پاکستان جب قائم ہو رہا تھا تو اس کے مخالف اس امید میں سرشار تھے کہ اس کے باسیوں پر جو اپنی علیحدہ قومیت اور شناخت کا بھوت سوار ہو چکا ہے‘ وہ چند ہی ماہ میں اتر جائے گا اور یہ ترلے‘ منتیں کریں گے کہ ہمیں انڈین یونین میں واپس لے لو۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا... ایک بار پھر ان کا قومی ترانہ بن جائے گا۔ بڑے بڑے معاشی ماہرین کے نزدیک پاکستانی معیشت کو مشکلات میں مبتلا رہنا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ سے جب ایک برطانوی اخبار نویس نے اس حوالے سے سوال پوچھا تو انہوں نے جوابی سوال پوچھ لیا: اگر تمہارے سامنے یہ چوائس ہو کہ تمہیں ایسا خوشحال برطانیہ چاہیے جو جرمنی کا غلام ہو یا ایک آزاد ملک جو معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہو تو تم کیا فیصلہ کرو گے؟ جرمنی کی غلامی قبول کر لو گے یا ایک آزاد مملکت کے شہری رہنا پسند کرو گے؟ اس سوال کا جواب یہی ہو سکتا تھا اور یہی انہیں بھی دیا گیا کہ آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ؎
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
اندازہ تھا کہ نئی ریاست کو مشکلات درپیش ہوں گی‘ اسے طاقت بنانے کے لیے جتن کرنا پڑیں گے لیکن ہر شخص پُرعزم تھا کہ اپنی دنیا آپ بنا لی جائے گی۔ آزادی کا اعلان ہوا تو پنجاب‘ بہار اور بنگال میں فسادات پھوٹ پڑے۔ بڑے پیمانے پر آبادیوں کا انخلا شروع ہو گیا۔ تقسیمِ ہند کے منصوبے میں یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقوں سے غیرمسلم اور ہندو اکثریتی علاقوں سے مسلمان اپنا وطن چھوڑ جائیں گے۔ انہیں اپنے اپنے ملک میں رہنا تھا لیکن آزادی ملتے ہی جو کچھ ہوا‘ اس کا تصور آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے‘ قتل کئے گئے‘ عورتوں کی بے حرمتی کی گئی اور پاکستان کی نئی مملکت کو قائم ہوتے ہی مہاجرین کی آباد کاری کے ایک ایسے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا جس کے بارے میں سوچا تک نہیں گیا تھا۔ ہندوستان بھی اس سے دوچار ہوا لیکن پاکستانی علاقوں سے ترکِ وطن کرنے والوں کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے بہت کم تھی۔ اس پر پڑنے والا بوجھ بھی نوزائیدہ پاکستانی ریاست کے مقابلے میں بہت کم رہا۔
ہندوستان ایک بنی بنائی اور جمی جمائی ریاست کے طور پر موجود تھا لیکن پاکستان کا تو پورا ڈھانچہ از سرِ نو کھڑا کرنا تھا۔ اس کی انتظامیہ تھی نہ عدلیہ‘ نہ کوئی اور ادارہ لیکن تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود نئی ریاست کو کھڑا کر لیا گیا۔ ہندوستانی حکومت اگر بڑے بھائی کا کردار ادا کرتی اور پاکستان کو انگریزوں کے ترکے میں سے اس کا جائز حصہ فی الفور ادا کرکے ہر قدم پر اس کا ہاتھ بٹاتی تو آج نقشہ مختلف ہوتا۔ یہاں تو یہ ہوا کہ نئی دہلی کی حکومت نے نہ صرف پاکستان کے حصے کے پیسے روک لیے بلکہ قدم قدم پر مشکلات کھڑی کیں تاکہ پاکستانی ریاست زمین بوس ہو جائے۔ تناؤ اور کشیدگی کے ماحول نے دونوں ملکوں میں معاندانہ جذبات کو ہوا دے دی...پاکستان بنانے والوں نے ہر چیلنج قبول کیا لیکن پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ وہ آگے ہی دیکھتے اور آگے ہی بڑھتے رہے یہاں تک کہ پوری دنیا میں نئی ریاست کی دھاک بیٹھ گئی۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت نے جمہوری اصولوں کی پاسداری کا عہد کیا‘ دنیا کے سامنے پہلی بار ''اسلامی جمہوریہ‘‘ کا تصور پیش کیا تو ہر طرف سے داد ملی۔ دنیا کے نقشے میں ہونے والے اس نئے اضافے کو امید اور تائید کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا... پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان امریکہ کے دورے پر پہنچے تو ان کی جس طرح پذیرائی ہوئی اور انہوں نے پاکستان کے نظریے‘ اس کے مقاصد اور اس کے اہداف پر جس طرح روشنی ڈالی‘ اس نے ایک عالم کو مبہوت کر دیا۔
پاکستان نے ترقی کے راستے پر سفر شروع کیا تو چوکڑیاں بھرنے لگا‘ کارخانے بنتے چلے گئے‘ دفاعی ادارے کھڑے ہوتے گئے‘ سیاسی نظم قائم ہونے لگا اور پاکستانی قوم پورے اعتماد سے آگے بڑھنے لگی۔ آج جو یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے 76‘ 77 سال ضائع کر دیے اس میں ایک فیصد بھی سچائی نہیں ہے۔ پاکستان نے اپنے وجود کو منوایا اور ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرتا نظر آیا... بلندی پر پہنچ کر ہم واپس آئے ہیں‘ ایسا نہیں ہے کہ پستی اول روز ہی سے ہمارے مقدر میں لکھی ہوئی تھی۔ پاکستانی قوم کا یہ حال کیوں ہوا اور اس کی ترقی‘ تنزلی میں کیسے بدل گئی یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم سب کو اپنے اپنے طور پر غور کرنا چاہیے‘ ہر شخص اور ادارہ اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے تو بہت کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہم اپنے نظمِ اجتماعی کی حفاظت نہیں کر سکے۔ ہم نے جو دستور بنایا اس کے مطابق اپنے معاملات نہیں چلا سکے۔ ہمارے طاقتوروں نے اپنے ہی دستور کو روند ڈالا اور اپنے حصے کے کام کی طرف توجہ دینے کے بجائے دوسروں کی ذمہ داریاں سنبھالنا شروع کر دیں۔ انتظامیہ‘ مقننہ اور عدلیہ سب آپے سے باہر ہو گئے۔ فوجی قیادت نے ہر ذمہ داری اپنے سر لے لی‘ نتیجہ سامنے ہے۔ پاکستان دولخت ہوا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا اور اب چاروں صوبے بھی سنبھالے نہیں جا رہے۔ اہلِ سیاست سبق سیکھنے کو تیار ہیں‘ نہ اہلِ طاقت۔ ہم ایٹمی طاقت تو بن گئے لیکن ہماری سیاست اور معیشت کی پسماندگی نے جینا دو بھر کر رکھا ہے... دھینگا مشتی جاری ہے۔ جب ہمارے وسائل بہت کم تھے اس وقت وزیراعظم لیاقت علی خان نے مکّہ لہرایا تھا تو بھارت نے فوجیں سرحدوں سے واپس بلا لی تھیں۔ آج جبکہ ہم ایٹمی طاقت ہیں‘ ہمیں جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ قرضوں کا بوجھ ہماری کمر کو توڑ رہا ہے لیکن ہم ایک دوسرے کا سر توڑنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں... اگر سب کامیاب ہو گئے تو سب ہی کے سر ٹوٹ جائیں گے۔ عدلیہ‘ مقننہ اور دفاعی ادارے ایک دوسرے کی طاقت بننے کے بجائے ایک دوسرے کی کمزوری بن رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو کمزور بنانے میں لگے ہیں۔ دل‘ جگر‘ ہاتھ‘ پاؤں‘ دماغ اور آنکھیں ایک دوسرے سے الجھ گئے‘ سب کام سے گئے تو جسد خاکی بھی کسی کام کا نہیں رہے گا: کام کے نہ کاج کے‘ دشمن اناج کے!
ایک مضحکہ خیز الزام
ایف آئی اے نے آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو ''ڈپلومیٹک پاسپورٹ‘‘ استعمال کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا۔ ان پر یہ مضحکہ خیز الزام ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کا دورہ اس پاسپورٹ پر کیا تھا۔ یہ خبر بھی آئی کہ ان پر کئی اور بے سروپا الزامات میں بھی مقدمات گھڑے جا رہے ہیں۔ آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم کے ساتھ یہ بدسلوکی مقبوضہ کشمیر کو کیا پیغام دے گی‘ بھارت کے ہاتھ کیسے مضبوط کرے گی اور تحریک آزادیٔ کشمیر کو کیا صدمہ پہنچائے گی‘ اس پر غور کرنے کی کسی کو فرصت ہے نہ ضرورت۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنے آپ سے محفوظ رکھے۔ ہمیں سب سے بڑا خطرہ اپنے آپ سے ہے؎
گِلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی 'ہَری ہَری‘
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)