلی کر لی۔
فقہ وکٹوریہ کے تحت نظرثانی کے دوران کوئی نئی دلیل نہیں دی جا سکتی تھی‘ نہ ایسا نکتہ اٹھایا جا سکتا تھا‘جو اپیل کی سماعت کے دوران نہ اٹھایا گیا ہو۔ فل کورٹ کے تمام ارکان نے متفقہ طور پر یحییٰ بختیار کی بات رد کرتے ہوئے پھانسی کے فیصلے کی توثیق کر دی۔چیف جسٹس افتخار چودھری‘ چیف جسٹس ثاقب نثار اور کئی دوسرے جج صاحبان نے برسوں بعد جو انداز اختیار کیا‘ اور آئین و قانون کی حدود سے باہر نکل کر جو چوکے اور چھکے مارے‘اگر ان کے پیشروئوں کو اس کا تھوڑا بہت خیال بھی آ جاتا تو نظرثانی کی درخواست منظور ہو سکتی تھی اور یوں بھٹو صاحب تختۂ دار پر لٹکنے سے محفوظ رہ سکتے تھے۔(جاری )
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)