سندھ میں چلائی جانے والی پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم ایک طرف لیکن پنجاب میں اس کے لیے صورتحال کچھ امید افزا نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ پنجاب کی صورتحال سندھ کے بالکل ہی بر عکس ہے۔ گوکہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کا سحر کل بھی تھا اور آج بھی ہے مگر یہ سحراب صرف سندھ تک محدود ہو چکا ہے۔ اور اگر کسی وقت سندھ میں ایسے ہی حکومت تبدیل ہوئی جیسے گزشتہ برس اپریل میں مرکز میں ہوئی تھی تو پھر شاید پیپلز پارٹی سندھ سے بھی ایک آدھ نشست بھی مشکل ہی سے نکال پائے گی۔ اس وقت پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر سبھی سیاسی جماعتوں‘ ماسوائے پاکستان تحریک انصاف کے‘ اپنی انتخابی مہم مرضی کے مطابق چلانے کی بھرپور آزادی حاصل ہے۔ چند ماہ پیشتر پورے سندھ کی مختلف تحصیلوں میں جو 35 براہِ راست ڈی ایس پی بھرتی کیے گئے تھے‘ ان کے ہوتے ہوئے وہاں پیپلز پارٹی کو اپنی انتخابی مہم اپنی مرضی کے مطابق چلانے سے کون روک سکتا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو ذوالفقار علی بھٹو کا اپنی پھانسی سے چند ہفتے قبل دیا گیا یہ بیان بہت با معنی تھا کہ ''قبر میں لیٹ کر بھی میں اس ملک پر حکومت کروں گا‘‘ اور آج تقریباً 44برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے مذکورہ بیان کا ہر لفظ اس طرح حقیقت بن کر سامنے کھڑا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے یہ خصوصی ہدایات دی گئی ہیں کہ کسی نے بھی اپنے نام پر ووٹ نہیں مانگنا بلکہ جہاں کہیں بھی ووٹ مانگنے جانا ہے تو یہی کہنا ہے کہ آپ نے مجھے نہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو ووٹ دینا ہے۔
تاریخ میں ایسے کئی مواقع آئے جب پیپلز پارٹی کی حکومت کا محور صرف ذوالفقار علی بھٹو کی ذات تھی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کسی طور بھی منا سب نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کے عوام کے دلوں اور ذہنوں پر اس طرح راج کیا کہ انہیں دیوانگی اور جنون کی حدود سے آگے جا کر چاہا گیا اور جب وہ نفرت اور غصے کا نشانہ بنے تو انتقام کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے انہیں پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا گیا۔ آج یہی صورتحال اس ملک کے ایک اور سیاستدان کو در پیش ہے۔ آج ایک جانب اس ملک کے ایک سابق وزیراعظم کے مخالفین ہیں تو دوسری جانب اس کے اُسی قسم کے حامی ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے گرد موجود تھے۔ اس لیے آج اس ملک کی سیا ست اُسی سیاستدان کے گرد گھوم رہی ہے۔ ایک طرف یہ اکیلا سیاستدان ہے تو دوسری طرف ملک کی باقی ساری سیاسی جماعتیں کھڑی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سیاستدان کو بھی اُسی انجام سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے جس سے کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو ہونا پڑا تھا۔لیکن یاد رہے کہ اگر آج بھی 1979ء والی حکمت عملی اختیار کی گئی تو جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے انجام پر آج بھی اُن کے حامیوں میں غم و غصہ موجود ہے‘ ویسا ہی غم و غصہ اس سیاستدان کے حامیوں میں بھی پیدا ہو جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے انجام کی وجہ سے عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے نواز شریف کو بھٹو خاندان کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا۔ تب سے لے کے 2013ء تک (ن) لیگ کی سیاست کا محور کہیں نہ کہیں پیپلز پارٹی کے گرد ہی گھومتا رہا ہے لیکن اب اس کی جگہ ایک اور سیاستدان اور اُس کی جماعت نے لے لی ہے۔
آج ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حالت دیکھی جائے تو یہ اس قدر پتلی ہے کہ یہ سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سوائے سندھ کے پیپلز پارٹی کا کہیں وجود نہیں ہے تو یہ کچھ غلط نہیں ہو گا۔ گوکہ حالیہ انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں کسی حد تک پیپلز پارٹی کو متحرک کیا ہے لیکن یہ اب بھی اتنی متحرک نہیں ہو سکی جتنی ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو کے دور میں تھی۔ حتیٰ کہ2008ء کے انتخابات میں بھی‘ جب بی بی کی شہادت کو ابھی دو ماہ بھی نہیں گزرے تھے‘ تب بھی پنجاب کے شہر لاہور میں پیپلز پارٹی کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد ناقابلِ یقین حد تک کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ تب پیپلز پارٹی کو حکومت سے الگ ہوئے تقریباً 12سال کا عرصہ بیت چکا تھا اس لیے یہ جواز بھی پیش نہیں کیا جا سکتا کہ اُس کی حالیہ کارگردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے لوگوں نے اُسے ووٹ نہیں دیے تھے۔ یہاں تک کہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور جیالے جہانگیر بدر اور ان کے بیٹے کو بھی لاہور سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دسمبر 2007ء کا حادثہ بھی شہرِ لاہور کو پیپلز پارٹی کی طرف متوجہ نہ کر سکا۔ اگر بلاول بھٹو زرادری کی وجہ سے لاہور میں لوگوں کا پیپلز پارٹی کی طرف ہونے والے تھوڑے بہت رجحان کا موازنہ 2008ء والی صورتحال سے ہی کر لیا جائے تب بھی پیپلز پارٹی کی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ پنجاب میں صرف گوجر خان‘ لالہ موسیٰ اور کسی حد تک جنوبی پنجاب میں ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا‘ یہ ایک علیحدہ اور طویل موضوع ہے جو اس وقت زیر بحث نہیں اس لیے اسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
میرا آج کا موضوع آٹھ فروری کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات اور پی ٹی آئی کے ووٹرز ہیں جنہوں نے اپنے ووٹ سے آنے والے پانچ سالہ حالات کا فیصلہ کرنا ہے۔ اگر تمام مصلحتیں ایک طرف رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو پنجاب میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہے‘ سوائے ملتان‘ مظفر گڑھ اور رحیم یار خان کے جہاں بھٹو کا ووٹر وہاں کی شخصیات کے ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے کچھ پُر امید دکھائی دیتا ہے۔ عام انتخابات کے بارے میں میری پیپلز پارٹی کے بہت سے تجربہ کار صحافیوں‘ اراکین اور ذوالفقار علی بھٹو کے نسل در نسل حامیوں سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو ہیں تو دوسری طرف عمران خان اور نواز شریف ہیں۔ جیالوں کو عمران خان سے کوئی شکوہ‘ کوئی شکایت نہیں کیونکہ نہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل میں کسی بھی طرح شریک تھا اور نہ ہی مٹھائیاں بانٹنے والوں میں شامل تھا بلکہ اپنی تقریروں میں وہ ہمیشہ ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم کو اچھے الفاظ میں یاد کرتا رہا ہے۔ اس لیے ذوالفقار علی بھٹو کا وہ ووٹر جو جانتا ہے کہ لاہور‘ گوجرانوالہ‘ فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت پنجاب کے چند دوسرے شہروں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک سو سے زائد نشستوں پر کسی بھی صورت میں پیپلز پارٹی کا امیدوار پانچ یا دس ہزار سے زائد ووٹ لینے کی پوزیشن میں نہیں تو کیا ان کے لیے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہاں پر وہ اپنا ووٹ ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کے خلاف استعمال میں لائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ووٹر اگراب تک ان کی فکر اور محبت کے سحر میں ہے تو وہ یقینا ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والوں کو نہیں بھولا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہر سال چار اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے فاتحہ خوانی کرنے والے آٹھ فروری کو اپنے ووٹ سے اس کا حساب چکائیں گے یا پھر سے '' بھٹو ہم شرمندہ ہیں‘ تیرے قاتل زندہ ہیں‘‘ کے نعرے لگاتے رہیں گے؟