"MSC" (space) message & send to 7575

…جس کا نہ ہو کوئی ہدف

حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ تو گوہرِ مقصود‘ شہادت حاصل کرنے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہو چکے لیکن ان کی رخصتی کے اثرات اور نتائج کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اس 62سالہ نوجوان نے پُرعزم زندگی گزاری‘ اپنے وطن‘ فلسطین کی آزادی کا خواب دیکھتے اور اس کی تعبیر ڈھونڈتے ڈھونڈتے دشمن کا نشانہ بن گیا۔ ان کے خاندان کے 60افراد اسرائیلی بربریت کا شکار ہو چکے‘ تین بیٹوں اور چار پوتے پوتیوں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ اب اسماعیل ہنیہ بھی ان کے ساتھ جا ملے ہیں۔ وہ ایران کے نئے صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔ انہیں مہمانِ خاص کے طور پر یہاں ٹھہرایا گیا تھا۔ پاسدارانِ انقلاب ان کی حفاظت کر رہے تھے لیکن انہیں تاک کر نشانہ بنایا گیا۔ جس عمارت میں وہ مقیم تھے‘ وہ بھی زمین بوس نہ ہوئی اور وہ اپنے ایک گارڈ کے ہمراہ لقمۂ اجل بن گئے۔
اس واردات پر پورے عالمِ اسلام میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ملکوں ملکوں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی ہے۔ ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے انتقام کا پُرزور نعرہ لگایا ہے اور ایرانی صدر نے یقین دلایا ہے کہ اسرائیل کو اس کے کیے کی بھرپور سزا ملے گی۔ ابھی تک اسرائیل نے اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی کہ وہ اس طرح کی وارداتوں کے بعد بصد فخر و حسرت اپنے سر پر سہرا سجانے کا عادی ہے۔ حماس کے متعدد رہنما اس کی خون آشامی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں‘ لیکن اسماعیل ہنیہ کے حوالے سے اس نے ابھی تک باضابطہ اعتراف نہیں کیا‘ شاید اس کی جرأت نہیں ہو پا رہی لیکن زبانِ خنجر لاکھ چپ رہے‘ آستین کا لہو پکار رہا ہے۔ کھلی آنکھ رکھنے والے ہر شخص کو یقین ہے کہ یہ حرکت اسرائیل کے سوا کسی اور کی ہے‘ نہ ہو سکتی ہے۔
شہید رہنما گزشتہ کئی برس سے قطر میں مقیم تھے‘ حماس کے سیاسی امور کا دفتر وہاں باضابطہ قائم ہے۔ پوری دنیا کو اس کا علم ہے اور مختلف ممالک کے نمائندے وہیں آ کر ان سے مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ وہ بھی کئی ممالک کا دورہ کر چکے تھے۔ امریکہ کی طرف سے ان کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری تھیں‘ مذاکرات میں شرکت کو ان کا تحفظ سمجھا جا رہا تھا۔ تاثر یہ تھا کہ ان کا وجود مذاکرات کے تسلسل کے لیے ضروری ہے‘ اس لیے اسے کم سے کم خطرات لاحق ہوں گے۔ اس کے باوجود ان پر حملہ کیا گیا‘ اور اس کے لیے تہران کا انتخاب کیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا‘ یہ سوال ہر ذہن میں اٹھ رہا ہے اور ہر زبان پر آ رہا ہے۔ حسبِ توفیق اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کی بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنا کر ایران کی سبکی کا سامان کیا گیا ہے۔ ایران اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ کئی عرب ممالک اسرائیل کے معاملے میں دھیمے پڑ چکے ہیں۔ فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار نہیں ہیں۔ اسرائیل نے گزشتہ کچھ عرصے میں امریکہ کی پشت پناہی (یا ڈپلومیسی) کی بدولت اپنے پاؤں پسار لیے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے تو معمول کے تعلقات تیزی سے بحال ہوئے ہیں جبکہ کئی دوسرے بھی مصالحت اور مفاہمت کی راہ اپنانے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایران مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حماس‘ حزب اللہ اور یمن کے حوثی اس سے جذبۂ تازہ حاصل کر رہے ہیں۔ گویا ریاستی ڈھانچوں کو نظر انداز کر کے مزاحمت کو عوامی تحریکوں کے ذریعے آگے بڑھانے اور دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کی خواہش زور پکڑ رہی ہے۔ بے تاب اور مضطرب مسلمانوں کی توقعات اپنی باقاعدہ قیادتوں سے زیادہ غیرسرکاری تنظیموں سے وابستہ ہو چکی ہیں۔ نتائج سے قطع نظر عوامی جوش و خروش کوایک نیا رُخ دیا جا چکا ہے اور ایران اس کی سرپرستی و رہنمائی میں مصروف ہے۔ اس رویے نے اسے عالمِ اسلام میں ممتاز کر دیا ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی نظر میں کڑی سے کڑی سزا کا مستحق۔
تہران میں اسماعیل ہنیہ کو قتل کرکے ایران کی قائدانہ صلاحیت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ اسے اس سوال کا سامنا ہے کہ اگر اپنے ''ریڈ زون‘‘ میں وہ اپنے خاص مہمان کی حفاظت نہیں کر سکتا تو عالمِ اسلام میں اسے توقعات کا مرکز بنانے والے اس پر بھروسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ابھی تک ایران کی طرف سے اس واردات کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی جو کچھ بھی سامنے آیا ہے وہ امریکی میڈیا کی رپورٹیں ہیں اور ان سے ایران کی دفاعی صلاحیت پر اٹھنے والے سوالات میں کمی نہیں ہوئی‘ اَن گنت اضافہ ہو گیا ہے۔ ایران کے زعما کی طرف سے انتقام کے نعرے قابلِ تحسین ہیں‘ اس کی طرف سے کب‘ کس طرح اور کہاں جواب دیا جاتا ہے‘ اس کا شدت سے انتظار ہے لیکن اس سے پہلے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی تفصیل سے آگاہی بھی ضروری ہے اور ان کی حفاظت میں ہونے والی کوتاہی کے ذمہ داروں کا سراغ لگانا بھی لازم ہے۔
امریکہ پوری طرح حرکت میں آ چکا ہے۔ اسرائیل کی حفاظت کے لیے اس نے ازسرِ نو کمر کس لی ہے‘ اپنے سپاہی بھی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے‘ گویا جنگ کے شعلے مزید بھڑکنے کو ہیں۔ وہ کہاں کہاں کس کس کو لپیٹ میں لیں گے‘ اس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو گا یا اسرائیل اپنے انجام کو پہنچ جائے گا‘ اس بارے میں مختلف آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یقین کی دولت سے مالا مال دانشوروں کا ایمان ہے کہ اسرائیل کیفر کردار کو پہنچے گا۔ اس نے جو ظلم ڈھائے ہیں‘ ان کا حساب چکایا جائے گا۔ غزہ کے بے گناہ شہریوں کا خون رنگ لا کر رہے گا۔ لیکن ایسے عالی دماغوں کی بھی کمی نہیں جو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر زور دے رہے ہیں۔ عقل و ہوش سے کام لینے کی اہمیت واضح کرتے آ رہے ہیں۔ آخری معرکہ لڑنے سے پہلے ہر طرح کی تیاری کی اہمیت بیان کر رہے ہیں۔ صف بندی کی افادیت سمجھا رہے ہیں۔ جنگ پھیلی تو روس اور چین کیا کریں گے‘ یورپ اور ایشیا میں شعلے کس کس کو بھسم کریں گے۔ ان سب سوالوں کا جواب آنے والا وقت دے گا لیکن اس سے پہلے کہ اندھیرے میں چلائے جانے والے تیروں میں اضافہ کیا جائے‘ کیا اسلامی سربراہی کانفرنس کے زعما کو سر جوڑ کر بیٹھ نہیں جانا چاہیے؟ کیا مربوط حکمت عملی بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے‘ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنے اپنے راگ سے اپنے اپنے حصے کے ''عوام‘‘ کو برانگیختہ تو کیا جا سکتا ہے‘ ان سے داد کے ڈونگرے بھی وصول کیے جا سکتے ہیں‘ لیکن اجتماعی خودی کو منظم نہیں کیا جا سکتا ؎
میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں