بات تو پرانی ہے چونکہ نئی سنائی نہیں جا سکتی اس لئے گھسی پٹی‘ جو بھی کہانی سنانے کو ملی ہے وہی سنائے دیتے ہیں۔ بات ہو رہی ہے پرانی کہانیوں کی اور یہ کہانی جو سنانے جا رہا ہوں کچھ اس قسم کی ہے کہ آج کل سنا بھی دی جائے تو یہی لگے گا کہ بالکل کل کی بات ہے۔ جب ایک بھولا بھالا بادشاہ ملک پر حکومت کرتا تھا اور اس وقت جب کسی بڑے عہدیدار کے منصب میں ترقی کے لیے سلیکشن بورڈ کے اجلاس کی کوئی تاریخ مقرر کی جاتی تو اجلاس سے چند دن پہلے پولیس کے متعلقہ افسران کی رپورٹس بارے رائے دینے والے سیکرٹری اچانک چند دن کی رخصت لے کر کہیں چلے جاتے اور وہ افسران‘ جو ترقی کی خبر سننے کے انتظار میں دن گنتے تھے‘ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگتے۔ قریب ہی بیٹھے ہوئے راج ہنسوں کا جوڑا جب یہ کہانی سن رہا تھا تو انہیں اس دور کا وہ قصہ یاد آ گیا کہ کس طرح ایک اعلیٰ منصب دار نے دارالحکومت کے ایس پی ٹریفک کو فون کیا کہ ان کا بیٹا آپ کے پاس آ رہا ہے‘ اس کا ڈرائیونگ لائسنس بنا دیا جائے۔ متعلقہ ایس پی ٹریفک نے ان کے بیٹے کا لرننگ لائسنس تیار کرا کر اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ جب اس کی مدت پوری ہو جائے توآ جایئے گا آپ کا ڈرائیونگ ٹیسٹ لے کر باقاعدہ لائسنس جاری کر دیا جائے گا۔ سیکرٹری صاحب کو ایس ایس پی ٹریفک کی اس حرکت کا پتہ چلا تو وہ سیخ پا ہوکر رہ گئے۔ کچھ ہی عرصہ گزراتھا کہ ایس پی ٹریفک کا تبادلہ بطور ایس ایس پی آپریشن کر دیا گیا ‘اسی دوران وہاں کسی جماعت کے جلوس نے پولیس پر پتھرائو شروع کر دیا جس سے پولیس کے اہلکار زخمی ہو گئے‘ یہ خبر ملتے ہی دارالحکومت میں بیٹھے اعلیٰ حکام نے حکم جاری کیا کہ ان مظاہرین کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے جس پر ‘متعلقہ تھانہ میں مقدمہ درج کر دیا گیا۔ ابھی اس مقدمہ کو درج ہوئے بمشکل تین گھنٹے ہی گزرے ہوں گے کہ شاہی محل سے ایک کال آئی کہ یہ مقدمہ خارج کر دیا جائے اور وہ لوگ جنہوں نے یہ مقدمہ درج کیا ہے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کو فوراًمعطل کیا جائے۔ شاہی محل سے ملنے والے ان احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے اُس عہدیدار نے‘ جس نے سیکرٹری صاحب کے بیٹے کا لائسنس بغیر ٹیسٹ بنانے سے معذرت کر لی تھی ‘اُسے او ایس ڈی اور ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو معطل کر نے کا حکم جاری ہو گیا ۔
یہ سن کر راج ہنس اپنی مادہ ساتھی سے کہنے لگا: پولیس کو لاٹھی چارج کی کیا ضرورت تھی ؟ان کو جلوس نکالنے دیتے خود ہی تھک ہار کر گھروں کو چلے جاتے۔ جس پر کہانی سنانے والے نے زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا: ایک دفعہ ایسا بھی ہوا جب نیک دل آئی جی اور ایس ایس پی نے حکومت کے زبانی احکامات پر دھرنے والوں پر تشدد اور فائرنگ سے انکار کر تے ہوئے صرف اتنا کہا کہ وہ جو بھی کریں گے آئین اور قانون کے مطا بق کریں گے‘ جس پر انہیں ان کی ملازمتوں سے ہی برخاست کر دیا گیا۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب جیسے ہی پولیس دھرنے والوں میں سے کسی کی شکل دیکھتی تو قیدیوں والی گاڑیاں اور موٹے ڈنڈے ان پر اس طرح پل پڑتے‘ جیسے نہ جانے یہ کب سے ان کے انتظار میں پڑے سوکھ رہے تھے۔اس لئے اب سب کو ڈنڈے کا راج دکھائی دیتا ہے۔ کیا کریں اب شایدہر ایک کو اپنی کھال اور کمائے گئے مال کی فکر زیا دہ ہوتی ہے۔ جنگل میں بیٹھا ہوا ر اج ہنسوں کا یہ جوڑا ڈرائیونگ لائسنس اور دھرنے والوں پر تشدد کرنے اور نہ کرنے والے تینوں کرداروں کی روداد سننے کے بعد سوچنے لگا کہ یہ کیسا راج تھا کہ ہر طرف ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ ان کے قریب ہی کہیں ایک الو بیٹھا ان کی باتیں سن رہا تھا‘ اُس نے ان دونوں کے پاس آ کر کہا کہ ایسی بات نہیں اس ویرانی کا بھلا ہم سے کیا لینا دینا۔راج ہنسوں کے جوڑے نے بحث میں پڑنے کی بجائے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔ انہیں جاتے ہوئے دیکھ کر الو نے مادہ راج ہنس کو روک کر کہا کہ تم نہیں جا سکتی کیونکہ ۔ یہ دیکھ کر پہلے تو راج ہنس سمجھا کہ الواس سے مذاق کر رہا ہے اور وہ ہنستے ہوئے وہاں سے نکلنے لگا تو الو نے زبر دستی اس کی ساتھی راج ہنس کو بٹھا کر کہا کہ اس بات کا فیصلہ یہاں کے بڑوں سے کرا لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں ایک کوااعلان کرنے لگا کہ جنگل کے بڑے برگد کے نیچے اکٹھے ہو جائیں ‘ دیکھتے ہی دیکھتے عجب قسم کی آوازیں نکالتے ہوئے سینکڑوں کی تعداد میں جنگل کے باسی برگد کے درخت کے نیچے پہنچ گئے تو الو نے مادہ ہنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سارا واقعہ سنایا کہ الو بالکل غلط کہہ رہا ہے ہم لوگ فلاں جگہ رہتے تھے وہاں سے یہاں آئے تو ایک ہد ہد بیٹھا کہانی سنا رہا تھا‘ اسے سننے کیلئے رک گئے‘ اگر کسی کو شک ہے تو چل کر ہمارے ٹھکانے سے معلوم کر سکتا ہے‘ وہاں سب بتائیں گے کہ ہم دونوں ہمیشہ کے ساتھی ہیں ہم تو اس سامنے والے درخت والے ہد ہد کے پاس بیٹھ کر اس جنگل کی کہانی سن رہے تھے۔ہم نے تو جنگلوں میں رونقیں ہی رونقیں دیکھ رکھی ہیں کہیں پرندے چہچہا تے ہیں اور کہیں جانوروں کی بولیاں سننے کو ملتی ہیں لیکن یہاں کی صورتحال کچھ مختلف سی ہے۔ یوں لگتاہے ہر کوئی سہما ہوا ہے‘اور اس الو سے تو ہماری آج پہلی ملاقات ہے اور بھلا الو اور ہنس میں کیا قدر مشترک؟
جنگل کے باسیوں کی پنچایت میں موجو دسب کچھ دیر آپس میں مشورہ کرنے کے بعد راج ہنسوں سے کہنے لگے: آپ دونوں کی اور الو کی کہانی سننے اور کافی غور و خوض کے بعد ہم سب متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ الو جو کچھ کہہ رہا ہے وہ بالکل صحیح ہے کیونکہ اس کے ساتھ اس کا ساتھی الو نہیں اس لئے مادہ ہنس بھی ہنس نہیں الو ہی ہے‘ اس لیے یہ الو کے ساتھ رہے گی اور نر ہنس کو پنچایت کی طرف سے یہ حکم ہے کہ بجائے ا س کے کہ اس کی وجہ سے جنگل کا سکون خراب ہو وہ فوراًیہاں سے کہیں دورچلا جائے ورنہ اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔راج ہنسوں کا جوڑا جنگل کی پنچایت کی بات سنتے ہی زارو قطار رونے لگا ‘مادہ ہنس نے دہائی دیتے ہوئے ہر طرح کی قسمیں کھائیں کہ وہ راج ہنس کے ساتھ ہے لیکن جنگل کی پنچایت اپنے فیصلے پر قائم رہی اور مادہ ہنس کو الو کے ساتھ جانے کی ایک بار پھر سختی سے تاکید کر دی۔ہر طرف سے مایوس ہو کر راج ہنس جب وہاں سے روتا پیٹتا جانے لگا تو ہد ہد کہنے لگا اب صبر کر بھائی۔