جب سے تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی ہے‘ مخالفین یہ باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ انتخابی نشان سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ماضی میں بھی سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشان معطل ہوتے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے چند روز قبل وضاحت کی کہ تحریک انصاف کا انتخابی نشان وقتی طور پر معطل ہوا ہے جبکہ یہ اب بھی الیکشن کمیشن کے پاس ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کے طور پر درج ہے۔ غالباً اس بیان کا مقصد ان طبقات کو خبردار کرنا ہے جو اب بھی ''بلے‘‘ کے نشان پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ جونہی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان معطل کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھنے کا حکم سنایا گیا‘ کئی ڈمی سیاسی جماعتوں کی طرف سے فوراً بلے کے نشان کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر دی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے‘ اس کا انتخابی نشان کسی اور کو الاٹ نہیں کیا جا سکتا یہاں تک کہ وہ از خود انتخابی نشان کی تبدیلی کی درخواست نہ دیدے۔ 1996ء میں جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو اگلے سال یعنی 1997ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کا انتخابی نشان چراغ تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کے امیدوار‘ جو چند ایک ہی تھے‘ کے پوسٹرز پر یہ نعرہ لکھا ہوتا تھا کہ ''یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی‘‘۔
1997ء کے الیکشن سے قبل تک کرکٹ بیٹ کا نشان کسی جماعت کے پاس نہیں تھا۔ 1997ء میں ''پاکستان نجات پارٹی‘‘ نامی ایک سیاسی جماعت نے اس کے لیے اپلائی کیا اور پورے پاکستان سے صرف دو امیدوار کھڑے کیے جنہوں نے کل ملا کر چھ سو سے کچھ زائد ووٹ حاصل کیے۔ شاید یہ سیاسی جماعت کسی خاص مقصد کے لیے بنائی گئی تھی کیونکہ 2002ء میں جب دوبارہ الیکشن ہونے لگے تو اس نے انتخابی عمل سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور یوں بلے کا نشان کسی بھی دوسری جماعت کے لیے دستیاب ہو گیا۔ 1997ء میں تحریک انصاف نے سات جنرل نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے اور سب کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چراغ کا انتخابی نشان کچھ دیگر نشانات سے مماثلت رکھتا ہے اس وجہ سے ووٹرز میں کنفیوژن پیدا کرتا ہے چنانچہ 2002ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اپنا انتخابی نشان چراغ سے بدل کر بلا رکھ لیا اور آج یہ بلا نہ صرف تحریک انصاف کے لیے لازم و ملزوم بن چکا ہے بلکہ بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے گلے کی پھانس بھی بن چکا ہے۔
2024ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان کے بغیر میدان میں اترے گی‘ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کا انتخابی نشان شیر‘ جو کبھی پاکستان مسلم لیگ (قیوم) کا انتخابی نشان ہوا کرتا تھا‘ 1993ء سے اس کے پاس ہے اور تب سے آج تک ایک بھی الیکشن میں مسلم لیگ نواز اس انتخابی نشان کے بغیر میدان میں نہیں اتری۔ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی بات کی جائے تو 1970ء اور 1977ء کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو کا انتخابی نشان تلوار تھا جبکہ 1985ء کے انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے اور 1988ء میں پیپلز پارٹی نے تیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا اور تب سے آج تک تمام الیکشن اسی انتخابی نشان پر لڑے۔ لہٰذا جو یہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابی نشان واپس لینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ پی ٹی آئی کو لیول پلینگ فیلڈ میسر ہے‘ وہ ان بنیادی حقائق کو یکسر جھٹلا رہے ہیں کہ اس کی مخالف سیاسی جماعتیں آج تک اپنے مخصوص انتخابی نشان کے بغیر ایک بار بھی الیکشن کے میدان میں نہیں اتریں۔
خیبر پختونخوا سے صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار نے اپنی جماعت کا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد پشاور ہائیکورٹ میں ریٹرننگ افسر کے خلاف پٹیشن داخل کرتے ہوئے گزارش کی کہ جس حلقے سے وہ امیدوار ہے وہاں سے اسے وائلن کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے جبکہ اسی حلقے میں ایک دوسرے امیدوار کو‘ جو ''اتفاق سے‘‘ اس کا ہم نام بھی ہے‘ گٹار کا انتخابی نشان دیا گیا ہے، اس حلقے کے دیہاتی علاقوں میں خواتین سمیت مجموعی ووٹرز کو یہ علم ہی نہیں کہ وائلن اور گٹار میں کیا فرق ہے‘ اس قدر زیادہ نشانات ہونے کے باوجود ایک ہی حلقے میں دو ایک جیسے ناموں والے امیدواروں کو ایسے انتخابی نشان الاٹ کرنا جو ایک دوسرے کے مماثل ہوں‘ آزادانہ رائے کے انتخاب کا حق سلب کرنے کے مترادف ہے۔ اس پر پشاور ہائیکورٹ نے متعلقہ حکام کو طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ مخصوص انتخابی نشان الاٹ کیوں کیا گیا؟ حسبِ توقع اسے سہو قرار دیا گیا جس پر عدالت نے نشان بدلنے کا آرڈر جاری کر دیا۔
اس وقت سبھی ہائیکورٹس میں درجنوں امیدواروں کی ایسی کئی درخواستیں زیر سماعت ہیں جبکہ کچھ پر فیصلہ بھی سنایا جا چکا ہے۔ ملکی تاریخ کا پہلا الیکشن ہے کہ امیدواروں کو عجیب و غریب بلکہ نامناسب قسم کے انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کی گئی ہے۔ اگر کسی نے کیلے، انار یا انگور کا نشان مانگا تو اسے بینگن، بھنڈی اور مولی الاٹ کر دی گئی۔ اگر کسی نے چاند یا جیپ کا نشان مانگا تو اسے کلانٹ اور باجہ دے دیا گیا۔ یہ تو اسی صورت میں درست یا مناسب سمجھا جا سکتا ہے جب ایک نشان کیلئے ایک سے زائد امیدواروں نے درخواستیں دی ہوں، ابھی تک ایسا کچھ سامنے نہیں آیا۔ امیدواروں نے جو انتخابی نشان مانگے‘ وہ دستیاب ہونے کے باوجود انہیں الاٹ نہیں کیے گئے۔ ایسے میں پشاور ہائیکورٹ کا یہ سوال تادیر گونجتا رہے گا کہ کس کے کہنے پر یہ نشانات مسلط کیے جا رہے ہیں۔ یہ کسی ایک انتخابی حلقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہر حلقے میں یہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انتخابی حلقے کی آبادی اور ووٹرز کی تعلیم، شعور اور پہچان کا معیار دیکھ کر ایسے نشان الاٹ کیے گئے کہ بیلٹ پیپر پر مہرلگاتے ہوئے ووٹرز کو پتا ہی نہ چلے کہ کیا کرنا ہے۔ دیہات‘ دور دراز گائوں، چکوک اور گوٹھوں میں ناخواندہ و نیم خواندہ افراد کو گھر گھر تک اپنے انتخابی نشان پہنچانے کا تو امکان ہی بہت کم ہے۔ کسی کو ناک میں پہننے والا کوکا اور کسی کو پائل اور پازیب کا نشان دیا گیا ہے جبکہ بینگن، دروازہ، گھڑیال، انسانی آنکھ، ہوائی جہاز، چائے دانی، انگریزی حروفِ تہجی، کلانٹ اور بھیڑ سمیت نجانے کون کون سے انتخابی نشانات اس وقت الیکشن مہمات میں نظر آ رہے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ ''اب بلا رہا نہیں، اب تیر پر مہر لگائیں کیونکہ اب مقابلہ صرف تیر اور شیر کے درمیان ہے‘‘۔ یعنی پیپلز پارٹی کے چیئرمین خود بھی یہ تسلیم کر رہے ہیں پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان واپس لے کر اس کو عملاً الیکشن سے باہر کر دیا گیا ہے۔ میڈیا پر بھی صرف دو ہی جماعتوں کی کوریج ہو رہی ہے یوں لگتا ہے کہ باقی کوئی الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے رہا۔
گزشتہ دو‘ چار دنوں میں بکثرت یہ مناظر بھی آنکھوں سے دیکھنے کو ملے کہ اگر کسی جگہ کسی پی ٹی آئی کے بینر لگے ہوئے تھے تو فوراً پولیس اہلکاروں نے درانتی لگے بانس سے انہیں چیڑ پھاڑ ڈالا۔ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی ناک تلے ہو رہا ہے۔ الیکشن کمپین اور دفعہ 144 کا نفاذ ساتھ ساتھ جاری ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے لیکن یہ جنگ تو نہیں ہے‘ یہ تو الیکشن ہے‘ عوامی رائے جاننے کیلئے جمہوریت کی وہ سیڑھی جس پر چڑھ کر ملک کے عوام کی اکثریت کسی ایک جماعت کو اپنے حکمرانوں کے طور پر چنتی ہے۔ اگر یہ انتخابات انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو گئے تو پھر ان کے نتیجے میں بننے والی حکومت کی ساکھ کیا ہو گی اور سیاسی بحران اس قسم کے نتخابات کے نتیجے میں ختم ہو گا یا بڑھے گا‘ یہ وہ سوالات ہیں جن پر ابھی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔