دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اعزاز تو بھارت کیلئے اب قصہ پارینہ بن چکا‘ اب اس کی جگہ دنیا کی سب سے زیا دہ بنیاد پرست اور انتہا پسند آبادی کا اعزاز بھارت کے ماتھے پر چپک گیا۔کوئی جمہوری اور مہذب ملک یہ نہیں گوارا کرے گا کہ وہ پارلیمنٹ کی بجائے اپنے ملک کی کسی دہشت گرد تنظیم کو جوابدہ ہو؟۔کیا ڈیمو کریٹ اور ری پبلیکن یا لیبر اور کنزرویٹو‘ پارلیمنٹ کی بجائے اپنے ہی ملک کی داعش اور القاعدہ جیسی کسی انتہا پسند تنظیم کو جواب دہ ہونا منا سب سمجھیں گے؟کوئی بھی جمہوریت پسند جماعت اگر ایسا سوچتی ہے تو پھر اسے کسی صورت میں بھی جمہوری یا انسانی حقوق کی پابند جماعت نہیں کہا جا سکے گا۔نریندر مودی کی حکومت نے بھارت کی پارلیمنٹ کو اس طرح بے بس کر کے رکھ دیا ہے کہ وہ اپنی سیا سی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو نہیں بلکہ بھارت کی سب سے بڑی انتہا پسند عسکری تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کو جوابدہ ہیں۔ بھارت کے سیکولر ذہن رکھنے والے دانشورتو اب یہ کہنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کانام تو صرف د نیا کودکھانے کیلئے ہے بھارت کی اصل حکمران جماعت تو آر ایس ایس ہے۔ بھارت کا ہر سیا ستدان اس کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ ہو چکا ہے کیونکہ ایک سرکاری رپورٹ کے مطا بق ہر ماہ دس ہزار سے زائد ہند و انتہا پسندوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بھارت کی فوج سے ریٹائر ہونے والے افسران کی
زیرنگرانی آر ایس ایس کے ٹریننگ کیمپوں میں فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ صاف ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے کہ جس کوکھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا تھا وہ دوبارہ اسی میں ضم ہوتی جا رہی ہے گویا''ہر شئے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے‘‘ کے اصول پر عمل ہو رہا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے گلو کار غلام علی کا کنسرٹ جس طرح الٹایا گیا وہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے بھی کافی ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ'' موسیقی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی‘‘ موسیقی کی سرحدوں کا خاتمہ وہاں کیا جاتا ہے جہاں انسانی حقوق کی پہچان ہو، جہاں مذہبی انتہا پسندی اس حد تک خون میں سرایت نہ کر چکی ہے کہ گوشت کھانے والے ہر انسان کو مذہبی انتہا پسند ی کی آگ میں جلا دیا جائے۔ جس دن بھارت نے دہلی کے ''اخلاق‘‘ کو گائے کا گوشت کھانے کے شک میں زندہ جلایا تھا اسی دن بھارت کی تہذیب، شائستگی اور نام نہاد سیکولر زم کا جنازہ نکل گیا تھا۔ کلکرنی کے چہرے پر ملی گئی سیاہی نے بھارت کا اپنا چہرہ کالا کر دیا۔
ایک عرب ریاست نے گزشتہ ماہ داعش سے تعلق رکھنے والے جن14 بھارتیوںکو گرفتار کیا تھا‘ ابھی حال ہی میںاُنہیں بھارت کے حوالے کیا گیا۔ بھارت سے داعش کی نفری، ترکی، یمن، شام ، عراق ،افغانستان اور بلوچستان میں بھارتی ایجنسیوں کی زیر نگرانی بھجوائی جا رہی ہے ۔ خدشہ ہے کہ آنے والے وقتوں میں داعش کی مکمل کمانڈ بھارت کے ہاتھوں میں آ نے والی ہے۔ بھارت اب کشمیر یوں کی جدو جہد آزادی کو سبو تاژ کرنے کیلئے داعش کا نام اچھالنے لگا ہے۔ عالمی رائے عامہ کو یاد ہو گا کہ جب کشمیر ی نوجوانوں نے اپنی آزادی اور مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت کو بھارتی فوج کے درندوں سے بچانے کیلئے جد و جہد شروع کی تھی تو بھارت خفیہ ایجنسی(را) نے اپنے ہی لوگوں کو کشمیری مجاہدین کے روپ میں اتار کر لوگوں سے پہلے بھتہ مانگنا شروع کیا اور پھر بعد میں مختلف جہادی تنظیموں کے نام سے بسوں کو لوٹنا اور دہشت گردانہ کاروائیوں کا آغاز کر دیا‘یہ وہ اعتراف ہے'' جو بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اور وزیر اعظم نریندرمودی کے مشیر برائے نیشنل سکیورٹی اجیت ڈوول نے کھل کر اپنی کتاب میں کیا ہے‘‘۔ لگتا ہے کہ اب یہ کھیل دوبارہ کشمیر میں اس طرح شروع کر دیا گیا ہے کہ نوجوانوں کے پر امن جلوسوں میں اب کچھ نا معلوم لوگ داعش کے جھنڈے اٹھائے اس وقت شامل دکھائے جاتے ہیں جب احتجاجی جلسوں اور ریلیوں میں کشمیری نو جوان پاکستان کے جھنڈے لہرانے لگتے ہیں۔عالمی رائے عامہ ان حقائق سے کب تک بے خبری کا تاثر دیتی رہے گی۔ دوبئی سے پکڑے جانے والوں کے بارے میں خبر نے تو دنیا کے ہر چھوٹے سے چھوٹے میڈیا گروپوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ۔حیرت ہے کہ بی بی سی، سی این این سمیت واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز اور گارڈین جیسے دوسرے میڈیا گروپ اس پر خاموشی اختیار کئے بیٹھے ہیں۔
اس حقیقت کے ناقابل تردید شواہد ہیں کہ بھار ت میں ازبک، چیچن اور تاجک نوجوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے کے بعد پہلے افغانستان اور پھروہاں سے پاکستان اور چین کے اندر دہشت گردی کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔کاش! کہ جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا70 واں اجلاس ہو رہا تھا تو ہمارے حکمرانوں میں سے کوئی عالمی برادری کو مع ثبوتوں کے وہ آڈیو سنواتا کہ کس طرح بھارت کی خفیہ ایجنسی (را)کے اہلکاروں کی جانب سے فون پر زمبابوے کرکٹ ٹیم کے مینیجر کو دھمکیاں دیتے
ہوئے دورہ پاکستان سے ڈرایا دھمکایا جا رہا تھا ۔ دنیا کے ہر پر امن ملک کو داعش کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ دن بدن بڑھتی ہوئی اس کی حدود کو بھی سنجیدگی سے سامنا رکھنا ہو گا۔ کیا برطانیہ اور امریکہ کے خفیہ اداروں کے بارے میں تصور کر لیا جائے کہ وہ بے خبر ہوتے جا رہے ہیں؟۔ اگر بالفرض ایسا ہے یا ان تک اطلاعات کی فراہمی کا نظام ناقص ہو چکا ہے تو انہیں بتائے دیتے ہیں کہ2014ء اکتوبر کو ہی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کا پاسپورٹ رکھنے والا بھارتی اجیت ڈوول عراق اور شام پہنچا تھا جہاں اس نے داعش کے سربراہ ابو بکر بغدادی سے ملاقات کی‘ اور داعش کو ہر قسم کی سہولیات دینے کیلئے افغانستان کے شہر قندھارمیں بھارتی قونصلیٹ کو رابطہ افسر مقرر کیا ‘جس نے جلد ہی ملا فضل اﷲ اور خراسانی گروپ کی تحریک طالبان اور داعش میں علیحدہ علیحدہ روابط بڑھائے ۔جب داعش کی‘خراسانی گروپ کی تحریک طالبان کے ساتھ گہری چھننے لگی تو خراسانی نے ہی بھارت کی شہہ پر پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں رائے عامہ کوگمراہ کرنا شروع کر دیا کہ وہ بہت جلد ایٹم بم کیلئے درکار ایک اہم مادہ بھاری قیمت پر پاکستان سے کسی نہ کسی طرح حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر اسی خبر کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کے نت نئے شگوفے چھوڑنا شروع کر دیئے۔!!