اکثر کہا جاتا ہے کہ تصویریں بولتی ہیں‘ اس سے انکار اس لئے ممکن نہیں کہ بہت سی تصویروں پر نظر یں ڈالتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ تصویر میں نظر آنے والی آنکھیں کوئی سوال کر رہی ہیں‘ کچھ کہنے کی کوشش کر رہی ہیں‘اپنی جانب اٹھی ہوئی نظریں کوئی شکوہ کر رہی ہیں‘ کچھ پوچھ رہی ہیں‘ آنکھوں کی اداسی‘ شوخی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرنے کی مثالیں تو ہمارے شاعروں کے کلام کا محبوب موضوع رہا ہے۔ چہرے کے تیور بھی اندرونی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں اور تیور بدلنا تو اکثر دیکھنے اور سننے میں آتا ہے۔ اندرون سندھ کے ایک گوٹھ میں کسی اوطاق کے باہر وہاں کا کوئی وڈیرہ ایک بڑے سے لکڑی کے تخت پر جسے سندھ کی دیہی ثقافت کے مطا بق کڑھائی کی جانے والی چادروں سے سجایا گیا تھا اپنے فربہ بدن اور ناٹے قد کے ساتھ بکھر کر بیٹھا ہے اور کوئی پچاس کے قریب پھٹے پرانے لباس میں ہاتھ باندھے ہاری اور مزدور وڈیرے کے ارد گرد مسکین صورت بنائے کھڑے ہیں۔ وڈیرے کیلئے ٹین کے ڈبوں میں امپورٹڈ مشروبات رکھے ہوئے ہیں جن کے چند گھونٹ لینے کے بعد وہ آدھے سے زیادہ خالی ڈبہ دور پھینک دیتا ہے جس کے پیچھے یہ ہاری دیکھتے ہیں۔ کچھ ہاری ہاتھ باندھے اس وڈیرے سے کچھ فریاد کرتے ہیں پھر وڈیرہ اٹھنے سے پہلے منرل واٹر کی بوتل کا ڈھکن کھول کر اس کا پانی اپنے پائوں اور چپل پر گراتا ہوا ایک شان سے بڑی سی گاڑی اور چھ سات محافظوں کے ساتھ گر د اڑاتا روانہ ہو جاتا ہے۔ دوسری تصویر میں سندھ کے انہی دیہات کی کمزور اور ناتواں عورتیں سر پر مٹی کے مٹکے اٹھائے ایک قطار میں کہیں دور سے پانی بھرنے کیلئے جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ کسی کے پائوں میں ٹوٹی چپل ہے تو کچھ کے پائوں ننگے ہیں اور ان کے کم عمر آدھے ننگے بچے ساتھ ساتھ بھاگتے نظر آ تے ہیں۔ یہ دو تصویریں اگر کوئی سمجھ سکے توبہت کچھ کہتی ہیں۔ جیسے منرل واٹر سے وڈیرہ پائوں دھو رہا ہے تو اس کی جاگیر کی بیٹیاں اور مائیں نہ جانے کتنے میل چل کر پانی بھرنے کیلئے گرمی اور سردی کی صعوبت سہتی اس طرح آتی جاتی ہیں کہ سر پر پانی سے بھرے ہوئے مٹکے کا بوجھ بھی ہوتا ہے۔اسی طرح آج کے انتخابی موسم میں۔ دیکھنے کو تو ان گنت تصاویر سامنے آ رہی ہیں لیکن دو تصویروں کا ذکر کرتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے‘ جس میں پی ٹی آئی کے جلسے کیلئے لگائی جانے والی کرسیوں اور سٹیج کو پولیس کے تیس چالیس جوان اٹھا اٹھا کر دور پھینک رہے ہیں تو دوسری تصویر میں لندن پلٹ سیاستدانوں کے جلسے کیلئے پولیس کے جوان کرسیاں اور سٹیج سیٹ کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ تصویروں کی کہانیاں بھی عجب ہوتی ہیں‘ شائد 2015ء کے بھلے دنوں کی ایک تصویر دیکھی گئی تھی جب فرانس میں ماحولیاتی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان سرگوشیوں کی تصویر نے ہلچل مچا دی۔ ایسے لگتا تھا کہ دونوں وزرائے اعظم کوئی معاملہ طے کر رہے ہیں۔ ماحولیات کی عالمی کانفرنس کیلئے دنیا بھر سے شرکت کیلئے آئے ہوئے فرانس کے اس ہال میں موجود سربراہوں سے الگ تھلگ ان کی سرگوشیاں بتا رہی تھیں کہ کوئی خاص بات زیر بحث ہے۔ نریندر مودی کے بدلتے تیور حیران کر رہے تھے تو میاں نواز شریف کی سرگوشی خوف کی علامت دکھائی دے رہی تھی۔نجانے کس بات کا خوف تھا جو دونوں کے چہروں سے جھلک رہا تھا۔ فرانس کی اس ملاقات کا شور دونوں رہنمائوں کے اپنے اپنے ملک واپس آنے کے بعد تھما بھی نہیں تھا کہ بھارت کی مشہور صحافی برکھا دت نے اپنی پہلی شائع ہونے والی کتاب(This Unquiet Land: Stories from India's Fault Lines) میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی 2014 ء میں بھوٹان میں ہونے والی سارک کانفرنس کی خوشگوار تصویر کی وضاحت اس طرح کی کہ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے کہ انہیں عوامی سطح پر روابط بڑھانے کے لیے مزید وقت اور زیادہ سیاسی سپیس کی ضرورت ہے۔برکھادت کے مطابق سارک کانفرنس میں دونوں وزرائے اعظم کی مذکورہ ملاقات کے لیے ہندوستانی سٹیل سرمایہ دار سجن جندال نے فراہم کی تھی‘ جو سابق کانگریسی ممبر اسمبلی نوین جندال کے بھائی ہیں۔
گیارہ جولائی 2013 ء کو روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والے اپنے مضمون'' دوحہ سے ماسکو‘‘ میں لکھا تھا کہ افغانستان کے صوبے بامیان میں دوارب ٹن لوہے کے ذخائر ہیں جسے حاصل کرنے کے لیے افغان آئرن اور سٹیل کنسورشم اور بھارت کے جندل گروپ کے درمیان بات چیت آخری مراحل میں ہے جس میں بھارت نے افغان حکومت کو یہ بھی پیشکش کی ہے وہ حاجی گاک کے ا فغانی کوئلے اور بامیان کی مجوزہ سٹیل مل کی تنصیب کیلئے آٹھ کروڑ ڈالر بطور امداد بھی دے گا۔ اس متوقع معاہدے کے تحت جندل گروپ افغانستان میں حاجی گاک کے پہاڑوں سے دو ارب ٹن خام لوہا نکال کر اسے ایکسپورٹ کرنے کا مجاز ہو گا۔ یاد رہے کہ یہ لوہا گریڈنگ میں60 پوائنٹ سے بھی زیا دہ ہے۔ یہ اعداد و شمار 1960ء کی دہائی میں کیے گئے ایک سروے پر مبنی ہیں۔ بھارتی سٹیل انڈسٹری کے ٹائیکون حاجی گاک کے خام لوہے کی افغانستان سے براستہ پاکستان بھارت لے جانا چاہتے تھے۔اُس وقت کی افغان وزارتِ کان کنی نے کہا تھا کہ افغانستان ایک دہائی کے اندر خود کفیل ہو سکتا ہے‘ اگر اس کے معدنی وسائل‘ جن کی قیمت کچھ اندازوں کے مطابق تین ٹریلین ڈالر تک ہے‘ کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے؛ تاہم افغانستان آج بھی اسی مقام پر کھڑا ہے جہاں ایک دہائی پہلے تھا۔ آج بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے وہی سوال پوچھے جا رہے ہیں جو ایک دہائی پہلے پوچھے جاتے تھے۔ افغانستان میں تیل‘ گیس‘ تانبے‘ سونا اور لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں تاہم وہاںشورش کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایسی تصویر پیش کرتا ہے جسے دیکھتے ہوئے کوئی سرمایہ کار وہاں آنے کو تیار نہیں ہوتا۔ بد امنی کی اس صورتحال کے اثرات سے نکلنے کے لیے افغانستان کو مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان جو خود معدنی دولت سے مالا مال ہے‘ امن و امان کے مسائل کی وجہ سے اس سے پورااستفادہ نہیں کر پارہا۔ جنوبی ایشیا کے اس حصے کا امیج سکیورٹی صورتحال کی بہتری سے مشروط ہے‘ امن و امان کی بہتر صورتحال سرمایہ کاری میں اضافے کا سبب بنے گی۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں‘ قومی مفادات اور بنیادی پالیسیوں پر کوئی سمجھوتا کیے بغیر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش مند ہیں۔ اگلے روز مسلم لیگ (ن) کا منشور جاری ہوا‘ جس میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے جو نمایاں نکات سامنے آئے ہیں ان میں یہ بھی شامل ہے کہ خطے کے امن اور معاشی ترقی کی بنیادوں پر بھارت سے تعلقات استوار کیے جائیں گے‘افغانستان کے ساتھ امن اور تجارت کیلئے رابطوں میں اضافے اور مؤثر سرحدی نظام کو بہتر بنائیں گے‘امریکا کے ساتھ عالمی معیشت‘ تجارت‘ انسداد دہشت گردی وغیرہ کے مسائل پر مل کر کام کریں گے۔ اوپر بیان کر چکے ہیں کہ افغانستان معدنی دولت سے مالا مال ہے تاہم اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے امن و امان کی صورتحال کی بہتری ضروری ہے‘ جبکہ ان خام دھاتوں کو بیرون ملک بھیجنے کے لیے پاکستان کی راہداری کی ضرورت ہے؛چنانچہ پاک افغان تعلقات کی موجودہ نوعیت کو بہتر کرنا بے حد اہم ہے۔