تین روز پہلے جناب عمران خان سے ملاقات کے بعد جناب عمر ایوب نے میڈیا کے ساتھ جو گفتگو کی اُس نے پورے پاکستان تو کیا‘ پاکستان سے باہر رہنے والے ان لوگوں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ جو پاکستانی سیاست سے کچھ بھی دلچسپی رکھتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کو اُمید بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں‘غلطی معاف جو انہیں نااُمیدی سے دیکھتے‘ اور ان کی کامرانی میں اپنی ناکامی اور اُن کی ناکامی میں اپنی کامرانی ڈھونڈتے ہیں‘ حیرت میں مبتلا ہونے والوں میں وہ بھی شامل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ کہہ لیجئے کہ مخالف‘ موافق اور دوست‘ دشمن سب نے اپنی اپنی انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ عمر ایوب کا انکشاف تھا کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادی ہمیں اور پاک فوج کو آمنے سامنے کرنا چاہتے ہیں‘ایک دوسرے سے لڑانا چاہتے ہیں‘ ہم یہ نہیں ہونے دیں گے اور سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھی اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ گفتگو عمران خان سے ملاقات کے بعد کی گئی تھی‘ اور الفاظ کا چنائو بھی ایسا تھاکہ جس سے ظاہر ہو رہا تھا‘ یہ سوچ تحریک انصاف کے پُرجوش اور پُرآواز سیکرٹری جنرل کی اپنی نہیں بلکہ اُنہیں قیدی نمبر 804 کی طرف سے ''القا‘‘ کی گئی ہے۔ اس پر تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں کی آنکھوں میں چراغ جل اُٹھے‘ انہیں یوں معلوم ہونے لگا کہ مشکل گھڑیاں ختم ہو رہی ہیں‘ اور نیا دور اس طرح طلوع ہونے والا ہے کہ وہ سب ایک بار پھر ایوانِ اقتدار میں جلوہ افروز ہوں گے۔ پھٹا ہوا صفحہ جڑ جائے گا اور 2018ء کا ماحول واپس آ جائے گا‘ من توشدم تو من شدی... لیکن تحریک انصاف کے مخالفین سٹپٹا اُٹھے‘ انہوں نے خان صاحب کی پرانی تقریریں اور بیانات ڈھونڈ ڈھونڈ کر سامنے لانا شروع کر دیے بعض اینکر صاحبان نے تحریک انصاف کے رہنمائوں کو وہ سب کچھ یاد دلانا شروع کر دیا‘ جس میں جنرل عاصم منیر کو تنقید کا شدید نشانہ بنایا جاتا تھا‘ اور شہباز حکومت کو کٹھ پتلی قرار دے کر ہر اقدام کی ذمہ داری دفاعی اداروں پر ڈال دی جاتی تھی۔ تحریک انصاف کے جغادری قانون دان نئے دلائل تلاش کرنے میں لگ گئے کہ وکیلوں کو اپنے ''کلائنٹ‘‘ کے زیر ہدایت کام کرنا ہوتا ہے وہ اس کا مقدمہ اس کی شرائط پر اور اسی کی ہدایت کے تابع لڑتے ہیں۔ اس دلچسپ ''حقیقت‘‘ کو نعیم بخاری صاحب نے ایک بار یوں بیان کیا تھا کہ جب کوئی مقدمہ ہارا جاتا ہے تو وکیل نہیں ہارتا‘ یہ تو اس کا موکل ہارتا ہے ہار یا جیت اُس کا مقدر ہوتی ہے۔ جیت کے ثمرات وہی سمیٹتا ہے اور مقدمہ ہارنے کی خجالت بھی اسی کے حصہ میں آتی ہے اس لیے جونہی موکل کا موڈ بدلتا ہے‘ وونہی وکیل کا زاویہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب وکیل کمزور مقدمہ لڑنے سے انکار کر دیتے تھے یا اپنی عقل موکل کے پاس گروی رکھنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ اب وکلاء کی بھاری تعداد اس تکلف میں نہیں پڑتی۔ اپنے موکل کو سورج سمجھ کر اپنا رُخ تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی‘ گویا سورج مکھی کا پھول بن کر گھومتی چلی جاتی ہے۔
تحریک انصاف کے قائدین نے کہ جن میں وافر مقدار وکیلوں کی ہے‘ تازہ ''یو ٹرن‘‘ کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیے‘ اور کئی ایک نے تو یہ ماننے سے صاف انکار کر دیا کہ وہ کوئی نئی بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے پرانے فرمودات کی گردان ایسے شروع کی کہ برسوں کا فاصلہ سمٹ گیا‘ 2024ء کو 2018ء میں تبدیل کر کے داد وصول کی جانے لگی۔ اس اظہاریے کو دیکھ‘ سن اور سمجھ کر خواجہ آصف صاحب کے طوطے سب سے پہلے اڑے‘ انہوں نے پورے نظام کو زمین بوس ہوتے دیکھ لیا۔ رانا ثناء اللہ یہ سن گن لائے کہ نجی محفلوں میں نئے انتخابات کی باتیں ہو رہی ہیں‘ نئے چیف جسٹس آ کر سب کچھ نیا کر دیں گے‘ سب گنگنائیں گے: نیا راگ ہے ساز بدلے گئے‘ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ نئے چیف جسٹس جنہیں آئندہ چند ماہ میں ذمہ داری سنبھال لینی ہے‘ کچھ نیا کریں یا نہ کریں‘ تحریک انصاف کے وکلاء نئے دلائل ڈھونڈنے میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں‘ مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کے ڈرائونے خوابوں کو تعبیر ملے یا نہ ملے‘ سو باتوں کی نہیں ہزار باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ عمران خان کے تازہ بیانیے نے پاکستانی سیاست کو نیا رُخ دے دیا ہے۔
کوئی کچھ کہے اور کوئی کچھ کرے‘ فوج اور اہلِ سیاست کے درمیان مخاصمت یا محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوج ہمارا قومی اثاثہ ہے‘ اسے فریق نہ بننا چاہیے اور نہ بنانا چاہیے۔ گزشتہ سال مئی کے مہینے کی نو تاریخ نے جو مناظر دیکھے‘ اور ہماری قومی زندگی کو جس طرح گدلا کیا‘ اسے پھیلانے کی نہیں سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ المناک یادوں کو ڈرائونا خواب سمجھ کر آنکھیں کھول لینی چاہئیں‘ اور کھلی آنکھوں سے مستقبل کو سنوارنا چاہیے۔
تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے‘ خیبر پختونخوا میں اُس کی حکومت ہے‘ وہاں اُسے بھاری اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ پنجاب اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی قیادت اس کے پاس ہے۔ قومی اسمبلی میں بھی قائد حزبِ اختلاف اسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کو نظر انداز کر دیا جائے تو بھی اسے ملنے والے ووٹوں کو بآسانی گنا نہیں جا سکتا۔ عمران خان کی شخصیت کا اپنا سحر ہے‘ کرکٹ‘ سماجی خدمات اور سیاست کے میدان میں انہوں نے کئی دہائیاں گزاری ہیں۔ یہ درست ہے کہ اب وہ جیل میں ہیں‘ ان پر بے شمار مقدمات قائم ہیں ان سے بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں لیکن ان کی شخصیت کا انکار ممکن نہیں ہے۔ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘ اُنہیں اپنا مسیحا سمجھتی ہے‘ سمندر پار پاکستانیوں میں تو ان کی محبت اس طرح موجزن ہے کہ دیکھنے اور سننے والے ششدر رہ جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کہ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ہماری سیاست شیشے کا گھر ہے‘ اس کے اندر مزید دھما چوکڑی کی گنجائش نہیں ہے۔ کسی بھی سانڈ کو اس کے اندر گھسنے اور دندنانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ عمران خان کے تازہ بیانیے نے جو ماحول بدلا ہے‘ اسے ایک سنہرا موقع سمجھنا چاہئے‘ اسے ضائع کرنا قومی نقصان ہو گا۔ عمران خان کو جہاں اس بیانیے پر قائم رہنے اور اُسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے‘ وہاں دروازے بند کرنے اور چٹخنیاں چڑھانے والوں کو بھی حالات پر ازسرِ نو غور کرنا ہو گا۔ طاقتور ہوں یا کمزور‘ بلٹ والے ہوں یا بیلٹ والے‘ اقتدار والے ہوں یا جیل والے انہیں ایک دوسرے پر طاقت نہیں آزمانی‘ ایک دوسرے کو نیچا نہیں دکھانا‘ ایک دوسرے کے لیے ''ہنی ٹریپ‘‘ بچھانا ہے‘ گُڑ سے مر جانے والوں کو زہر نہیں دیا کرتے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)