52سالہ انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی پاکستان کے چھٹے امیر کے طور پر اپنے منصب کا حلف اُٹھا لیا۔ حلف برداری کی تقریب جماعت کے صدر دفتر منصورہ میں منعقد ہوئی جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ سبکدوش ہونے والے امیر سراج الحق بھی اس موقع پر موجود تھے۔ دونوں حضرات بغل گیر ہوئے تو آنسو نہ روک سکے۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ میں اپنے سے بہتر آدمی کے لیے جگہ خالی کر رہا ہوں۔ انہوں نے یہ کہہ کر بھی دلوں کو چھو لیا کہ یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتے کہ وہ ایک مثالی امیر تھے لیکن یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک مثالی کارکن تھے۔ انجینئر حافظ نعیم الرحمن نے غزہ کے کشتگانِ ستم کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی قونصل خانے کے قریب احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا اور زور دے کر یہ بات بھی کہی کہ وہ فارم 47کی پیداوار جعلی حکمرانوں کو نہیں مانتے‘ اُن کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز کریں گے۔
83سال پہلے اسی لاہور شہر کے ایک چھوٹے سے مکان میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی تھی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اس کے پہلے امیر کا منصب سنبھالا تھا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے اسی شہر کے وسیع و عریض منٹو پارک میں ملک بھر سے جمع ہونے والے مسلم لیگ کے کارکنوں نے قراردادِ لاہور منظور کی تھی‘ جسے قراردادِ پاکستان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس قرارداد میں پہلی بار مسلم اکثریتی علاقوں کو ہندوستان سے الگ کرنے کی تجویز پیش کرکے اسلامیانِ ہند کے لیے منزل کا واضح تعین کر دیا گیا تھا۔ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو کر الگ وطن کے نعرے لگانے لگی۔ 14اگست 1947ء کو یہ مقصد حاصل کر لیا گیا۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے 72رفقاء نے جس جماعت کی بنیاد رکھی تھی وہ معروف معنوں میں کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی‘ نہ ہی اُس کے مطالبات سیاسی تھے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کے تو پُرجوش حامی تھے لیکن انہوں نے اپنے دعوتی پروگرام کو اپنے انداز میں جاری رکھا اور جماعت اسلامی کے کارکن منظم ہوتے چلے گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان کو ایک اسلامی مملکت بنانے کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا اور جماعت اسلامی کے سیاسی کردار میں اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ جماعت اسلامی سے اُمیدیں باندھ لی گئیں کہ وہ 1970ء کے انتخابات کے دوران شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کے درمیان ایک ایسی طاقت بن کر اُبھرے گی‘ توازن جس کے ہاتھ میں ہو گا۔ اس مقصد کے حصول میں اُسے کئی دوسری جماعتوں کی حمایت حاصل ہونے کی بھی توقع تھی لیکن انتخابی نتائج نے اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مشرقی پاکستان میں تو انتخابی مہم کے دوران ہی کایا پلٹ گئی جبکہ مغربی پاکستان میں انتخابی نتائج نے ماحول کو دھندلا دیا۔
کہا جا سکتا ہے کہ اگر انتخابات مارچ یا اپریل 1970ء میں ہو جاتے تو نتائج بہت حد تک مختلف رہتے۔ انتخابی مہم کی بے جا طوالت نے فضا کو مکدّر کیا‘ جماعت اسلامی اور اُس کی ہم خیال جماعتوں کے وسائل کم ہوتے چلے گئے جبکہ مخالف عناصر کو کمک میسر آتی گئی۔ پاکستان شیخ مجیب الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل یحییٰ خان کے رحم و کرم پر تھا‘ ان میں سے کوئی بھی اپنی ذات سے اُٹھ کر معاملہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔
1970ء کے انتخابات کے بعد مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے علالت کی بنیاد پر معذرت کر لی تو میاں طفیل محمد نے امارت کا منصب سنبھالا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر اپنے آپ میں کھو گیا۔ مولانا کے جانشین کے طور پر تین نام منظر عام پر آئے تھے۔ پروفیسر غلام اعظم‘ پروفیسر خورشید احمد اور میاں طفیل محمد۔ میاں صاحب طویل عرصہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور بعد ازاں مغربی پاکستان کے امیر رہے تھے۔ جماعت کے اراکین نے انہیں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی مسند پر بٹھا دیا۔ پاکستانی سیاست میں جماعت کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اراکینِ جماعت اپنا امیر باقاعدہ منتخب کرتے ہیں۔ مجلسِ شوریٰ تین نام تجویز کر دیتی ہے‘ اُن میں سے کسی ایک کو چن لیا جاتا ہے۔ کوئی امیدوار نہیں بنتا‘ کوئی کنویسنگ نہیں ہوتی‘ کوئی انتخابی مہم نہیں چلتی۔ اپنے آئین کے مطابق جماعت کے اراکین اپنے سربراہ کو چن لیتے ہیں‘ انہوں نے اسے موروثی یا نسلی یا علاقائی نہیں بننے دیا۔ بھٹو دور میاں طفیل محمد کی قیادت میں گزرا۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان تلخی نقطۂ عروج پر پہنچی‘ میاں طفیل محمد کو جیل میں بدسلوکی اور بدتمیزی کا نشانہ بنایا گیا۔ بھٹو صاحب کے خلاف بننے والے پاکستان قومی اتحاد میں جماعت اسلامی نے قائدانہ کردار ادا کیا‘ اس کے ایک معتبر رہنما پروفیسر عبدالغفور احمد اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ اس سے پہلے پروفیسر صاحب کے زیر قیادت جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی 1973ء کے دستور کو متفقہ بنانے میں بہت اہم کردار ادا کر چکی تھی۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بھی اُس میں بھرپور حصہ ڈالا تھا۔ اس سے بھی پہلے ذوالفقار علی بھٹو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے جنگی قیدیوں کی واپسی اور مقبوضہ علاقوں کی بازیابی کے لیے بات چیت کرنے بھارت روانہ ہونے لگے تھے تو میاں طفیل محمد نے اُنہیں لاہور کے ہوائی اڈے پر جا کر رخصت کیا تھا تاکہ بھارت کے مقابلے میں پورا پاکستان ایک ساتھ کھڑا نظر آئے۔ معاہدہ شملہ اور متفقہ دستور کی منظوری کے بعد بھٹو اقتدار نے تیور بدل لیے‘ اپوزیشن کا جینا حرام کر دیا‘ 1977ء کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی کی‘ اُن کے خلاف بننے والے قومی اتحاد نے ایسی تحریک چلائی کہ فوجی مداخلت کے ذریعے اُن کے اقتدار کا خاتمہ ممکن ہو گیا۔ میاں طفیل محمد نے بھٹو اقتدار کے خاتمے کے بعد جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران اپنی جماعت کو آگے بڑھایا اور 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں اپنے وجود کا احساس دِلا دیا۔
میاں طفیل محمد رخصت ہوئے تو قاضی حسین احمد نے امارت سنبھالی۔ اُن کے دور میں اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔ میاں نواز شریف کا اتحادی بن کر پارلیمانی طاقت میں اضافہ کیا گیا لیکن پھر جلد ہی راستہ الگ کر لیا۔ بعدازاں متحدہ مجلسِ عمل کی بنیاد رکھی گئی۔ مذہبی جماعتوں کے ساتھ جماعت کے مراسم کو بہتر بنایا اور نمایاں کامیابی حاصل کر لی۔ خیبرپختونخوا میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت قائم ہوئی تو مرکز میں حزبِ اختلاف کی قیادت اس کے ہاتھ آئی۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں بیرونِ ملک بھجوا دیے گئے تھے‘ اُن کی غیرموجودگی میں متحدہ مجلس عمل جگہ گھیرتی گئی۔ قاضی صاحب کا دور گزرا‘ سید منور حسن مسندِ امارت پر رونق افروز ہوئے‘ پھر سراج الحق نے رونق دوبالا کی۔ منور حسن اور سراج الحق بے لوث کارکن تھے۔ تقویٰ اور سادگی کی تصویر لیکن ان دونوں کے زیر قیادت جماعت اسلامی کی پارلیمانی طاقت میں اضافہ نہ ہو سکا۔ اب انجینئر حافظ نعیم الرحمن امیر بنے ہیں تو اُن سے توقعات قائم ہو رہی ہیں۔ وہ بھی اپنے دو پیشروؤں‘ سراج الحق اور سید منور حسن کی طرح جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر کے طور پر جماعت اسلامی کی پرانی وسعتوں اور رفعتوں کی بازیابی کی کامیاب کوشش کر چکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے متعلقین اور متوسلین کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ جماعت انتخابی سیاست میں موثر کردار ادا کرے۔پاکستان کے منتخب ایوان اس سے خالی نہ رہیں۔انجینئر حافظ صاحب اس کا نقشہ کیسے بنائیں گے اور اس کے مطابق ایوانِ اقتدار نہ سہی تو ایوانِ سیاست ہی کی تعمیر میں حصہ کیسے ڈال سکیں گے؟ اس کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔ سو‘ انتظار فرمایئے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)