2017ء میں جب بابری مسجد کی شہا دت کے 25 سال مکمل ہوئے بھارت کے مشہور انگریزی میگزین ''آئوٹ لک‘‘ نے بھارت بھر کے لوگوں سے بابری مسجد سے متعلق ایک سوال پوچھا۔ میگزین کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کا مقدمہ ابھی بھارتی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی بی جے پی کی ذیلی جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے چیف موہن بھاگوت اعلانات کرتے پھر رہے ہیں کہ چاہے کچھ ہو بھی جائے ہم ایودھیا میں رام مندر تعمیر کر کے رہیں گے۔ موہن بھاگوت کے الفاظ تھے: ''تمام لوگ جان لیں کہ ایودھیا میں صرف رام مندر ہی تعمیر ہو گا‘ اس کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی عبادت گاہ یا سوشل سنٹر تعمیر کرنے کی قطعی اجا زت نہیں دی جائے گی اور یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سب باخبر ہو جائیں‘‘۔ آئوٹ لک نے موہن بھاگوت کی یہ تقریر شائع کرنے کے بعد لوگوں سے پوچھا کہ آر ایس ایس کے لوگ سپریم کورٹ کو براہِ راست دھمکیاں دے رہے ہیں یا ہدایات؟ اس سوال کا جواب دو سال بعد ہی مل گیا جب بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کی شہادت کو جواز فراہم کرتے ہوئے 9 نومبر 2019ء کو فیصلہ سنایا کہ بابری مسجد کی جگہ ہندوئوں کے رام مندر کی تعمیر کے دعوے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ عدالت نے مسجد کی زمین پر مندر کی تعمیر کی اجازت دیتے ہوئے مسلمانوں کو مسجد کے لیے متبادل جگہ دینے کا فیصلہ سنایا۔
بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا کام پورا زور لگانے کے باوجود چار سال میں مکمل نہیں ہو سکا لیکن سوموار کو اس کا افتتاح پورے مذہبی رسم و رواج اور شان و شوکت کے ساتھ کر دیا گیا۔ مندر کی افتتاحی تقریب میں ہونے والی پوجا میں وزیر اعظم مودی کے ساتھ موہن بھاگوت اور یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ انتہا پسند طبقات کی جانب سے بابری مسجد کو غلامی کی علامت بتاتے ہوئے ''22 جنوری‘‘ کو ایک نیا دیوالی کا تہوار قرار دیا جا رہا ہے۔ہندومت کی تعلیمات کے مطابق 14 سال کے ''بن واس‘‘ (جلا وطنی) کے بعد رام جی جب واپس اپنے آبائی شہر گئے تو ان کی واپسی کی خوشی کے طور پر چراغاں کیا گیا‘ یہی دیوالی کا تہوار کہلاتا ہے۔ اب مودی ٹولہ برملا یہ کہہ رہا ہے کہ 500 سال بعد اس سرزمین پر رام کی دوبارہ آمد ہو رہی ہے لہٰذا یہ دن ایک نئی طرح کی دیوالی ہے۔ اس وقت پورے بھارت میں ایک جشن کا ماحول ہے اور جگہ جگہ رام مندر کی تقاریب منعقد کی جا رہی ہیں۔ رام مندر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ بھی توقع کے عین مطابق تھے۔ مودی جی کا کہنا تھا ''یہ پل صدیوں کے طویل انتظار کے بعد آیا ہے‘ اس پل کو کھونا نہیں‘ یہ بھارت کے نئے عہد کا آغاز ہے‘ ہمیں اس وقت آئندہ ایک ہزار سال کے بھارت کی بنیاد رکھنی ہے۔ اب بھارت صدیوں کی غلامی کی ذہنیت کی زنجیر توڑ کر باہر آ گیا ہے‘‘۔ اس تقریر میں مسلم تعصب اور مغل دشمنی کا کھل کر اظہار کیا گیا۔ شوبز اور سپورٹس شخصیات اور بالی وُڈ کے ستاروں کی اکثریت نے اس تقریب میں جس طرح شرکت کی اس کے پیش نظر بھارت کے سیکولر طبقات کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بالی وُڈ بھی مودی کے رنگ میں رنگ گیا ہے یا مذہبی تعصب کا یرغمال بن چکا ہے۔
ایک بات تو طے ہے کہ نریندر مودی نے رام مندر کا افتتاح کر کے آئندہ عام انتخابات میں اپنی جیت کی راہ ہموار کر لی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں یہ مناظر بار بار دیکھنے کو ملے کہ جب بھی کسی ریاستی یا عام انتخابات کا معرکہ درپیش تھا تو بی جے پی بالخصوص نریندر مودی کی جانب سے کسی نہ کسی مذہبی یا ''دیش بھگتی‘‘ کے ایشو کو اچھالنا شروع کر دیا گیا۔ گزشتہ الیکشن میں بھی نریندر مودی کی جانب سے اپنی کارکردگی سے متعلق کم اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی سلور جوبلی کے نعرہ زیادہ لگایا گیا۔ گزشتہ عام انتخابات میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے انتہاپسند اپنی ریلیوں اور جلسوں میں ''رام مندر وہیں بنے گا‘‘ کے نعرے بلند کرتے رہے اور اس نعرے کی پذیرائی دیکھتے ہوئے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے الیکشن کیلئے اس کو باقاعدہ طور پر اپنا منشور کا حصہ بنایا۔ اگست 2020ء میں عین کورونا لاک ڈائون میں‘ کشمیر سے متعلق دفعہ 370 کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے پر فاتحانہ انداز میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھتے ہوئے نریندر مودی نے بڑے فخر سے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اپنا ایک اور انتخابی وعدہ پورا کر دیا ہے۔
اگر بابری مسجد کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایک بات طے ہے کہ یہ مسجد ظہیر الدین بابر کے کسی جذبۂ ایمانی کے تحت نہیں بنی تھی لہٰذا کسی مندر کو توڑ کر وہاں مسجد بنانا بعید از قیاس ہے۔ اس رائے کی تائید درجنوں تحقیقی کتب، مورخین اور محققین کی تحریروں سے بہ آسانی کی جا سکتی ہے جن میں پروفیسر آر ناتھ، پروفیسر سوشیل سریو استوا، پروفیسر ہربنس مکھیا، پروفیسر محب الحسن جیسے بھارت کے بڑے بڑے مورخ بھی شامل ہیں۔ آج بھارت میں جس مغل بادشاہ بابر کے پتلے نذرِ آتش کیے جا رہے ہیں‘ یکم جمادی الاول 935 ہجری کو اسی شہنشاہ بابر نے اپنی تاریخی وصیت پر دستخط کیے تھے جس میں اپنے چہیتے بیٹے اور جانشین ہمایوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا ''تم پر لازم ہے کہ تم اپنی لوحِ دل سے تمام مذہبی تعصبات کو مٹا دو اور ہر مذہب کے طریقے کے مطابق انصاف کرو۔ تم خاص طور پر گائے کی قربانی چھوڑ دو‘ اس سے تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں کو تسخیرکر سکو گے اور اس طرح ہندوستان کی رعایا شاہی احسانات تلے دبی رہے گی۔ جو قوم حکومت کے قوانین کا احترام کرتی ہو‘ اس کے مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرنا۔ عدل و انصاف اس طرح کرو کہ بادشاہ رعایا سے اور رعایا بادشاہ سے خوش رہے‘‘۔ مغل تاریخ سے شناسائی رکھنے والے مورخین اور محققین بجا طور پر آج تشویش میں مبتلا ہیں اور نریندر مودی کو دہلی کے تخت پر براجمان دیکھ کر زوال کی گہرائیوں کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ وہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا تمام مذاہب کا احترام کرنے کی وصیت کرنے والا بادشاہ رام مندر گرا کر مسجد تعمیر کرنے جیسا اقدام کر سکتا تھا؟
کچھ مورخین کا تو یہ بھی ماننا ہے کہ 1992ء میں جس مسجد کو ایودھیا میں شہید کیا گیا‘ اس کا اصل نام بابری مسجد نہیں ببری مسجد تھا۔ وسطی ایشیا کے شہروں میں عہد قدیم میں جو مسجدیں تعمیر کی گئیں‘ خصوصاً سمرقند اور بخارا جیسے تاریخی شہروں میں‘ ان کے بیرونی دروازوں پر دونوں جانب دو ببر شیروں کے عکس بنائے گئے۔ بابر کے ممدوح خواجہ احرار ولی کے مزار کے احاطے میں جو شاندار مسجد اور مدرسہ تعمیر ہے‘ اس کے عالی شان دروازے پر دوڑتے ہوئے شیروں اور بھاگتے ہوئے ہرنوں کی تصویریں آج بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ فارسی ثقافت میں شیر کو قوت و جبروت کی علامت مانا گیا چونکہ وسطی ایشیا میں مسجدوں کو کسی شخص کے نام سے منسوب نہیں کیا جاتا تھا جبکہ بابر کا لفظی معنی بھی چونکہ شیر ہی ہے‘ اس لیے شیروں کی مناسبت سے ایودھیا مسجد کا نام ببری مسجد رکھا گیا جو بابری مسجد کے نام سے زبان زدِ عام ہو گیا۔ بھارت میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی اور دوسری انتہا پسند ہندو تنظیمیں آج تک یہ ثابت نہیں کر سکیں کہ بابر نے اپنے عہد میں کسی مندر یا آشرم کو گرا کر وہاں کوئی مسجد یا مدرسہ تعمیر کیا تھا۔ تاریخی حقائق تو یہ ہیں کہ مغل بادشاہوں سے زیادہ لبرل حکمران دنیا نے شاید ہی کوئی اور دیکھے ہوں۔ شاید ہی کوئی مغل فرمانروا ہو جس کا سپہ سالار یا وزیر خزانہ ہندو دھرم سے تعلق رکھنے والا نہ ہو۔ راجہ بہار مل کے بیٹے بھگوان داس اور بھتیجے مان سنگھ اور ٹوڈر مل کی مثالیں تو سب کے سامنے ہیں۔ ''تزکِ بابری‘‘ میں بابر نے اپنے عہد کے سبھی اہم واقعات کا ذکر کیا ہے‘ درختوں‘ پرندوں‘ عمارات تک کا ذکر اس میں کیا گیا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ رام مندر کے انہدام جیسے اہم ترین واقعے کو فراموش کر دیتا؟
جنوری 1991ء میں‘ جب بابری مسجد اور رام مندر کے تنازع پر ہندو‘ مسلم فسادات اور انتشار کا سلسلہ وسیع ہوا تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم چندر شیکھر نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی جس نے تمام شواہد اکٹھے کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے بعد 13 مئی 1991ء کو اپنی رپورٹ پیش کی جس میں لکھا تھا ''مکمل تحقیق اور ایودھیا کی کھدائی کے دوران وہاں سے حاصل کیے گئے آثارِ قدیمہ‘ جو بنارس یونیورسٹی میں محفوظ کر لیے گئے ہیں‘ سے اس کمیٹی کو اب تک کسی مندر کے دور دور تک آثار دستیاب نہیں ہو سکے اور تاریخی حقائق ثابت کرتے ہیں کہ بابر نے ہندوستان فتح کرنے کے بعد جب اپنے وزیر میر باقی کی زیر نگرانی یہ مسجد تعمیر کرائی تو اس وقت تک یہاں کسی مندر کا وجود نہیں تھا‘‘۔ 2019ء میں جب بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد سے متعلق متنازع ترین فیصلہ سنایا تو یہ بات اس وقت بھی تسلیم کی گئی کہ بابری مسجد کسی مندر کو توڑ کر تعمیر نہیں کی گئی تھی۔
بابری مسجد اور رام مندر کی بحث تو اب ماضی کے دفاتر کا حصہ بن چکی مگر اب اگلا معرکہ بھارت میں سیکولرازم اور ہندو اکثریتی جمہوریت کے مابین لڑا جانا ہے۔ یہ واضح ہے کہ نامکمل مندر کا افتتاح دو مہینوں بعد ہونے والے بھارت کے عام انتخابات پہ اثر انداز ہونے کے لیے کیا گیا۔ یقینا اب رام مندر کو ایک بڑی سیاسی کامیابی کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اب بھارت کے عام انتخابات ہی یہ طے کریں گے کہ ''سیکولر انڈیا‘‘ کا سیاسی مستقبل کیسا ہو گا مگر ایک بات طے ہے کہ ایک ہزار برس تک حکمرانی کے باوجود مسلم حکمرانوں نے عدل و انصاف کو بڑی حد تک قائم رکھا لیکن بی جے پی محض دس برسوں میں ہی بے قابو ہو چکی ہے۔ ہندو راشٹر کے قیام کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی اور مودی ٹولے کا منصوبہ یہ ہے کہ بھارت کی سیاست میں حصہ داری تو کیا‘ مسلمانوں کا رام بھومی پر کوئی وجود بھی باقی نہ رہے۔