اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: ''اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی صبر سے کام لو، یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی ملت‘ کوئی قوم‘ کوئی گروہ‘ کوئی امت متحد ہوتی ہے تو وہ تاریخ میں ایسے ایسے کارنامے کر دکھاتی ہے کہ جن کا بظاہر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ہماری اور آپ کی دوستی ازل سے ہے۔ کبھی ہم اور آپ ایک دوسرے کا بازو بنے ہوئے تھے۔ کبھی صحرائوں، سمندروں، بیابانوں اور دریائوں میں ایک دوسرے کو بچانے کیلئے اپنے خون کی ندیاں بہا رہے تھے۔ اگر کبھی ہم سے غلطی بھی ہوئی تو آپ نے اسے مسکراہٹ کے پردے میں چھپا لیا اور جب کبھی آپ سے خطا ہوئی تو ہم نے آپ کو شرمندگی اور شکست کے داغ سے افسردہ ہونے سے پہلے ہی آپ کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ ہم اور آپ تو ایک دوسرے کیلئے اس طرح لازم و ملزوم ہیں کہ بے رُخی اور ناراضی کے چند لمحے بھی ہمارے وقار اور عزت کو گہنانا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہم ایک جسم اور ایک روح کے مالک ہیں۔ ہم میں سے اگر کوئی بھی کمزوری یا ناتوانی کا شکار ہو جائے تو دونوں کا وجود مٹ جائے گا۔ ہماری اور آپ کی دھرتی ایک‘ زمین ایک‘ سرحد ایک‘ اور جو ہمارا دشمن ہے‘ وہ آپ کا بھی دشمن ہے، اس لیے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے دور ہو جائیں؟ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک نہ ہوں؟ ایک دوسرے کے پردے اور عزتوں کا لحاظ نہ کریں؟ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک‘ دشمن کی فوجوں اور ایجنسیوں نے اپنی بوگس اور جعلی انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے ہمیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کی جتنی بھی کوششیں کیں‘ وہ ہم نے مل جل کر ناکام بنائیں کیونکہ ہمارا رزق‘ ہمارا وقار‘ اور ہماری پہچان ایک ہے۔ ہماری آبرو اور ہمارا ایمان ایک ہے۔ ہماری کتاب اور ہمارا رسول ایک ہے۔ ستمبر 1965ء میں جب دشمن نے اپنے لائو لشکر کے ساتھ یلغار کی تو ہم ایک دوسرے کو بچانے کے لیے سینہ تان کر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ اس میں نہ تو ہمیں اور نہ ہی آپ کو کسی قسم کا شک رہنا چاہئے کہ ہمارا گھر‘ ہمارے باغ‘ ہمارے کھیت‘ ہمارے کھلیان‘ ہمارا اناج‘ ہماری فیکٹریاں اور ہمارے کارخانے‘ غرض سب کچھ مشترکہ ہے۔ ہماری سرحدیں‘ ہماری عزت و آبرو ایک ہیں۔ ازلی دشمن اور اس کے اتحادیوں نے بار بار ہمارا چمن ویران اور تباہ کرنے کی کوششیں کیں لیکن ہم اور آپ سینہ سپر کھڑے رہے۔ جنگِ ستمبر میں جب ہمیں فتح ملی تو ہم سب نے مل کر اس کا جشن منایا۔ بعد ازاں ہم نے اس دن کو یومِ دفاع کے نام سے منایا اور نجانے کتنے سال‘ کتنی دہائیوں تک اس دن کو سرکاری تعطیل ہوتی رہی۔ اگر میں اپنی‘ بطور ایک شخص اور بطور شہری بات کروں تو میں اپنے بچوں‘ جو اُس وقت چھ سے دس سال تک کے تھے‘ کو سکوٹر پر بٹھا کر برکی اور بی آر بی نہر کنارے بنائی گئی یادگارِ شہدا پر لازمی لے کر جایا کرتا تھا۔ اس وقت ہمارے جیسے نجانے کتنے خاندان وہاں پھولوں کی چادریں چڑھانے آیا کرتے۔ شہدا کیلئے تلاوتِ قرآن پاک کی جاتی۔ رب العالمین سے ان کی مغفرت اور بلند درجات کی مناجات اور دعائیں کی جاتیں۔ ہمیں یہی لگتا تھا کہ ہمارے بھائی ہمارے سامنے سفید اور روشن کفن میں لپٹے ہم سب کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کی کھلی آنکھیں اور مسکراتے ہوئے ہونٹ‘ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم سے عہد لے رہے ہیں کہ ان سرحدوں کی حفاطت اب ہمارے بعد آپ کے ذمے ہے‘ اپنے اتحاد کو اپنی سب سے مضبوط طاقت بنائے رکھنا۔ اس دن کو ایک چھٹی کے طور پر نہیں‘ بلکہ ایک عزم اور عزم کے اعادے کے طور پر منا کر ہم شہدا کی پاک روحوں سے عہدِ وفا کرتے ہوئے گھروں کو لوٹ جایا کرتے تھے۔ ہم پھلورہ اور چونڈہ کے میدانِ جنگ کو اور وہاں موجود ''رومالاں والی قبروں‘‘ کو پانی سے دھو کر ان پر گُل پاشی اور خوشبو کی بارش کیا کرتے تھے۔
پھر ایک وقت وہ آیا جب ہم سب کی مشترکہ غلطیوں اور دشمنوں کے ایک ناپاک اتحاد نے ہمارے پاک وطن کے دو ٹکڑے کر دیے۔ اس سازش کے خلاف اوردفاعِ وطن کے لیے ہر وہ قربانی دی گئی جو کسی انسان کے بس میں ہو سکتی تھی لیکن چونکہ اس جنگ میں ہم بالکل اکیلے تھے یا یوں کہہ لیجئے کہ تنہا کر دیے گئے تھے‘ اس لیے ہمارے وطن کا سنہری پٹ سن والا حصہ‘ شہید تیتو میر اور حسین شہید سہروردی کے گھر والا خطہ ہم سے علیحدہ کر دیا گیا۔ ہمارے جوان ان کے قیدی بنا دیے گئے جن پر کئی صدیوں تک ہماری سوچ نے‘ ہماری تہذیب نے اور ہمارے دین کے نام لیوائوں نے راج کیا تھا۔ آج بھی دل میں اس تلخ ترین باب کی چبھن محسوس ہوتی ہے۔ آج بھی کانوں میں اندرا گاندھی کا وہ نفرت بھرا جملہ گونجتا رہتا ہے ''دو قومی نظریہ بحیرۂ ہند میں غرق کر دیا ہے‘‘۔ اس شکست سے برہمن کے ہاتھ میں طنز کا ایک ہتھیار آ گیا مگر ہم نے اس وقت بھی اتحاد کی دولت کو نہیں چھوڑا۔ اس وقت یہ پوری قوم ساتھ مل کر روئی۔ اس قوم کو کچھ لوگوں نے‘ جو اس وقت اقتدار کے تخت پر براجمان تھے‘ اپنے رنگ میں رنگنے کی کوششیں کیں‘ لیکن جیسے ہی ہمیں ان کے مذموم عزائم کی خبر ہوئی‘ سب سراپا احتجاج بن گئے۔ اس وقت کے آمر سے ٹکرا گئے کیونکہ ہمیں اپنے وطن‘ اس کے محافظوں‘ اس کے پاسداران‘ اس کے اداروں کی حرمت و وقار پر ایک حرف بھی منظور نہیں۔ اسی طرح جب کارگل کا سرد میدان گرم ہونا شروع ہوا‘ جو مشرقی پاکستان کی طرح بھارت کا کمزور ترین محاذ تھا‘ وہاں رہنے والے افراد پہلی بار مسلکی و فکری اختلاف سے باہر نکل کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اپنے حقوق اور آزادی کیلئے بھارتی جبر اور فسطائی فیصلوں کے خلاف سڑکوں پر آ گئے تھے‘ پورا خطہ ایک آگ کے گولے کی صورت اختیار کرتا جا رہا تھا اور ایسے وقت میں جب دشمن گھٹنے ٹیکنے کو آ گیا تھا‘ کچھ دیدہ و نادیدہ قوتوں نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ آج سب جانتے ہیں کہ یہ کس نے کہا تھا کہ ''واجپائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا‘‘۔ اب یہی لوگ زبردستی ہم پر مسلط ہونے کی کوشش کر رہے ہیں جن کی ایک مخصوص تاریخ رہی ہے۔ امریکی و یورپی اخبارات میں چھپنے والے اشتہارات سے کون واقف نہیں جو ملک و قوم کا سر شرم سے جھکا دیتے تھے۔ کون نہیں جانتا کہ ان اشتہارات کے پیچھے کون لوگ اور کون سے ہاتھ تھے؟
دشمن کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے۔ یہاں تک تو شاید کسی حد تک گوارا کر لیا جاتا لیکن یہ جو کچھ آج ہو رہا ہے‘ جو لوگ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کر دیا گیا ہے‘ ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں باہمی احترام اور پیار کے بجائے نفرت اور غصہ دیکھ رہے ہیں‘ یہ کم ازکم ہمیں قبول نہیں ہے۔ ہم اپنے دل میں پہلے ہی کی طرح آج بھی آپ کیلئے محبت اور احترام لیے ہوئے ہیں۔ ہم آپ کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس لیے التماس ہے‘ دردمندانہ گزارش ہے کہ جو غلطی ہم سے ہوئی اسے آپ بھول جائیں اور معاف کر دیں اور جو آپ سے ہوئی‘ اسے ہم فراموش کر دیتے ہیں۔ نہ تو آپ ہمارے گھر کو دشمن کی پناہ گاہ سمجھیں اور نہ ہی ہم آپ کی خودمختاری کو پامال کریں کیونکہ اگر کسی ایک کی دیوار گر گئی‘ اگر کسی ایک کا گھر جل گیا تو سمجھئے گا کہ ہم دونوں کے گھرخاکستر ہو گئے۔پھر دنیا کے ہر کونے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہمارے گھروں میں جھانکنے کا موقع مل جائے گا۔ ہم مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے۔ ہمارا اور آپ کا گھر ایک ہے‘ ایک کے گھر پر کی جانے والی جارحیت کا نشانہ دونوں بنیں گے کیونکہ اگر یہ آگ پھیل گئی تو ایک نہیں دونوں گھر جلیں گے۔ امت و ملت کو مزید تقسیم ہونے سے بچائیں۔ اس اتحاد کو بکھرنے نہ دیں۔