اہلِ پاکستان نے یہ منظر حیرت کی نگاہ سے دیکھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تیسرے مشترکہ مشاورتی اجلاس میں مہمان چینی وزیر لیو جیان چاؤ کے ساتھ کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندے موجود تھے۔ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ(ن)‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام وغیرہ وغیرہ کی طرف سے بیک زبان سی پیک کے دوسرے مرحلے کو پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے لازم قرار دیتے ہوئے برملا اعلان کیا گیا کہ پاک چین دوستی ہمارے سیاسی اختلافات سے بالاتر ہے۔ مہمان وزیر نے چین کی ترقی کا راز سیاسی استحکام کو قرار دیا کہ اسی کے ذریعے اسے بلندیوں کا سفر نصیب ہوا ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی کوئی ایک دن‘ ایک ماہ یا ایک سال کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ عشروں پر پھیلی ہوئی ہے اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے رکھا ہے۔ امریکہ سے جب پاکستان کے تعلقات انتہائی دوستانہ تھے اور دونوں معاہدوں میں بندھے ہوئے تھے‘ اس وقت بھی پاکستان نے چین کو امریکہ کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی‘ پاکستان چین کو اپنی آنکھ سے اور اپنے مفادات کے زیر اثر دیکھتا رہا۔ اس وقت کا تصور کیجیے جب فارموسا (تائیوان) تک چیانگ کائی شیک کی حکومت محدود ہو گئی تھی‘ چین کی وسیع و عریض سرزمین پر چیئرمین ماؤزے تنگ اور ان کی کمیونسٹ پارٹی کا پرچم لہرا رہا تھا لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی تائیوان ہی کو چین قرار دیتے اور کمیونسٹ چین کے سفارتی وجود سے انکار پر بضد تھے۔ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں چین کے لیے مختص مستقل نشست پر چیانگ کائی شیک (اور اس کے جانشین) قابض تھے۔ ایسے وقت میں پاکستان نے نہ صرف چین کو تسلیم کیا بلکہ اس کو جائز مقام دلانے کے لیے پوری شدت سے آواز بلند کرتا رہا۔ اس حوالے سے امریکی دباؤ کو کبھی خاطر میں نہیں لایا۔ پاکستان نے چین سے اپنے سرحدی معاملات بھی طے کیے اور اس کے ساتھ اپنے بارڈر کو امن کی سرحد بنا دیا۔ امریکہ کے زیر اثر دنیا جب چین کا سماجی اور معاشی مقاطعہ کیے ہوئے تھی‘ اس وقت پی آئی اے اسے دنیا سے جوڑنے میں لگی تھی۔ جب چینی ہندی بھائی بھائی کے نعرے بھارت اور چین کی فضاؤں میں گونجتے تھے اس وقت بھی پاکستان چین سے بدگمان نہیں تھا۔ 1962ء کی چین بھارت جنگ نے امریکہ کو بھارت سے جوڑ دیا‘ اور اسے مسلح کرنے کے لیے امریکی بے تابی سے دوڑ بھاگ کرتے نظر آئے تو پاکستان نے اس بے وفائی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔ امریکہ نے اپنے وعدوں اور معاہدوں کے برعکس پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر بھارت کو امریکی اسلحہ کی فراہمی شروع کر کے خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ دیا تھا۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ میں چین نے پاکستان کا جس واشگاف انداز میں ساتھ دیا‘ اس نے چین کو پاکستان کا عوامی دوست بنا دیا۔ پاک چین دوستی‘ کمروں اور ایوانوں سے نکل کر میدانوں بلکہ دِلوں تک پہنچ گئی۔ پورا پاکستان چین کے لیے نعرہ ہائے تحسین بلند کرنے لگا۔ جنگ کے بعد وزیراعظم چو این لائی اور وزیر خارجہ چن ژی (جنہیں پاکستانی ''چن جی‘‘ کہنے لگے تھے) پاکستان آئے تو لوگ دیوانہ وار ان کے استقبال کے لیے اُمڈ آئے۔ لاہور میں ان کا استقبال دیدنی تھا کہ ایک کھلی جیپ میں سوار دونوں معزز مہمان ہاتھ ہلاتے شاہراہوں سے گزر رہے تھے۔ ایئر پورٹ سے مال روڈ تک میلوں لمبے راستے پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
پاک چین دوستی نے جنوبی ایشیا میں توازن قائم کیا‘ یہ اور بات کہ ہماری قیادتیں اپنے داخلی معاملات کی طرف متوجہ نہیں ہوئیں‘ انہیں بگاڑا اور نقصان اُٹھایا۔ 1971ء کی جنگ میں چینی مشوروں کو نظر انداز کیا گیا اور نشے میں دُھت یحییٰ خان نے جغرافیہ بدل ڈالا۔ چین کے ساتھ امریکہ کے براہ راست رابطے کا اہتمام ہماری مشکلات میں اضافے کا سبب بن گیا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر پاکستان کے راستے چین کے خفیہ دورے پر پہنچے اور عالمی سیاست تبدیل ہو گئی۔ سوویت یونین تلملا اُٹھا اور خونخوار نگاہوں سے پاکستان کو گھورنے لگا۔ یحییٰ خان کو اس ''کارنامے‘‘ پر ملنے والی امریکی شاباش نے مزید مدہوش کر دیا۔ وہ مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کر گزرا کہ امریکہ کو اپنی پشت پر سمجھ بیٹھا تھا۔ سوویت یونین نے بھارت سے ''دوستی کا معاہدہ ‘‘ کرکے پاکستان کو سبق سکھانے کی تیاری شروع کر دی۔ پاکستان کی منہ زور اور غیر آئینی فوجی قیادت نے داخلی استحکام کے تقاضے نظر انداز کیے اور مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر توجہ نہیں دی‘ نتیجتاً منہ کی کھائی۔ پاکستان نہ صرف دو لخت ہوا بلکہ اس کی فوج کو سرنڈر کی ذلت بھی اٹھانا پڑی۔
مہمان چینی وزیر نے اپنی ترقی کا راز سیاسی استحکام میں مضمر قرار دیا ہے تو اس پر سب اہلِ وطن کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ چین میں ''نظریاتی حکومت‘‘ ہے‘ وہاں صرف کمیونسٹ پارٹی کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ وَن پارٹی سسٹم نے اسے جو داخلی استحکام بخشا وہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کثیر الجماعتی پارلیمانی نظام میں پھنسا ہوا ہے‘ یہاں سیاسی جماعتیں اپنی توانائیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ضائع کرتی رہی ہیں اور کر رہی ہیں۔ ان کی دھما چوکڑی فوجی مداخلت کا ''جواز‘‘ بنائی جاتی رہی ہے۔ یہاں ''وَن پارٹی سسٹم‘‘ تو شاید قائم نہ کیا جا سکے لیکن سیاسی جماعتیں دستور کے دائرے میں رہ کر اپنے اختلافات کو سمیٹ تو سکتی ہیں‘ بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اگر ہمارے اہلِ سیاست فری سٹائل دنگل لڑتے رہیں گے تو کسی دوست ملک کی بھرپور معاونت بھی ان کے کام نہیں آ سکے گی۔ بیرونی تعاون اسی وقت نتیجہ خیز ہو گا جب ہم داخلی تضادات پر قابو پا لیں گے۔ سی پیک پر قومی اتفاقِ رائے کا اعلان ایک اچھا قدم ہے لیکن یہ پہلا قدم ہونا چاہیے‘ آخری نہیں۔ سیاسی استحکام کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘ سو کمرِ ہمت کَس لیجیے‘ ایک دوسرے کو زندہ رہنے کا حق دیجیے اور آگے بڑھتے جائیے۔ ترقی کا راستہ یہی ہے‘ یہی ہے اور یہی ہے۔
ممتاز اقبال ملک مرحوم
برادرِ عزیز ممتاز اقبال ملک بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ ان کی صحت مسلسل خراب ہوتی چلی گئی‘ نقل و حرکت محدود ہو چکی تھی لیکن ذہنی طور پر چوکس اور توانا تھے۔ ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور اس کے بگڑتے ہوئے تیور انہیں نڈھال کر دیتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے عہدِ ستم میں وہ ہمارے ہفت روزہ کے معاون مدیر تھے۔ دن رات محنت کرتے اور حالات کے وہ گوشے جانفشانی سے منظر عام پر لاتے جنہیں بڑے بڑے اخبارات ''نظر انداز‘‘ کر دیتے تھے۔ دراز قد تھے اور انہوں نے عملی صحافت میں بھی اپنا قد چھوٹا نہیں ہونے دیا۔ بھٹو عہد کے خاتمے کے بعد وہ افواجِ پاکستان کے ترجمان ''الہلال‘‘ سے وابستہ ہوئے اور اُس کی ادارت سنبھالی‘ ان کی محنت اور پیشہ ورانہ مہارت نے اس مجلے کو نیا اعتبار اور نیا وقار بخشا۔ ان کے انتقال کی خبر ملی تو ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت ممکن نہیں رہی تھی۔ اس لیے اُنہیں الوداع کہنے اسلام آباد نہ پہنچا جا سکا۔اُن کے جانے سے یوں لگا کہ جیسے اپنے وجود کا ایک حصہ جھڑ گیا ہے۔اُن کی رفاقت کی یادیں کبھی محو نہیں ہو سکیں گی‘ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے‘جنت میں اُن کے درجات بلند کرے اور آج کے میڈیا کارکنوں کو ان کی سی جرأت‘ صلاحیت اور محنت کا کچھ حصہ بھی عطا کر دے تو اُن کے وقار اور اعتبار میں ڈھیروں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہکالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)