"MABC" (space) message & send to 7575

عالمی دہشت گرد

گزشتہ دنوں سیکرٹری خارجہ سائرس سجاد نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے عالمی دہشت گرد ریاست بھارت کے چہرے سے نقاب الٹ کر اسے دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔ سیکرٹری خارجہ نے پاکستانی سرزمین پر پاکستانیوں کے قتل میں ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی ایجنٹ دہشت گردی‘ قتل و غارت اور دیگر مجرمانہ وارداتوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے دو بھارتی ایجنٹس یوگیش کمار اور اشوک کمار کی تفصیلات بھی جاری کیں۔ سائرس سجاد نے بتایا کہ ایک بھارتی ایجنٹ یوگیش کمار راجستھان کے علاقے سری گنگا نگر جبکہ دوسرا اشوک کمار کرناٹک کے کولیہ گاؤں میں پیدا ہوا۔بھارتی ایجنٹوں نے اجرتی قاتلوں کو راولاکوٹ اور ڈسکہ میں دو پاکستانی شہریوں کو قتل کرنے کا ٹارگٹ دیا۔ بھارتی ایجنٹس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اجرتی قاتلوں سے رابطہ کیا اور بیرونی ممالک کے اکاؤنٹس سے ادائیگیاں کی گئیں۔ پاکستان کی فورسز نے جیو لو کیشن ،جیو فینسنگ اور دیگر شواہد کی بنا پر اجرتی قاتلوں کو گرفتار کیا تو انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ ایک قاتل بیرونِ ملک فرار ہونے کی کوشش کے دوران ایئر پورٹ سے گرفتار کیا گیا جس کے بعد اس کے ساتھیوں، آلہ کاروں اور سہولت کاروں کو بھی مختلف شہروں سے گرفتار کر لیا گیا۔ دوسرے کیس میں اجرتی بیرونِ ملک مقیم تھا‘ وہ اس واردات کو انجام دینے کے لیے خود پاکستان آیا‘ یہاں اس نے پانچ افراد پر مشتمل ایک گینگ بنایا اور واردات کو انجام دینے کے بعد بیرونِ ملک جانے سے قبل ہی پکڑا گیا جس پر باقی سب لوگ بھی گرفتار ہو گئے اور اسے ہائر کرنے والا بھارتی ایجنٹ بھی بے نقاب ہو گیا۔
اگرچہ بھارت نے حسبِ روایت پاکستانی الزامات کی تردید کی ہے اور پینترا بدلتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ چونکہ پاکستان میں الیکشن ہو رہے ہیں‘ اس لیے پاکستان بھارت مخالف بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والا طرزِ عمل ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں الیکشن بھارت مخالف جذبات بھڑکا کر نہیں جیتے جاتے‘ یہ حربہ بھارت ہی کو مبارک۔ ایک سابق بھارتی سفارتکار اور تجزیہ کار اشوک سجن ہار نے بھی پاکستانی دفتر خارجہ کے لگائے گئے الزامات کو انتخابات سے جوڑنے سے انکار کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ پاکستان کے انتخابات میں بھارت مخالف بیانیہ کی بنیاد پر مہم نہیں چلائی جاتی لہٰذا اس وقت جو الزام لگایا گیا‘ اس کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان الزامات کو اسی صورت میں انتخابات سے جوڑا جا سکتا تھا جب ایسا الزام کسی سیاسی جماعت یا سیاسی قیادت کی جانب سے لگایا جاتا۔ یہ الزام بلکہ چارج شیٹ دفترِ خارجہ نے بھارت پر عائد کی ہے‘ لہٰذا اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی بھارت صرف پاکستانی سرزمین پر پاکستانیوں کے قتل ہی میں ملوث نہیں ہے بلکہ امریکہ اورکینیڈا نے بھی بھارت پر اپنے شہریوں کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں بھی یہی طریقہ کار استعمال کیا گیا۔پوری دنیا میں بھارت کی نظر میں کھٹکنے والے افراد کی پُراسرار اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے اگرچہ فی الوقت دو کیسز کی تفصیلات شیئر کی ہیں مگر سب جانتے ہیں کہ یہ محض دو کیسز نہیں بلکہ ایک طویل فہرست ہے۔ گزشتہ سال 20 فروری کو راولپنڈی میں بشیر احمد عرف امتیاز عالم کو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ 26 فروری کو گلستان جوہر کراچی میں خالد رضا کو اسی طریقہ کار کے تحت قتل کر دیا گیا۔ مارچ میں مستری زاہد ابراہیم نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ یہ تینوں وہ لوگ تھے جن کا 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک اور بھارتی تسلط کے خلاف جہاد میں اہم کردار رہا تھا۔ اس سے قبل جون 2021ء میں لاہورکے علاقے جوہر ٹائون میں ایک کار بم دھماکے میں ایک مشہور تنظیم کے سربراہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس واقعے کی تفصیلات بھی سامنے آ چکیں کہ اس میں بھارت ملوث تھا۔ 8 ستمبر 2023ء کو راولا کوٹ میں محمد ریاض کشمیری اور 11 اکتوبر کو سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں مشہور مذہبی لیڈر شاہد لطیف کو قتل کیا گیا۔ ان دونوں افراد کو مسجد میں گھس کر دورانِ نماز قتل کیا گیا۔ راولا کوٹ کے واقعے میں بھارتی ایجنٹ اشوک کمار اور ڈسکہ کے واقعے میں یوگیش کمار کے ملوث ہونے کے شواہد دفترِ خارجہ نے اب پیش کر دیے ہیں ۔ ٹارگٹ کلنگ کے مذکورہ واقعات کے بعد بھارتی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا اکائونٹس پر جو ہنگامہ برپا کیا گیا اور جس انداز میں ان واقعات کو ہائی لائٹ کیا گیا‘ وہ بھی نریندر مودی حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ بھارتی چینلز نے مذکورہ تمام واقعات کے بعد مودی کے بیان ''گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘ کو جس طرح شیئر کیا اس سے ان واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے حوالے سے رہا سہا شک بھی دور ہو جاتا ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ دنیا کی وہ کون سی ا طلاعاتی اور خفیہ ایجنسی ہے جو یہ نہیں جانتی کہ ریاستی سطح پر بھارت ہمسایہ ممالک میں نہ صرف دہشت گردوں کو ٹرنینگ دیتا ہے بلکہ ان کی فنڈنگ اور انہیں محفوظ ٹھکانوں سمیت ان کی سپورٹ میں بھی شریک رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے پاس پاکستان کا وہ تصدیق شدہ ڈوزیئر تمام ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے جس میں بھارت کے دہشت گردی کی تربیت دینے والے 87 کیمپوں کی نشاندہی کی گئی۔
بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان کے اندر کرائے جانے والی دہشت گردی کے نتیجے میں اب تک 83 ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں۔قیمتی جانوں کے علاوہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو 126 ارب ڈالر کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان کی پولیس، فوج، ایف سی، لیویز اور خاصہ دار فورس کے علاوہ ایف آئی اے اور سکائوٹس پر کیے گئے حملوں میں دس ہزار سے زائد افسران اور جوان شہید ہوئے۔ کیا عالمی اداروں کو اس حوالے سے کوئی ثبوت دینے کی ضرورت باقی ہے کہ بھارت نے ان دہشت گرد تنظیموں کو کس طرح اور کس قدر فنڈنگ کی؟ کیا امریکہ، کینیڈا، فرانس، برطانیہ اور روس سمیت علاقائی ممالک نہیں جانتے کہ بھارت کے اندر ریاستی سرپرستی میں درجنوں دہشت گردی کیمپس چل رہے ہیں۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں افغان فوج کی نگرانی میں چلنے والے 66 تربیتی مراکز دہشت گردوں کو گوریلا ٹریننگ اور دہشت گردی کی تربیت دیا کرتے تھے‘ کیا یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی ہیں؟ کیا امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں رہتے ہوئے یہ سب کچھ مانیٹر نہیں کیا تھا؟ کیا اقوام متحدہ سمیت عالمی تنظیموں کو دہشت گردی کے ان کیمپوں کے وجود سے لاعلم قرار دیا جا سکتا ہے؟ دنیا بھر کا میڈیا‘ جو افغانستان اور پاکستان میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہے یا انٹرنیشنل میڈیا کے وہ لوگ جو یہاں میڈیا کوریج کے لیے آ چکے ہیں‘ کیا ان سب نے افغانستان میں بھارت کے زیر نگرانی چلنے والے دہشت گرد کیمپوں میں بلوچ قوم پرست دہشت گردوں اور تحریک طالبان کے انتہا پسندوں کے انٹرویوز نہیں کیے؟ کیا ان کیمپوں کو عالمی میڈیا نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رکھا؟ تحریک طالبان پاکستان کے اندر سے مختلف لوگوں کی قیادت میں جو پانچ گروپ علیحدہ ہوئے‘ ان کو دوبارہ کس نے اور کن مقاصد کیلئے یکجا کیا‘ کیا یہ سب باتیں دنیا سے چھپی ہوئی ہیں؟
بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے افغان فوج اور خفیہ ایجنسی خاد اور بعد میں این ڈی ایس کی مدد سے پاکستان میں 19 ہزار سے زائد دہشت گردی کی کارروائیاں کرائیں۔ کچھ کارروائیوں میں اس کی سپیشل فورسز نے دہشت گردوں کی باقاعدہ رہنمائی کی اور دیگر کارروائیوں کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور سرمایہ فراہم کیا۔ یہ کام چھپ کر نہیں ہوا بلکہ بھارت کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کا وہ لیکچر اعترافی بیان کی حیثیت رکھتا ہے کہ ''پاکستان پر فوجی حملہ کرنے کے بجائے ان کے آدمی اپنے ساتھ ملا کر ان کو کروڑوں ڈالر تقسیم کرو، ان کے اندر سے ہی انتہا پسندوں کو ساتھ ملا کر فوج اور عوام کو نشانہ بنائو، یہ سب سے بہتر اور کار آمد حربہ ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں